بھارت عقل کے ناخن لے


\"\"پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارتی آرمی چیف کے اس دعویٰ کو پھر مسترد کیا ہے کہ ستمبر میں بھارت نے کسی پاکستانی علاقے میں کوئی سرجیکل اسٹرائیک کی تھی یا وہ مستقبل میں اس قسم کا کوئی اقدام کرنے کا حوصلہ کر سکتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ٹویٹ پیغام کے ذریعے پاک آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ پاکستانی افواج اپنے وطن کی سرحدوں کا تحفظ کرنے کے لئے پوری طرح چوکس ہیں۔ اس دوران جنرل باجوہ نے خضدار میں سی پیک کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پر عملدرآمد کے ساتھ بلوچستان میں امن تباہ کرنے کی سازشیں بھی دم توڑنے لگیں گی۔ انہوں نے بلوچستان کے نوجوانوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نسل صوبے اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں مثبت کردار ادا کرنے کے لئے پرعزم ہے۔

اس دوران چین کے سرکاری روزنامہ گلوبل ٹائمز نے بھارت کے میزائل پروگرام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ بھارت نے حال ہی میں اگنی 4 اور اگنی 5 بلاسٹک میزائل کے تجربے کئے ہیں۔ یہ میزائل سسٹم نیوکلیئر ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بالترتیب چار اور پانچ ہزار کلومیٹر تک مار کرسکتے ہیں۔ ان میزائلوں کے تجربہ کے بعد بھارتی میڈیا نے یہ دعوے کرنے کی کوشش کی ہے کہ بھارت اب چین کے ہر علاقے پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اخبار نے بھارت کی اس سوچ کو منفی قرار دیتے ہوئے اسے چین کے ساتھ مفاہمانہ تعلقات استوار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

پاکستان کے آرمی چیف کے بیان اور چینی اخبار کے اداریئے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان اور چین علاقے میں مفاہمت اور عدم تشدد کے ماحول کو فروغ دے کر بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ لیکن دونوں ممالک بھارت کی جارحیت اور دھمکی آمیز رویہ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جنرل باجوہ اور چینی اخبار کے اداریئے میں یہی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس علاقے میں جنگ مسائل کا حل نہیں ہے لیکن اگر بھارت نے جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو اسے خود اس کا عبرتناک خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ پاکستان کی طرف سے ان بھارتی دعوؤں کی تردید کی جا تی رہی ہے کہ اس نے اوڑی فوجی کیمپ پر دہشت گرد حملہ کا بدلہ لینے کے لئے پاکستانی علاقے میں سرجیکل اسٹرائیک کی تھی۔ پاک فوج کے دفتر تعلقات عامہ نے پاکستانی اور عالمی میڈیا کے نمائندوں کو لائن آف کنٹرول کا دورہ کروا کے ان علاقوں کا معائنہ کروایا تھا جہاں نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعے دہشت گردوں کے کیمپ تباہ کئے گئے تھے۔ اس کے برعکس بھارتی فوج کبھی اپنے دعوؤں کا ثبوت دینے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ عام طور سے یہ سمجھا جاتا رہا تھا کہ بھارت نے یہ دعویٰ ملک کی سیاسی قیادت کی خواہش پر کیا تھا تاکہ وہ اپنے عوام میں ابھارے گئے قوم پرستانہ جنگجویانہ جذبات کی تسکین کرسکے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تاہم جنرل بیپن راوت نے 31 دسمبر کو بھارتی فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد ایک بار پھر سرجیکل اسٹرائیک کی کہانی دہرائی ہے اور یہ دھمکی بھی دی ہے کہ بھارت مستقبل میں بھی اس قسم کا حملہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے صرف پاکستان پر غرانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ بھارتی افواج سیاسی قیادت کے اشارے پر بیک وقت پاکستان اور چین کے خلاف جنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ پاکستان اور چین مسلسل بھارت کے ساتھ مفاہمت ، مذاکرات اور دوستی کی بات کرتے ہیں لیکن بھارت اس کے جواب میں دھمکی آمیز طرزعمل اختیار کرنا ضروری سمجھتا ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف بھی چند روز قبل اس بات کو دہرا چکے ہیں کہ پاکستان پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے لیکن اسے پاکستان کی کمزوری پر محمول نہ کیا جائے۔ اسی خیر سگالی کا اظہار کرنے کے لئے پاکستان اور چین کی جانب سے گزشتہ دنوں بھارت کو پاک چین راہداری منصوبہ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ گوادر سے کاشغر اور افغانستان و وسطی ایشیا کے ممالک تک جانے والے اس مواصلاتی روٹ میں بھارت کی شمولیت سے خطے کے سب ملکوں کے علاوہ بھارتی معیشت کو ناقابل بیان فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ بھارتی قیادت ابھی تک پاکستان اور چین کی طرف سے دوستی اور تعاون کے ان اشاروں کو سمجھنے سے گریز کر رہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ امریکہ میں نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت کے ساتھ فوجی تعاون میں اضافہ کریں گے اور چین کے خلاف محاذ آرائی کے لئے بھارت کو اہمیت دی جائے گی۔ بھارتی لیڈر یہ سمجھنے سے بھی قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ اول تو ڈونلڈ ٹرمپ کی تمام پالیسیاں ابھی غیر واضح ہیں۔ ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہی اس حوالے سے صورتحال واضح ہو سکے گی۔ اس کے علاوہ ٹرمپ چین کے ساتھ تجارتی اور معاشی مسابقت کی بات کرتے ہیں۔ وہ خود سرمایہ دار ہیں اور جنگ کو مسائل کا حل نہیں سمجھتے۔ وہ یہ واضح بھی کر چکے ہیں کہ برسر اقتدار آنے کے بعد وہ امریکہ کی ایسی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو تبدیل کریں گے جن کی وجہ سے امریکی ٹیکس دہندگان کو غیر ضروری مالی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

اس کے باوجود بھارتی لیڈر اور اس کی افواج کے نئے سربراہ غیر معمولی طور سے غیر محتاط اور جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹویٹ پیغام اور خضدار میں تقریر کے ذریعے ان دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی افواج اپنی سرزمین کا دفاع کرنے اور کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لئے پوری طرح چوکس اور تیار ہیں اور بھارت کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے سی پیک منصوبے کے اقتصادی ترقی میں کردار اور علاقے میں اس کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ بلوچستان میں بدامنی اور انتشار پیدا کرنے کی بھارتی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ پاکستان سی پیک کے ذریعے جوں جوں ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرے گا، بلوچستان میں دشمنوں کے عزائم خاک میں ملیں گے۔

اسی طرح چینی اخبار گلوبل ٹائمز نے ’’بھارت کو میزائل بخار کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے‘‘ کے عنوان سے اداریئے میں دو باتیں واضح کی ہیں۔ اخبار نے لکھا ہے کہ بھارت اپنے میزائل پروگرام کے ذریعے مقررہ عالمی حدود کو عبور کر رہا ہے اور امریکہ و مغربی ممالک بھارت کو جوہری طاقت سمجھتے ہوئے رعایات دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ پاکستان کو نظر انداز کر رہے ہیں اور برصغیر کے دونوں ملکوں کے درمیان طاقت کے توازن کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ البتہ چین اس قسم کا رویہ قبول نہیں کرے گا۔ اگر بھارت نے چین کا مقابلہ کرنے کی خواہش اور ضد میں میزائل تجربے جاری رکھے تو چین اس حوالے سے پاکستان کی مدد کرے گا تا کہ وہ بھی اپنی میزائل اور جوہری صلاحیتوں میں اضافہ کرسکے۔ گلوبل ٹائمز نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ بھارت بھلے پوری دنیا پر مار کرنے والے میزائل بنا لے اور جوہری صلاحیتوں میں اضافہ کر لے لیکن وہ چین کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ بھارت کی قومی پیداوار چین کی قومی پیداوار کے مقابلے میں صرف 20 فیصد ہے اور اس کی فوجی قوت اور اسلحہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا چین کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اس لئے بھارت کو چین کے ساتھ جنگ کرنے کا خواب دیکھنے کی بجائے، اس کی طرف سے دوستی اور خیر سگالی کے جذبہ کا احترام کرتے ہوئے مفاہمانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔

چین کے سرکاری اخبار کے اس دوٹوک موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین بھارتی جارحیت کے مقابلے میں پاکستان کو تنہا چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ پاکستان اس کے تجارتی اور معاشی مفادات کی تکمیل میں بنیادی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اس سے قبل یہی اخبار ایک اداریئے میں امریکی نومنتخب صدر کی طرف سے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کرنے کے اعلانات پر تبصرہ کرتے ہوئے واضح کر چکا ہے کہ اگر امریکہ اور روس اپنے جوہری اثاثوں میں اضافہ کرتے ہیں تو چین بھی کسی صورت ان سے پیچھے نہیں رہے گا۔ چین عالمی منظر نامہ میں ایک اہم قوت کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے امریکہ کی حکمت عملی پر نظر رکھنا ہوگی۔ اگر امریکہ نے دنیا کے کسی بھی خطہ سے چین کو نشانہ بنانے کی حماقت کی تو اس کو پتہ ہونا چاہئے کہ چین اس کا تباہ کن جواب دینے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ اخبار کے مطابق جوہری صلاحیتوں میں اضافہ کا مقصد امریکہ کے عسکری عزائم کو ناکام بنانا ہے۔ اسی طرح چین کو جنگ سے بچایا جا سکتا ہے اورعالمی امن کے لئے کوششیں تیز کی جا سکتی ہیں۔

دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے سبب پرانے معاشی اور عسکری اشتراک ختم ہو رہے ہیں۔ نئی گروہ بندیاں سامنے آ رہی ہیں۔ واشنگٹن میں ٹرمپ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد صورتحال زیادہ واضح ہو سکے گی۔ البتہ یہ قیاس کر لینا خام خیالی ہوگی کہ امریکہ بھارت کے ذریعے چین کے خلاف محاذ کو مضبوط کرنے کے لئے اقدامات کرے گا اور بھارت کو اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دبانے کے لئے مہم جوئی کی اجازت دے گا۔ اب دنیا معاشی مقابلے بازی کی طرف بڑھ رہی ہے اور اسی شعبہ میں آگے بڑھنے یا پیچھے رہ جانے کے باعث ہی کسی ملک کی قوت یا کامیابی کا تعین ہوگا۔ چین اور دیگر عالمی طاقتیں اس حقیقت کو بھانپ چکی ہیں۔ بھارت بھی اس سچائی کو تسلیم کرلے تو یہ اس کے اور خطے کے لئے اچھا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments