’ہم سب‘ ایک درس گاہ


\"\"کہتے ہیں لکھنے سے لکھنا، بولنے سے بولنا اور پڑھنے سے پڑھنا آتا ہے، میرے خیال میں ایسا بالکل درست ہے۔پڑھنے اور لکھنے کے عمل میں ’ہم سب‘ میرے لیے ایک درس گاہ ہے کہ پہلے پہل میں نے یہاں بہت سے مضامین پڑھے،رنگ رنگ کے موضوع، ڈھنگ ڈھنگ کی منطقیں، شائستہ لب و لہجہ، بامنطق اختلاف، معیاری کتب کے نام، معروف لکھاریوں کے کارنامے،صرف یہی سب میں نے آپ سب سے نہیں سیکھا، میرا مطلب ہے ’ہم سب‘ سے۔ بلکہ فہرست طویل ہے۔
سب سے بڑھ کر، خود پر ہونے والی تنقید کو برداشت کرنا، اپنے شائع شدہ موقف پر دوسروں کے موقف کو خوش آمدید کہنا، سوال اٹھانا، تلخ سولات کا سامنا مسکرا کر کرنا۔ یہ سب کچھ’ ہم سب‘ سے میں نے سیکھا ہے۔
حال ہی میں،مجھے ہم سب سے کچھ بہت دلچسپ اور نرالا سیکھنے کو ملااور وہ تھا، ڈرائی فروٹ کی افادیت، چلغوزوں کی شیطانیاں، اخروٹوں کی غلطیاں، کیلوں کے نقائص، سب سے بڑھ کر، چھلکے اور بغیر چھلکے کے پھل میں فرق۔ میرے سیکھنے کا سلسلہ پھلوں تک ہی محدود نہیں۔ڈیٹنگ جیسے نازک ایشو پر بھی اب میں بہت کچھ جان چکا ہوں،ماں باپ کو بتا کر کرنی ہے یا نہیں،اخلاقی ہے یا غیر اخلاقی، مسائل کیا ہیں،حل کیا؟
مجھے مسرت ہے کہ ہم سب پر ہرطرح کے موضوع پر قلم کشائی کی جاتی ہے، اس سے قبل بیشتر مسائل پر محض انگریزی زبان ہی میں لکھا جاتا تھا، بہت سے انگریزی ویب سائٹس کو پڑھ کر ان کے موضوعات اور مضامین میں مجھے نئی زندگی محسوس ہوتی تھی اور اردو کولے کر خاصی مایوسی، واضح رہے بات یہاں آن لائن بلاگ کی ہورہی ہے۔ جب سے میں نے ہم سب کو جانا ہے،میری یہ محرومی بھی دور ہوگئی ہے۔
خوشی اس بات کی بھی ہے کہ یہاں، مرد خواتین،کسی بھی موضوع پر آزادی سے لکھ سکتے ہیں۔یہاں پر خواجہ سراﺅں کے حقوق پر بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ مجھے امید ہے مستقبل میں بہت سے نوجوان یہاں سے اظہار خیال کا آغاز کریں گے اور ایک دن پڑھتے پڑھتے، لکھتے لکھتے، شاید لکھاری بن جائیں گے۔
بے شک پڑھنے سے پڑھنا اور لکھنے سے لکھنا آ ہی جاتا ہے،اس معاملے میں ’ہم سب‘ میرے لیے ایک درس گاہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments