وسی بابا۔۔۔ ایک دیو ہیکل کی اختصار نویسی


مغرب میں فن کار بننا بہت آسان ہے۔ بس آپ فن کاری دکھائیں، کوئی نقاد اس فن کی خوبیاں بیان کرے گا، اور دُنیا آپ کو فن کار تسلیم کر لے گی۔ ہمارے یہاں المیہ یہ نہیں کہ فن کار نہیں پیدا ہوتے؛ جب بچے پیدا ہوتے ہیں، تو ڈاکٹر انجینیئر، بس ڈرائیور، موچی، نائی، اور فن کار بھی ضرور پیدا ہوتے ہوں گے۔ نہیں پیدا ہوتے تو محض نقاد نہیں پیدا ہوتے۔ اس لیے آپ نے دیکھا یہاں نقاد نہ پیدا ہونے کا یہ نقصان ہوا کہ اصلی فن کاروں کے اصلی فن کی خوبیاں آشکار نہ ہوسکیں۔ چوں کہ مغربی ناقدین یہاں کی زبانوں سے نا آشنا ہیں، اس لیے وہ یہ خوبیاں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ گو کہ وہ مغربی نقاد یہ خوبیاں محسوس ضرور کرتے ہیں، پیدائشی نقاد میں یہ صلاحیت ہوتی ہے، کہ وہ محسوس کر لیتا ہے۔ قدرت کا یہ اصول ہے کہ کبھی ”خلا“ نہیں رہتا۔ خلا کو ہوا پر کر دیتی ہے۔ یونھی ہمارے یہاں جب نقاد نہیں پیدا ہوتا، تو اس ”خلا“ کو مولوی پر کر دیتے ہیں؛ مولوی کو انگریزی، فرانسیسی، جرمن، چینی، عربی زبانیں آتی ہوں یا نہ آتی ہوں؛ یہ ہمیشہ ان تحریروں میں یہودی سازش محسوس کر نے میں ہر صورت کام یاب رہے ہیں۔ وسی بابا اُن بد قسمت فن کاروں میں سے ایک ہیں، جنھیں کوئی ”مولوی“ بھی دست یاب نہ ہوا۔

 ڈیڑھ دو صدی پہلے اُدھر دہلی میں ایک نابغہ اسد اللہ غالب کا ظہور ہوا۔ آپ لکھتا، آپ پڑھتا، آپ ہی اٹھائے پھرتا؛ اس کے سوا کسی کو سمجھ نہ آتا، کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے۔ سوشل میڈیا کا زمانہ نہ تھا، اس لیے اس کے شب و روز انتہائی کس مہ پرسی کے عالم میں بسر ہوئے۔ غالب کبھی ڈاک خانے کے باہر بیٹھ کر خط لکھتا (یہ خطوط بعد میں مشہور بھی ہوئے) تو کبھی انگریز شاہ کی مدح کر کے ”پانی“ کا سامان کرتا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ”سی پیک“ کا آغاز کیا، تو غالب کا کچھ آسرا ہوا۔ تواریخ خاموش ہے، کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سی پیک میں‌غالب نے انگریزوں کے لیے کیا خدمات سر انجام دیں، لیکن ایک خط میں غالب کی کالے سیاہ دخانی انجن کے قصیدے کہنا یہ ظاہر کرتا ہے، کہ انگریز نے اس ذکر کا غالب کو کچھ نہ کچھ ادا کیا ہوگا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں، کہ خط لکھوانے والا جب معاوضہ دیتا ہے، تو جذبات بھی اسی کے شامل کیے جاتے ہیں۔ خدارا ان حوالوں اور وسی بابا کے گوادر کے عظیم سفرنامے کے بیچ میں کوئی ربط تلاش کرنے کی کوشش مت کیجیے گا۔ ایک کالم نگار اور ڈاک خانے کے باہر بیٹھے مضمون نویس میں فرق کرنا سیکھیے۔ کالم نگار بکاو ہرگز نہیں ہوتا۔ ہوا یوں کہ غالب مر گیا، اور مولوی حالی زندہ رہا۔ اس مولوی نے پھر جو غالب کے کرتوت بیان کیے تو غالب ایسا زندہ ہوا، کہ آج مولوی حالی کو کوئی جانے نہ جانے، دُنیا غالب کے نام سے ضرور آشنا ہے۔ میں نے سوچا جب یہاں نقاد ہی نہیں پیدا ہو رہے، تو دوست کے لیے مولوی بننے میں کیا حرج ہے۔ آئیے آپ کے سامنے وسی بابا کو کھود کر لاوں۔

 وسی بابا ایک ایسے نابغہ ہیں، جنھیں بازغہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہیے۔ جیسے نابغہ اور بازغہ میں کوئی نسبت نہیں، ویسے عطا اللہ نیازی اور وسی بابا میں کیا مشترک ہے، اس پر تحقیق جاری ہے۔ کچی پکی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے، کہ یہ دونوں فن کار رُلانے کی کوشش میں جنتا کو ہنسانے میں کام یاب رہے ہیں۔ آئیے وسی بابا کے ایک بہ ترین کالم سے ایک دل کش بند ملاحظہ کرتے ہیں۔ اس مضمون کا عنوان ہے، ”رانجھے کی تلاش۔“

”ایک بار بولی۔ دوسری بار نہ بولی۔ اودھر لگی ڈیوٹی انگریز بابے کے ساتھ۔ ٹیلا تھا۔ سمندر، نیچے پہاڑ۔ وہ اتری جب نیچے تو سبھی کہا اسے دیکھ کر وشملے۔ گجرا آلے میں اپنا ننھیال ہے۔ پاس پنڈ پھالیہ۔ اک طرف نہر وگھدی ہے۔ دریا دوسری طرف۔ میں گنے چوپتا ادھر پھرتا۔ ڈانگ اٹھائے وہ آ گیا۔ کہا یہ اتارو، اودھر دریا میں اترو۔ نئیں تو ادھر نہر۔ باندر کلے کی پریکٹس بہت کی بچپن میں؛ کھوتے دا پتر؛ اچھلتا درخت میں چڑھ گیا۔ وہ نیچے کھڑا کچیچیاں بھرا کیا۔ وادیاں سوات کی دیکھ ہنزہ بہت یاد آیا۔ پشور میں اپنے دھنیے کے باغ ہیں، ادھر اسلام اباد میں خجل خواری۔ نیکر پہنے ناشتا کرتا۔ وشملے“

گویا کوزے کو سمندر میں سمو دیا ہے۔ یہ بیان یہ جلال، یہ گہرائی، گیرائی (گری میوا) تس پہ پذیرائی؛ وشملے۔ یہ ہوتا ہے، جادو۔ یہ ہوتا ہے، فن۔ آپ ایک بار پھر اس ”نمونے“ کو دیکھیے؛ تحریر ہے گویا زبان کا جادو۔ ایسی نظر بندی کی ہے، کہ سمجھ نہیں آتا، ٹوپی میں سے خرگوش کیوں کر نکلا۔ وسی بابا ان فن کاروں میں سے ہیں، جو لفظ کا ضیاع نہیں کرتے، حرام ہے ان کی تحریر میں ایک بھی لفظ اضافی ہو۔ اکثر قاری کا قیمتی وقت بچانے کے لیے وہ الفاظ بھی چھوڑ دیتے ہیں، جنھیں ”حروف جار“ یا انگریزی میں ”ہیلپنگ ورڈز“ کہا جاتا ہے۔ تس پہ بھی تسلی نہ ہو، تو فل اسٹاپ کامے پر بھی تکیہ نہیں کرتے۔ آج زمانہ اتنا تیز رفتار ہو گیا ہے، کہ قاری کا قیمتی وقت ضائع کرنا جرم مانا جاتا ہے۔ اس بات کو ”ہم سب“ میں لکھنے والے سب مصنفین تسلیم کر چکے ہیں، کہ قاری کا وقت بچایا جائے، لیکن کیسے! اس راز کو فقط وسی بابا ہی جان پائے ہیں۔ میں گزارش کرتا ہوں، سب لکھنے والوں سے کہ وہ وسی بابا کی تحریروں کا بار بار بار مطالعہ کریں، تا کہ مختصر نویسی کے اسلوب سے آشنا ہو سکیں۔ آئیے ایک اور ”نمونہ“ دیکھتے ہیں۔

”مروڑ اٹھا پیٹ رویا اماں نے چماٹ دی رکھ کچہری اندروں۔ سچ ہے ماواں ٹھنڈ چھانواں۔“

آپ نے غور کیا، ”ٹھنڈیاں“ بھی مکمل نہیں لکھا، ”ٹھنڈ“ سے کام نکالا۔ پھر وہ بات جسے کہنے کے لیے صفحوں کے صفحے درکار ہوتے ہیں، اس بات کو وسی بابا نے دو سطروں میں کیسے آسانی سے کہ دیا۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے نا فرمان کی ہے، جس نے ساری عمر اپنی ماں کو کوئی سکھ نہیں دیا، اور اب رکشا چلا رہا ہے۔ ایک دن وسی بابا اس کے رکشے میں سوار ہوا، تو اُس کے رکشے کی چیخیں نکل گئیں۔ اُس نے وسی بابا کو یہ داستان سنائی کہ اس نے اپنی ماں کو کوئی سکھ نہیں دیا، ماں نے کہا ”پڑھ لے، پڑھ لے۔“ پڑھ کے نہ دیا، روز بہانے بناتا کہ میرے پیٹ میں درد ہے، مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ اماں تمانچے مار مار اسکول بھیجنے کی فریاد کرتی رہی، لیکن سب بے کار گیا۔ اگر وہ ماں کی بات مان لیتا، کچھ پڑھ لیتا، تو اور کچھ نہیں کچہری میں مجسٹریٹ ہوتا، نہ ہوتا تو کسی وکیل کا منشی لگ جاتا، جو وکیل سے بھی زیادہ کما لیتا ہے۔

کئی بار یوں بھی دیکھا گیا ہے، کہ وسی بابا نے صرف عنوان بھجوا دیا، کہ اسے شائع کر دیا جائے۔ مدیر نے پوچھا مضمون کہاں ہے؟ وسی بابا نے بتایا کہ ”عنوان ہی کافی ہے۔ استاد وسی بابا کے بہ قول جب ایک بات عنوان میں کہ دی، تو اس کے لیے مزید لکیریں کھینچنے کی کیا ضرورت؟ واہ وا استاد وا۔ یعنی سادگی دیکھیے، اختصار کی حد کر دی۔ چوں کہ وسی بابا ہر دل عزیز قلم کار ہیں، تو ”سب اڈیٹر“ ایسے عنوان تلے اپنی طرف سے مضمون باندھ کر شائع کر دیتا ہے، تا کہ صفحہ خالی نہ جائے۔ وسی بابا کے ناقدین یعنی ”ملا“ ایسے مضامین کو ایک ہی نظر میں بھانپ لیتے ہیں۔ ایسی تحریروں میں وہ خوبیاں کہاں جو وسی بابا کے شایان شان ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ مستقبل قریب میں بھی کوئی ایسا ہے، جو وسی بابا کے فن کو پہنچتا ہو۔ غالب کو کھوجنے کے لیے ایک مولوی کافی تھا، وسی بابا کو کھودنے کے لیے ایک سے زیادہ مولویوں کی ضروت ہے۔ یہ اکیلے ظفر کا کام نہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments