لوئس پاسچر


\"\"قسطنطنیہ وہ اہم شہر ہے جس کی فتح کی پیش گوئی کے بارے میں پیغمبر اسلام کی کئی احادیث بھی منقول ہیں مثلاً اسے کوئی پیغمبروں کے نام والاحکمران فتح کرے گا اس لیے اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالمالک سمیت کئی مسلمان حکمرانوں نے اس پر ناکام چڑھائی کی اور بالآخر1453ءمیں سلطان محمد فاتح کے حصے میں یہ خوش بختی آئی اور اس نے قسطنطیہ فتح کیا۔اس فتح کے ساتھ یورپ کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا کیونکہ مسلمانوں نے جہادبالمال کے نام پر ایشیا اور یورپ کو جوڑنے والی شاہراہ ریشم(Silk Route) پر ٹیکس لگا دیا۔اس ٹیکس سے بچنے کے لیے یورپی تاجروں نے بھارت اور چین کو جانے والے کسی ایسے راستے کی تلاش شروع کر دی جو عثمانی سلطنت کے ٹیکس یا لوٹ کا بہترین متبادل ہو لیکن افریقہ سے گزر کر بھارت یا چین پہنچنا کسی بھی طرح سے مالی طور پر موزوں نہیں تھا۔ بھارت اور چین کا سمندر ی راستہ ڈھونڈنے کے لیے کئی سیاح روانہ ہوئے۔بھارت کامتبادل سمندری راستہ تو نہ مل سکا ۔ لیکن ان راستہ کھوجنے والے سیاحوں میں سے ایک نے جس کا نام(Christopher Columbus)کرسٹوفر کولمبس تھا، نے1492ءمیں حادثاتی طور پر ایک نیا براعظم امریکہ دریافت کر لیا۔
دوسری کہانی الیگزینڈر فلیمنگ(Alexander Fleming)کی ہے جو کہ اپنے دوستوں میں ایک لاپرواہ لیب ٹیکنیشن کے طور پر مشہور تھا ایک دن شوربے پربیکٹیریااگا کر ایک تجربہ کر رہا تھا اس کی ناک کی رطوبت بیکٹیریا اور شوربے والی شیشے کی تھالی میں گر گئی اور وہ تجرباتی پلیٹوں کو دھوئے بغیر دو ہفتے کی چھٹیوں پر چلا گیا لیکن چھٹیوں کے بعد واپسی پر اس نے دیکھا کہ اس رطوبت کی وجہ سے شوربے اور بیکٹیریا والی پلیٹوں میں پھپھوندی اگ آئی تھی اور حیران کن طور پر سارے بیکٹیریا مر چکے تھے اوربیکٹیریا کی نشونما رک گئی تھی۔ لیکن یہ لاپرواہی ایک معجزہ ثابت ہوئی اور پینسلین کی دریافت کا سبب بن گئی جس نے اینٹی بائیوٹکس ادویات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔
تیسری کہانیاس لحاظ سے اور بھی زیادہ ڈرامائی ہے کہ کیسے الیکٹرونکس کی دنیا کا ماہر پرسی سپنسر(Percy spencer)جو کہ نیوی میں تھا پہلی جنگ عظیم میں اپنی خدمات انجام دینے کے بعدریٹائر ہوا توایک دن ریڈار میں استعمال ہونے والے مائیکرو ویوپیدا کرنے والے ایک مقناطیسی آلے کوٹھیک کر رہا تھا جب اس نے اپنی پینٹ میں عجیب سی سنسنی اور گیلا پن محسوس کیا۔ اس نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو دیکھا کہ جیب میں موجود چاکلیٹ پگھل چکی تھی جو اسے گرماہٹ اور گیلے پن کا ملا جلا احساس دے رہی تھی۔چاکلیٹ کا یہ حادثاتی طور پر پگھلنا مائیکروویو اوون کی ایجاد کا سبب بن گیا۔
چوتھی کہانی ہنری بیکرل سے شروع ہوتی ہے جس نے ایک ایسا عنصر دریافت کیا جس کو لوہے کی طرح سے لال سرخ اور گرم کیے بغیر ہی شعاعیں خارج ہو رہی تھیں ایسے عنصرکو ریڈیوایکٹو عناصر کا نام دیا گیا، ہنری بیکرل کے کام کو لے کر چلتے ہوئے ہی بعد میں میری کیوری(marie curie)اور پیری کیوری(Pierre curie) نے اس کام کو مزید بڑھاوا دیا اورپولونیم (polonium)اور ریڈیم(Radium)نامی دو ریڈیو ایکٹو عناصر مزید دریافت کیے۔ لیکن یہ بات دیکھنے میں آئی کہ ان دونوں عناصر سے نکلنے والی شعاعوں سے انسانی جسم کے خلیات کی موت واقع ہو رہی تھی۔یہ شعاعیں انسانی جسم کے لیے بہت زیادہ خطرناک تھیں۔ان دونوں عناصر کی خلیات کو مارنے والی خصوصیت کو کینسر والے خلیات پر آزمایا گیا اور یوںاس وقت تک کی ایک لاعلاج مرض کینسرکاشعاعوں کے ذریعے علاج دریافت ہو گیا۔
اوپر بیان کی گئی کہانیاں صرف چرب زبانی نہیں ہے بلکہ حقیقت ہیں کہ انسان ترقی کے جس مقام پر کھڑا ہے اس کی اکثردریافتیں اور ایجادات ایسی ہیں جن کے لیے اس نے سرے سے کوشش ہی نہیں کی، بلکہ اکثر ایجادات ایسی ہیںجو اتفاقًا یاحادثاتی طورپر وجود میں آگئیں حالانکہ ان کے موجد کچھ اور تلاش کر رہے ہوتے تھے۔
مثلاً کرسٹوفر کولمبس کبھی بھی امریکہ دریافت کرنے کے لیے نہیں نکلا تھا، الیگزینڈر فلیمنگ کا مقصد پینسیلین ایجاد کرنا قطعی نہیں تھا، نہ ہی مائیکروویواوون ایجاد کرنے کا مقصد کبھی پرسی سپنسر کی ترجیحات کاحصہ رہا تھااور نہ ہی میری کیوری سرطان جیسے موذی مرض کا علاج ڈھونڈ رہی تھی۔
لوئس پاسچر کا کہنا ہے کہ قسمت ہمیشہ ان لوگوں کو موقع فراہم کرتی ہے جو ذہنی طور پر کوئی کام کرنے کے لیے مصمم ارادے کے ساتھ تیارہوں
In the field of observation, chance favors only the prepared minds.“
یہ حقیقت ہے کہ جب بھی انسان کچھ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیتا ہے تو اس کو منزل نہ بھی ملے منزل کے راستے میںکوئی ایسی چیز ضرور مل جاتی ہے جو اسکی محنت کا مناسب نعم البدل ہوتی ہے لیکن سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمارے ارادے میں لغزش نہ ہو اور ہماری کچھ کرگزرنے کی نیت ہو۔اور ہمارا ذہن ہر طرح کے تجربات کھلے ذہن سے قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔مثلاً پولونیم سے نکلنے والی شعاعیں جو کہ انسانی خلیات کو مار رہی تھی اگر اس وقت میری کیوری کا ذہن ان شعاعوں کے کینسر زدہ خلیات کے لیے استعمال کی طرف نہ جاتا تو آج تاریخ کچھ اور ہوتی۔ الیگزینڈر فلیمنگ پھپھوندی کو دیکھ کر غور نہ کرتاتو پھر بھی تاریخ یکسر مختلف ہوتی۔پرسی سپنسر چاکلیٹ کے پگھلنے پر غور نہ کرتا خود تصور کریں کہ مائیکرووویواوون کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ کولمبس امریکہ کے جزیرے کو انڈیا سمجھ لیتا تو شاید کچھ صدیوں تک مزید دنیا کے نقشے امریکہ کے بغیر ہی بنتے رہتے۔
میرے مطابق قدرت ایک دفعہ موقع سب کو نہیں تو اکثر کو ضرور فراہم کرتی ہے اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے یونہی گنوا دیتے ہیں یا تاریخ رقم کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ:
”جاگدیاں دیاں کٹیاں، تے ستیاں دے کٹے“
تو محنت انہی کی رنگ لاتی ہے جو جاگ رہے ہوتے ہیںجتنی لازمی چیز یہ ہے کہ ہم نے گھر سے چلتے وقت منزل کا تعین کیا کیااس سے بھی کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہم نے دوران سفر اپنی آنکھیں کھلی رکھیں یا نہیں۔یہ چیز بھی ضروری ہے کہ ہمارے اندر کچھ کرنے کی خواہش ہمیشہ زندہ رہے پھر راستہ لازمی مل جائے گا کیونکہ
خواہشیں دل میں رہیں گی تو رہو گے زندہ
سب سے مشکل ہے کسی کام کی خواہش کرنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments