ہم سب کے پڑھنے لکھنے والے شرپسند


کل ہم سب والوں کی اسلام آباد میں ایک محفل جمی تھی۔ لائبریری تھی جہاں ہمارا اجلاس ہو جاتا ہے کبھی کبھی۔ گڑ تھا حلوہ تھا کھجور تھی سلمانی قہوہ تھا بغیر چینی کے۔ ایسے میں اگر کوئی شاعری سنانے لگے جسے سنانا آتا ہو، جس کی ادائیگی شاعروں سے بھی اچھی ہو تو آپ کسی اور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔

ہم پانچ تھے عثمان قاضی، عاصم بخشی، وقار ملک، ظفر اللہ خان اور وسی بابا۔

عثمان قاضی کی لائبریری میں دس ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں۔ گپ ہی لگتی ہے، گپ ہی سمجھیں، وہ ساری اس نے یاد کر رکھی ہیں۔ مت مانیں کبھی کوئی حوالہ غلط دے لکھ کر دیکھیں۔ قاضی کہیں سے بھی نمودار ہو جائے گا آپ کی طبعیت صاف کر دے گا۔ عاصم بخشی اچھے اچھوں کے لئے ایک امتحان ہے۔ نہیں ماننا مت مانیں اس کی لکھی تحریر پڑھ لیں۔ غش کھا کر جب بحال ہوں کوئی کسر باقی ہو تو اس سال اس نے اپنی زیر مطالعہ کتابوں کا تعارف بھی لکھا ہے ایک نظر اس پر ڈال لیں۔ اپنے سکول کو اپنی تعلیم کو اپنے آپ کو خاصی ملامت کرنے لگتا ہے بندہ۔ اپنا آپ بالکل جاہل محسوس ہوتا ہے۔

قاضی اور بخشی گپ لگا رہے ہوں تو آپ بہت کچھ سیکھیں گے۔ آپ کا دل چاہے گا کہ کوئی نہ بولے آپ ان دونوں کو سنتے رہیں۔ جو کچھ آپ سنیں گے اس کو برا بھلا بھی استعمال کرنا سیکھ لیں تو پڑھی لکھی محفلوں میں کرنٹ چھوڑ سکیں گے۔ وقار بیٹھا ہو تو بات کچھ بھی ہو رہی ہو، کوئی بھی کر رہا ہو۔ ذرا دم لینے کو رکے سہی کوئی۔ وقار ساری محفل کو اٹھا کر شمال میں لے جائے گا۔ وادیوں کی شام، کسی رقص اور کسی حسن کا قصہ شروع کر دے گا۔ یہ صرف شروعات ہے۔ اس کا پارٹی گھیرنے کا انداز ہے۔ وہ آپ کو چار چار غوطے نفسیات اور فزکس میں بھی دے گا۔ یہ دونوں مضمون وہ پڑھتا ہے۔

یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کے سامنے سر جھکا کر آنکھیں بند کر کے بیٹھنا چاہیے کہ گیان ملے۔ پر ایسا ہر گز نہیں ہوتا بخشی کو ہم اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ بات شروع کرنے سے پہلے ادھر ادھر دیکھتا ہے کہ وسی بابا دیکھ یا سن تو نہیں رہا۔ قاضی نے دنیا دیکھ رکھی ہے وہ بات کرنے سے پہلے آپ کے منہ میں سلمانی چائے کا کپ پھنسا دے گا کہ بک بک کا امکان ہی نہ رہے۔ وقار جب بھی کچھ لکھتا ہے ڈوب کر لکھتا ہے۔ اس کی تحریر میں آنسو ہوا کرتے تھے جس میں یہ اپنے قاری کو ڈبو کر مارنے کے چکر میں رہتا تھا۔ اب سدھر گیا ہے کچھ کچھ ۔ اس کو سدھارنے کے لئے کیا کیا سنایا گیا ہے اسی سے پوچھیں اگر بتا دے تو۔

آپ شاید ظفر اللہ کے تعارف کا انتظار کر رہے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں۔ اس ظالم کی جپھی بہت مزے کی ہے۔ کچھ ایسا ویسا نہ سمجھیں بہت گرمجوشی سے گلے ملتا ہے۔

یہ سب لوگ ایک دوسرے کے واقف نہیں تھے۔ ہم سب پر ہی ایک دوسرے سے ملے ہیں۔ اب ملتے رہتے ہیں ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے ناں؟ کرتے ہیں پر جتنا ہو سکے بزت بھی کرتے ہیں اک دوجے کو کچھ برا لکھنے پر، پسند نہ آنے پر۔ بزت کرنے سے یاد آیا آپ کو پتہ ہے کسی پنڈ میں چور پکڑا جائے تو اس کے ساتھ کتنا پیار کرتے ہیں پھر پنڈ والے۔ ہم سب کے لکھاریوں کو بھی وہی پیار ملتا ہے ہر تحریر پر ملتا ہے۔

ظفر اللہ ایک مہان انسان ہے۔ یار دوست ہے۔ جب کسی کو اپنے مداحوں سے ایسا پیار ملتے دیکھتا ہے جو چوروں کو پکڑے جانے پر پولیس دیتی ہے یا پنڈ والے۔ ایسے وقت میں پھر ظفر کچھ ایسا لکھے گا، آپ کی مدد کو آئے گا کہ سب کا دھیان اس کی جانب ہو جائے۔ اس کی جتنی مرضی ٹکور ہو جائے یہ کبھی ذکر نہیں کرے گا کوئی آہ نہیں بھرے گا۔ کبھی نہیں بولے گا کہ یہ اس لئے لکھا تھا کہ وسی بابے تیرے ساتھ اکیلے ہوتے دیکھی نہیں جا رہی تھی۔

ہم لوگ اتنے اکیلے بھی نہیں ہیں یاروں دوستوں والے ہیں۔ یہ ہر پارٹی میں ہیں ان دوستوں پر ہمیں بڑا مان ہے۔ جب ان کی پارٹیوں پر کچھ لکھ بیٹھیں تو پھر یہ دوست یاریاں نبھاتے ہیں۔ اپنی اپنی پارٹی کے جتنے کن ٹٹے ہتھ چھٹ ہوں ان کا ہماری جانب دھیان ڈلوا دیتے ہیں۔

ایسا ہی ایک وقت تھا وسی بابا کچھ لکھ بیٹھا تھا۔ حسب معمول عامر خاکوانی کا فون آ چکا تھا۔ یار تم کیسے پختون ہو قبائلی ہو کیسے ایسی بکواس لکھ لیتے ہو۔ آپ اس وقت انہیں بتائیں بھی کہ یار گھر میں تو پنجابی بولتا ہوں پر یہ کدھر سنتے ہیں۔ اگلا سوال کریں گے کہ تمھارے گھر والے تمھیں نکالتے کیوں نہیں گھر سے۔ انہیں بتاتے رہیں کہ نکال چکے ہیں پر کون سنتا ہے غصے میں۔ خاکوانی اپنی تحریر میں اعتدال کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے اور جب فون کرتے ہیں تو بی پی چڑھا ہوتا ہے اعتدال منجی تھلے چھپ چکا ہوتا ہے۔ یہ تب تک گرجتے برستے ہیں جب تک غم سے بیہوش نہ ہو جائیں۔ اس کے بعد اپ ان سے ڈرے پھر رہے ہوں گے۔ یہ ملیں گے تو اپنی مرضی کے آپ کے کسی بلاگ کی تعریف کریں گے۔ آپ بھلے سوچتے رہیں کہ وہ فون کرنے والا کون تھا۔

ہمارے غم ہم سب کے پڑھنے والوں سے ہی متعلق نہیں ہیں۔ اپنے ساتھی بھی ایسے ہیں کہ ان سے دشمن اچھے۔ عدنان کاکڑ سائبر ورلڈ کے ایک پاکستانی وائرس کا نام ہے۔ سارا دن لکھتا رہتا ہے پڑھتا رہتا ہے۔ جتنا برا لکھتا ہے اس سے زیادہ برا پڑھتا ہے۔ سائبر ورلڈ کے کسی کونے میں دو لوگوں نے اپنے انباکس میں بھی آپ کے متعلق کوئی بری بات کہی ہو گی۔ یہ وہ کاپی کر کے لے آئے گا دس بندوں کے درمیان پھینک کر بولے گا ’یہ دیکھیں وسی بابے کے ایک مردم شناس مداح کا تبصرہ‘۔ وہ تبصرہ ایسا ہو گا کہ بندے کا جوگ لینے کو دل کرے۔

ہم سب سے جلنے والے بھی کچھ ہمارے مہربان ہیں۔ ان کا حسرتوں بھرا سوال ہوتا ہے یہ ہم سب پر اتنے حسین چہرے کہاں سے لکھنے آتے ہیں۔ اتنا اچھا لکھنے والی خواتین اتنی بڑی تعداد میں کدھر سے آ گئی ہیں۔ مجال ہے کہ پتہ ہو کدھر سے آئی ہیں۔ صرف ایک کی بات سنیں، رامش کو آپ نے کبھی پڑھا ہی ہو گا۔ جس مسئلے سے اچھے اچھے جانے مانے بہادر لوگ لکھنے سے کنی کتراتے ہیں، رامش اس پر لکھ دے گی۔ وہ بھی ایسے جیسے لفظ نہ ہوں کالے ناگ ہوں۔

ہم سب پر بہت دوست ملے ہیں۔ ان کا تعارف تو ہوتا ہی رہے گا۔ ہم سب کو کچھ پڑھنے والے بھی ایسے ملے ہیں جنہیں لکھنا چاہیے۔

بلوچستان سے کچھ دوست ملے ہیں۔ زلفی ہے جو ہمیں دوست نما دشمن کہتا ہے۔ مہر جان ہے جس کو لکھاریوں سے اہل دانش سے گلہ ہے کہ اس کے لوگوں کی، اس کے مسئلوں کی بات نہیں کرتے۔ آپ کچھ بھی ان کی طبعیت کے خلاف لکھیں یہ اس کا نوٹس لیں گے آپ کا احتساب کریں گے۔ آپ کے ہر لفظ کو پکڑیں گے وضاحت مانگیں گے۔ کہیں اپنی طرف سے ان کے حق میں لکھ دیں تو ان جیسا بے نیاز کوئی نہیں۔ آپ سوچتے رہیں انتظار کریں کہ یہ کچھ بولیں یہ نظرانداز ہی کریں گے۔ اس مسلسل اختلاف نے ایک پیار کا تعلق بنا دیا ہے ہمارا۔

ہم سب نے فاصلے کم کیے ہیں۔ بہت دور دور تک ہم سب پہنچے ہیں۔ آپ سب آئے ہیں۔ بات ہو رہی ہے۔ ہم سب کی اصلاح کر رہے ہیں اور سب مل کر ہماری اصلاح کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ رابطے بڑھ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو ہم جان رہے ہیں۔ ہم روز اپنی بات کہنے آتے ہیں، آتے رہیں گے۔

ہم سب کو شروع ہوئے سال ہونے کو آیا۔ اس کی کامیابی ناکامی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کے بعد دونوں مقبول سائٹ بھی ہم سب کے پرانے ساتھیوں کی ہی متعارف کردہ ہیں۔

آئیں ایک سال اکٹھے چلنے کی خوشی مناتے ہیں۔ ہم سب کے بہت ساتھیوں کا تعارف رہ گیا ہے۔ وہ بھی کرائیں گے پہلے جن کا کرا دیا ہے ان سے تو انعام لے لوں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments