انسان فرشتہ ہوتا ہے نہ شیطان


\"\"تجزیہ تعصب کی نہیں حقائق کی بنیاد پر سودمند ثابت ہو تا ہے۔ من حیث القوم ہم جذبات کے دریا میں غوطے لگانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ،جودل کو بھاتا ہے اسے فرشتہ جو پسند نہ ہو اسے شیطان سمجھتے ہیں۔ ہم کسی انسان یا واقعہ کا تجزیہ کر تے ہیں تو اپنے ذہن میں ایک تصویر ،ایک خاکہ پہلے ہی بنا چکے ہو تے ہیں اور پھر اپنی رائے بدلنا،اپنے نظریات اورخیالات کی نوک پلک کر نا اپنی توہین گمان کرتے ہیں۔
آپ تنہائی میں بیٹھ کرٹھنڈے دل سے غور کیجئے، ہمارے رویوں میں کس قدر تضاد ہے مثلا ًاگر ہمیں عمران خان پسند ہے تو ہم اس کے غلط فیصلوں کو صحیح ثابت کر نے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زورلگادیں گے ،نواز شریف کی شکل اچھی نہ لگے تو اس کے ہر قابل تحسین اقدام کے خلاف دلائل تراشیں گے ،تحریک انصاف سے خدا واسطے کا بیر ہو تو شوکت خانم ، نمل یونیورسٹی اورخیبر پختونخوا میں چن چن کر کیڑے نکالیں گے ، اگر شیر ہمارا نشان ہو تو ترقی کی آڑ میں تبا ہ ہوتا لاہور کا تاریخی ورثہ ہم نظر انداز کر جائیں گے ،پنجاب پولیس کی بدمعاشی انتظام کاری کی بہترین مثال قرار دیں گے،پاناما کیس پر گفتگو ہمیں تنگ کرنے لگے گی۔اس تضاد کو بہر حال ہمیں سمجھنا چاہئے۔کوئی چیر نہ بالکل سیاہ ہوتی ہے نہ سفید۔جب ہم black and whiteکے گل دستے میں سوچ کی کوئی بیل سیچنے کی کوشش کرتے ہیں تو جھاڑ ،کانٹوں کے سوا نتیجہ کچھ نہیں ہو تا۔
اس حقیقت کا اعتراف کہ اوسط درجے کا تعلیم یافتہ انسان شاید غیر جانب داری کے خطوط پر سوچنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو ۔ سوشل میڈیا پر سرگرم نوجوانوں کو دیکھئے۔ گالی ،دھمکی ان کی زبان پر ہے مگر دلیل نہیں۔پھر اگر وہ جواب دیتے ہیں تو اس طرح :نواز شریف چور ہے،عمران خان کا ڈوپ ٹیسٹ کراو¿، مولانا ڈیزل ،بل ڈوگ….اوربھی کئی ہیں جنہیں لکھناگوارا نہیں۔ہم مگر انہیں بھی نظر انداز کر تے ہیں کہ ان کی عمر کم اور خون گرم ہے۔مگر اس مہذب اور شعور یافتہ طبقے کا کیا کیجئے جو پڑھ لکھ کرتجزیے داغتا ہے ، جنہیں لوگ سنتے اورپڑھتے ہیں۔کبھی غور کیجئے،اخباری کا لموں ،ٹیلی ویژناسکرینوں اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مصنف یکطرفہ موقف بیان کر تے ہیں۔
ان کے لکھنے میں ایک ڈھلان سی ہو تی ہے۔ایک زاویہ ہو تا ہے جسے وہ ایک منظم ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ کیا یہ دانشورانہ منافقت نہیں ؟ مطلب کی سچائی پیش کر دینا ، دوسرا رخ چھپا لینا کیا اخلاقی جرم نہیں ؟ کوئی کسی پارٹی کا کالم نگار ،کوئی کسی ایجنسی کا صحافی ،کو ئی چینل کی پالیسیtowکرنے، کوئی سیکولر ازم یا مذہب کی گیند گول تک لے جانے والا اینکر۔۔۔صحافت کے میدان میں صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے والے اب کتنے رہ گئے ہیں ؟شاید انگلیوں پر انہیں گنا جا سکتا ہے۔کسی پھل دار درخت کی آبیاری کے لئے، دانشور خواہش کی عینک اتار کر سچ اور جھوٹ کو جدا کریں۔اگرچہ یہ کام سہل نہیں مگر قوم کی سوچ میں تبدیلی کے لئے یہ رویہ پہلا بیج ثابت ہو سکتا ہے۔
انسان مشین نہیں جسے پروگرامنگ سے چلایا جا سکے اور کوئی تجزیہ کار بھی غیر جانبد ار نہیں ہو تا یقیناً اس کی رائے اور سوچنے کا ایک مخصوص زاویہ نگا ہ ہو تا ہے مگر جب اس کے جملوں میں تعصب کی رمق در آئے تو یہیں سے معاشرے میں ذہنی خلفشار کا آغاز ہو تا ہے کیونکہ صحافی ،دانشور،مصنف قوم کا مزاج بناتے ہیں اور رائے عامہ میں ان کا کردار کلیدی ہو تا ہے۔ذرائع ابلاغ میں زبان او ر قلم سے جہاد کرنے والے جب اپنی خواہشات کی بنیاد پر تجزیے کرتے ہیں تو یہیں سے خرابی کا آغاز ہو تا ہے۔معاشرہ کسی کو سیاہ ، کسی کو سفید تصورکرتاہے۔ایک کوشش اہل علم کی طرف سے ہو نی چاہئے (جن کا معاشرے پر اثرو رسوخ ہے )وہ یہ کہ ہم اس قوم کو ایک نکتے پر لے آئیں :انسان فرشتہ ہوتا ہے نہ شیطان۔ یہ کام صرف ایک ہی طبقہ کر سکتا ہے ،وہ جس کے ہاتھوں میں ذہنوں کو بدل دینے کا ہنر ہے :ٹیلی ویژن ،اخبارات اور سوشل میڈیا پرسرگرم اہل علم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments