سیاستدان فوج جیسی کوالٹی بھی تو لائیں


محمود خان اچکزئی نے ایک بار سیاپا کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے پچاس کی دہائی میں فیصلہ کیا کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل بننی چاہیے کتنی دہائیاں بیت گئیں فوج کے ادارے کا موقف یہی رہا کہ یہ بننی چاہیے کیونکہ ادارے نے یہ موقف کوئی ہوم ورک کر کے اختیار کیا تھا۔ اس کے برعکس سیاستدان بیان دینے کے بعد ابھی اس کی گونج ختم نہیں ہوتی کہ اپنی ہی بات کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں اسی سیکیورٹی کونسل کے مسئلے پر سیاستدانوں کا موقف مختلف برسوں، مہینوں اور ہفتوں میں مختلف ہوتا ہے۔

فوج میں بھی ایسے خاندان ہیں جو کئی نسل سے فوج ہی میں آ رہے ہیں، شجاعت اور حوصلے کی ایک تاریخ بناتے ہیں جو اگلی نسل کو منتقل ہو جاتی ہے لیکن وہاں ایک فرق ہے۔ ضروری نہیں کہ جرنیل کا بیٹا جرنیل ہی بنے وہ نچلے عہدوں پر بھی ریٹائر ہو جاتا ہے جبکہ حوالدار کے بچے اگر فوج میں آئیں تو چیف کے عہدے تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ جنرل موسی خان سپاہی سے آرمی چیف بننے کی الگ مثال کے طور پر بھی موجود ہیں۔

سیاسی جماعتوں میں ایسی مثالیں کم کم ہیں۔ لیڈر کا بیٹا لیڈر ہی ہوتا ہے البتہ لقمان قاضی نوشہرہ جماعت اسلامی کے ایک ضلعی عہدیدار ہیں جبکہ ان کے والد جماعت اسلامی کے امیر رہے۔ یہ ایک مثال ہے جو پیش کی جا سکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی فیصلہ تو کرے کہ وہ مذہبی جماعت ہے یا سیاسی۔ یہ جملہ نظر انداز ہی کیا جائے کہ مقصد صرف صالحین کو چھیڑ کر لطف اٹھانا ہے۔ خوباں کے غمزے نہ سہی، شتر غمزہ سہی۔

راحیل شریف جن دنوں ایڈجوٹنٹ تھے انہوں نے ایک دن اپنے کمانڈر سے کہا کہ سر میں اس پوسٹ پر تین چار دن بعد اپنے بھائی کا ریکارڈ توڑنے والا ہوں وہ اپنے بھائی میجر شبیر شریف نشان حیدر کی بات کر رہے تھے جو خود بھی ایڈجوٹنٹ رہے تھے۔ راحیل شریف کو اگلے ہی دن وہاں سے ٹرانسفر کر دیا گیا وہ اپنے بھائی کا ریکارڈ توڑنے میں ناکام رہے۔ یہ فوج کی اپنے بڑے ناموں کے بارے میں حساسیت بھی ہے اور اداروں میں ڈسپلن بھی ایسے ہی بنتا ہے۔

سیاستدانوں میں ایسا ڈسپلن سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ شریف فیملی کی اگلی نسل کے آگے سفید بالوں والے سیاستدان منتخب نمائندے ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا صرف مسلم لیگ ہی میں نہیں ہوتا، ساری پارٹیوں کا ایک سا ہی حال ہے۔ جماعت اسلامی کو اس حوالے اس استثنا حاصل ہے یا الطاف بھائی متحدہ کے عہدیداروں کو موم کی ناک بنائے رکھتے ہیں جہاں دل کرے، چپکا دیتے ہیں وہ چاہیں تو دیوار پر بھی چپکا سکتے ہیں اور بوری میں تو ڈال ہی سکتے ہیں خیر۔

جب ہم لوگ اختیارات اور پاور شئرنگ کے لئے سول ملٹری ملاکھڑا ہوتے دیکھتے ہیں ایک بات نظر انداز کرتے ہیں کہ فوج ایک مستحکم ادارہ ہے جو پاکستان سے بھی نہ صرف پرانا ہے بلکہ اس کا استحکام شروع ہی سے مثالی رہا ہے۔ پروفیشنل ازم کی ایک تاریخ ہے۔ فوج کے اندر ترقی کرنے کا بھی ایک نظام ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے اس کے علاوہ یہ ادارہ مختلف حوالوں سے اپنی پالیسی رکھتا ہے جس پر سوچ بچار کا عمل مستقل جاری رہتا ہے۔

پالیسی کو اگر غلط بھی مان لیں تو اس کی جزیات تک پر ایک لمبا سوچ بچار کا عمل ہوا ہوتا ہے۔ افغان پالیسی، کشمیر پالیسی اور نیشنل سیکیورٹی پالیسی ان سب پر مختلف شعبوں میں غور ہوتا ہے، ان کا جائزہ لیا جاتا ہے، نفع نقصان کا حساب لگتا رہتا ہے۔ اس سب کے ساتھ اگر سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کے پالیسی بنانے کے عمل کا جائزہ لیا جائے تو مایوسی ہوتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں پالیسی معملات ان کے حوالے کیے جاتے ہیں جن کو اصل سیاسی فیصلوں کی ہوا بھی نہیں لگنے دی جاتی نہ انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کیا جاتا ہے۔

اے این پی کے ایک ضلع ناظم ہیں۔ اب بھی اسی عہدے پر ہیں۔ سٹوڈنٹ لیڈر رہے ہیں ان کا قول ہے کہ دانشور لوگ اینوئیں دماغ خراب کرتے ہیں ان کو پارٹیوں میں نہیں ہونا چاہیے۔ الیکٹورل پالیٹکس میں بار بار جیت کر آنے والے ایک اہم بندے کے یہ خیالات ہیں۔ ہمارے لیڈر حضرات ٹھیک ہیں ان کی صورتحال کے بارے میں سمجھ بوجھ بھی اچھی ہے، ان کے فیصلے بھی برے نہیں ہوتے۔ لیکن ان کا اپنے ساتھیوں سے ذہنی فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ ان کے کارکن اپنے لیڈر کے خیالات پر عمل درآمد کی وہ صلاحیت نہیں رکھتے جو فوج کا خاصہ ہے۔ فیصلوں پر عملدرآمد میں فوج کی صلاحیت کا کسی سے کوئی موازنہ ہی نہیں۔ سیاستدان تو چھوڑیں، ہماری بیوروکریسی بھی اس حوالے سے لاچار ہی دکھائی دیتی ہے۔

جب ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے فوج کی کامیابیوں کا جائزہ لیتے ہیں ساتھ ہی سیاستدانوں اور سول انتظامیہ کو لاتیں رسید کرتے ہیں تو دونوں کے پروفیشنل ازم کے موازنے کو دھیان ہی میں نہیں لاتے۔ سیاستدانوں کو اگر اختیارات میں اپنا حصہ بڑھانا ہے تو انہیں اپنی کارکردگی پر بھی دھیان دینا ہو گا۔ دفاعی امور خارجہ امور قانون خزانہ بارے پارلیمانی کمیٹیوں کو اپنی کارکردگی اس معیار پر لانی ہو گی کہ ادارے طاقت کی منتقلی کرتے ہوئے کسی شک شبہے کا شکار نہ ہوں۔ نرم الفاظ بھی استعمال کیے جائیں تو پارلیمانی کمیٹیوں کی کارکردگی ہر گز مثالی نہیں ہے۔

نواز شریف کا ان کی کابینہ سے موازنہ کیا جائے تو وزیر داخلہ یا کسی تک حد وزیر خزانہ ہی ہیں جو کچھ کرتے دکھائی دیتے ہیں یا اپنے محکموں میں اپنے فیصلے کرتے ہیں باقی وزرا میں سے اکثریت ذہنی معذروں کا ٹولہ ہی دکھائی دیتی ہے۔ یہی حال کپتان کی پارٹی کا بھی ہے جس میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر نہیں ہے صوبائی حکومت میں وزیراعلی کے علاوہ کسی وزیر کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ سندھ حکومت کا جو حال رینجر نے اور پی پی قائد نے کر رکھا ہے، اس کے بعد حکومت میونسپلٹی جیسی لگتی ہے۔

ہم معاشرے میں اجتماعی بہتری کی امید تبھی کر سکتے ہیں جب ہماری دوسری اور تیسری لائین کی سیاسی قیادت بھی کار سرکار کے بارے میں وہ مطلوبہ مہارت رکھتی ہو جو ہماری لیڈر شپ رکھتی ہے۔ لیڈر جیسا ویژن اس کے ساتھیوں کا بھی ہو۔ آسان زبان میں سمجھنا ہے تو پھر کپتان کے ساتھی بھی، کپتان جیسے نہیں، تو اس سے کم بھی نہ ہوں۔ کارکردگی میں، احتجاج میں نہیں۔
Feb 8, 2016

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments