سماج کا کپڑا، چلغوزہ اور دو چینک چائے



ماما قادرکے سامنے سبز قہوے کا فنجان رکھا ہوا تھا اور ماما خم پہ خم انڈیلے جا رہے تھے۔عرض کیا ماما حال دو، گزشتہ آٹھ ماہ میں کیا کھویا کیا پایا؟ ماما نے آہستہ سے سر اٹھایا، ایک ابرو کو پینتالیس کے آکڑے پر لیگ سلپ کی طرح کیچنگ پوزیشن پر جمایا اور بولے، حال تو اچھا ہے مگر بہت عرصے سے ہم کو علم کا بدہضمی ہو گیا ہے۔عرض کیا ماما یہ علم کی بدہضمی والی اصطلاح پہلی بار سنی ہے۔ ماما تھوڑی دیر سوچتے رہے پھر بولے، ہم اخبار پڑھتا ہے۔ ٹی وی پر ٹاک شوز دیکھتا ہے۔ سمارٹ فون استعمال کرتا ہے۔ فیس بک، وٹس ایپ ، وائبر استعمال کرتا ہے۔ مسجد سے نکل کردیوار پر لگے اشتہار پڑھتا ہے۔ دیواروں پر لکھے سیاسی نعرے دیکھتا ہے۔بنگالی باباﺅں کے محبوب مسخر کرنے اشہاروں پر نظر پڑتا ہے۔ سنیاسی باباﺅں کے مردانہ طاقت والے اشتہار دیکھتا ہے۔ ریما گر گئی، میرا نے غلط انگریزی بول دی، مولوی عبدالقوی خطرناک بیماری میں مبتلا، وقار ذکا ایلومناٹی، یروشلم کا جادوئی پتھرہوا میں معلق، جاوید ہاشمی ویاگرا کا بیوپاری وغیرہ وغیرہ جیسی خبروں کوسنتا ہے۔ دو قومی نظریہ، ہندو بنیا کی سازش، کشمیر بنے گا پاکستان، پاک فوج زندہ باد، دہشت گرودوں کی ٹوٹی کمر، غوری میزائل، ایٹم بم گرا کر دہلی کو نیست و نابود کرنا، غزوہ ہند، لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم جیسی باتیں سنتا ہے۔کافر ، مشرک، گستاخ، پھانسی دو، قتل کرو، سر تن سے جدا کر دو کے نعرے دیکھتا ، سنتا ہے۔ یہودی سازش، صیہونی ایجنڈا، سرخ ریچھ، گرم پانی، افغان جہاد، ملا عمر کی خلافت، برما کے مظلوم روہنگیا، فلسطین، چیچنیا، عراق، قذافی اسٹڈیم، حلب جل رہا ہے، آئی ایم اوریا، آئی ایم اردوان، سیکولروں کے بدنما چہرے، لبرل ایجنڈا، فحاشی و عریانی کے علمبردار، موم بتی مافیا جیسی چیزیں دیکھتا ہے۔ تو پھر علم کا بدہضمی کیسا نیا اصطلاح ہو گیا؟

 ماما آپ تو علم کی دنیا کے آدمی ہیں آپ کہاں ان عوامی باتوں میں پھنس گئے ہیں؟

تم ہمارا بات نہیں سمجھا۔ صبر کرو ہم ذرا نماز پڑھ کر آتا ہے۔

تھوڑی دیر بعد ماما پھر تشریف لائے اور ہوٹل والے کو آواز دی، ہلکا! دو چینک چائے اور لاﺅ۔ اچھا تو تم کیا بول رہا تھا کہ ہم علم کا دنیا کا آدمی ہے؟

 جی ماما یہی بول رہا تھا۔

تم کو معلوم ہے کہ اس ملک کا بڑا بڑامسائل کیا ہیں؟

کافی سارے مسائل ہیں جیسے غربت، لاقانونیت، دہشت گردی اور انتہا پسندی، بے روزگاری، معاشی بحران، توانائی کا بحران ۔۔۔

بس بس رکو رکو ! تم بہت دور چلا گیا۔ہم بتاتا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔

 بتائیں کیا ہے؟

 اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ چلغوزہ ہے۔

 ہائیں! ماما اب یہ تو آپ مسخری کر رہے ہیں۔ یہ چلغوزہ چلغوزہ بہت ہو گیا۔ اب کوئی اور بات کریں۔

 نہیں ہم سنجیدہ ہے۔

میں سمجھا نہیں ماما، مطلب کیسے؟

دیکھو اس وقت ہمارا اس سماج میں بیک وقت کئی تصوراتی گروہ موجود ہیں۔ ایک گروہ دوسرے کو مسلمان بنا نے کا فکر میں ہے جبکہ دوسرا گروہ انسانیت سکھا رہا ہے۔ ان میں سے ایک گروہ کا خیال ہے کہ وہ ایک آفاقی نظریئے کے علمبردار ہیں۔ اب وہ ہیں یا نہیں اس پر تو بعد میں بات ہو گی مگر اس نے خود آفاقی نظریئے کا علمبرار قرار دیا ہے۔ آفاقی نظریئے کا حامل کوئی بھی شخص میرے سمیت اپنے فکر میں غلطی کو احتمال کے طور پر بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔چونکہ یہ عقیدے کا مسئلہ ہے اور ہم چونکہ مسلمان ہے ابھی نماز پڑھ کر آیا ہے تو دلیل کے طور پر تسلیم کر لو کہ آفاقی نظریئے کو تو ہم بھی درست تسلیم کرتا ہے۔ یہاں تک بات ٹھیک ہو گیا؟

یہاں تک تو ٹھیک مان لیتے ہیں۔

 اب سنو! اس گروہ کے ساتھ دو مسائل اور ہیں۔ پہلا یہ کہ اس گروہ کے لوگ صرف آفاقی نظریئے کو حتمی نہیں سمجھتے بلکہ اپنے اپنے فرقے کے انسانی تعبیر کو حتمی سمجھتے ہیں اور نہ صرف حتمی سمجھتے ہیں بلکہ استبدادی طریقے سے اس کے نفاذ کو بھی درست سمجھتے ہیں۔ اس لئے ایک تو استبدادی طریقہ اختیار کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں اور دوسرا سماج کی تربیت کے طور پر اس کے لئے رائے عامہ بھی ہموار کرنے کا کوشش کرتے ہیں۔ کچھ بات پلے پڑا؟

کچھ کچھ تو پڑ رہی ہے مگر ذرا واضح کریں۔

دیکھو بات یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لئے پردہ ایک آفاقی تعبیر ہے۔ اس کے احکام براہ راست قرآن میں آئے ہیں۔ یہ احکام قرن اول سے انسانی تعبیر ات سے گزرتے چلے آئے ہیں۔ میں اس کے فنی مباحث میں ابھی نہیں جاتا کہ مختلف آئمہ نے اس کی کیا تعبیرات کی ہیں۔ اس میں چہرے ہاتھ کا کیا احکام ہیں۔ محرم اور نامحرم کا کیا احکام ہیں۔ ستر کس چیز کو کہتے ہیں۔ باندیوں لونڈیوں کا لباس کیا تھا۔ سادہ الفاظ میں بتاتا ہے کہ چونکہ معاملہ لباس سے متعلق تھا تو مختلف علاقوں، آب و ہوا اور ثقافتی عوامل بھی پردے کے آفاقی تعبیرات کے ساتھ شامل ہوتے گئے۔ اس خطے میں یعنی برصغیر اور افغان علاقوں میں آکر پردے کی تعبیر نے شکل یہ اختیار کر لی ہے کہ عورت کا پورا جسم ڈھکا ہوا ہونا چاہیے۔اب یہ ڈھکا ہوا جسم ایک آفاقی تعبیر ہے۔افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو اس تعبیرکواستبدادی طریقے پر باقاعدہ ریاست کی سطح پر نافذ کیا گیا اور برقع نہ پہننا قابل تعزیر جرم ٹھہرا۔ ایسا ہے کہ نہیں؟

ایسا ہی ہے۔

 اچھا! اب ایسے میں ایک شخص جو پردے کی اس ہند آریائی تعبیر کو ایک مکمل آفاقی تعبیر سمجھتا ہو، اس سے کیا توقع ہے کہ وہ کیا لکھے گا پردے کے بارے میں؟ ظاہر ہے وہ یہی لکھے گا کہ جو عورت بھی پردے میں نہیں ہو گی اس کے اخلاقی اور سماجی مقام پر سوال اٹھے گا۔ اس نے وہ سوال اٹھا دیا اور چھلکے سے باہر والے چلغوزے کو خراب اور کراہت زدہ قرار دیا۔ وہ اس تعبیر کو آفاقی سمجھتا ہے۔زیادہ سے زیادہ تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ چلغوزہ کیوں کہا؟ تو بھائی جہاں سماج میں عورت کو بچی، پیس، مال اور لالی پاپ کہا جاتا ہو وہاں کسی صاحب تدبر نے چلغوزہ بھی کہہ دیا۔ اس میں مسئلہ کیا ہے؟

آپ کو اس میں کوئی مسئلہ نہیں نظر آتا؟

 دیکھو ایک بات سمجھو۔ پدرسری معاشرے میں عورت ابھی تک برابر کی انسان تسلیم نہیں ہوئی۔ جس سماج میں ایک ڈاکٹر کے سامنے ساٹھ سالہ بوڑھی والدہ کا اپنا نام لکھوانا باعث شرم قرار پائے اور ڈاکٹر کے نام پوچھنے پر بتانے والا بیٹا والدہ زید یا والدہ بکر لکھوائے، وہاں کیا فرق پڑتا ہے اگر ڈاکٹر صاحب خود سے بی بی چلغوزہ عمر ساٹھ سال لکھ دے۔

ماما اب یہ تو آپ کچھ زیادہ ہی کر رہے ہیں۔

 منڑا ہمارا بات سمجھو۔ وہ تم لوگ کیا انگریزی کا کپڑے والا اصطلاح استعمال کرتا ہے؟ دوسرا گروہ سماج کے اس کپڑے کو نہیں سمجھا۔

یہ سماج کا کپڑا کیا بلا ہے؟

منڑا ایک تو تم ہمارا سارا علم ایک دن میں ختم کر دے گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا گروہ سوشل فیبرک کو نہیں سمجھ رہا۔

مطلب کیسے نہیں سمجھ رہا؟

 دیکھو ہمارا بات سنو۔ ہم لمبے چوڑے فلسفے نہیں بھگارتا۔ ہم سے کوئی پوچھے کہ جمہوریت کیا ہے تو ہم بولے گا کہ \"\"معلوم انسانی تاریخ میں انتقال اقتدار کا سب بہتر اور پرامن طریقہ کار جمہوریت ہے۔ ممکن ہے کل انسان اس سے کسی بہتر نظام حکومت کو دریافت کر لے لیکن ابھی تک تو یہی بہتر ہے۔ اب جتنا ہم سمجھتا ہے تو جمہوریت اور سیکولر ازم لازم و ملزوم ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ جمہوریت میں استبدادی طریقہ نہیں ہوتا ہے۔ سیکولر ازم کیا ہے؟ آپ اپنے کام سے کام رکھو میں اپنے کام سے کام رکھتا ہوں۔ آپ مجھ پر جبر کا حق نہیں رکھتے میں آپ پر جبر کا حق نہیں رکھتا۔ درست ہے کہ نہیں؟

آسان الفاظ میں تو درست ہے۔

معاملہ مگر یہ ہے کہ ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں جمہوریت کفری نظام قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں سیکولر ازم کو لادینیت کہا جاتا ہے۔ جہاں ایک قتل کا نوحہ لکھا جائے تو کچھ آسیبی آوازیں دہائی دیتا ہے کہ حلب جل رہا ہے اور تم کو قندیل بلوچ کے موت کی پڑی ہے؟ جہاں بطور مسلمان ایک مذہبی آدمی کو بھی خوف رہتا ہو کہ کوئی بھی قمیض اتار کر اس کے قتل کا فتوی جاری کر سکتا ہے ، وہاں چلغوزے پر احتجاج کا مفہوم یہ نہیں لیا جاتا کہ چلغوزہ کہہ کر آپ نے عورت ذات کی توہین کی ہے بلکہ وہاں اس کی تعبیر یوں کی جاتی ہے کہ لبرل اور سیکولر گماشتے عورت کے حقوق کی آڑ میں مادر پدر آزاد معاشرے کا قیام چاہتے ہیں۔ یہ مذہب بیزار لوگ ہیں۔ یہ دراصل پردے کے مخالف ہیں۔

ماما تو پھر کیا خاموش رہا جائے؟

 نہیں خاموش مت رہو۔ فلم بناﺅ، گانا وانا گاﺅ، اداکاری کرو، سیمینار کرو، کالم لکھو، ٹی وی پر آﺅ، مخلوط محفلوں کا حصہ رہو، لبرل کہلائے جانے والے لوگوں کی سی بود و باش رکھو۔ بس خود کو دائیں بازو کا نمائندہ کہلواتے رہو۔ تماشہ کرو، سقراط نہ بنو۔

ہلکا ! دو چینک چائے اور لاﺅ۔۔۔

6 جنوری 2017

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments