راعمش فاطمہ اور فرنود عالم ۔ دو خاکے ایک کالم


\"\"رامش فاطمہ سے جب پہلے پہل تعارف ہوا تو یہ ہر جگہ خودکش دھماکے کر کے پھٹتی نظر آتی تھیں۔ ان کے نام سے واقفیت پہلے ہوئی، ملاقات بہت بعد میں جا کر کہیں ہوئی۔ جب بھی لکھا انہیں راعمش فاطمہ لکھا اور اس کی واحد وجہ وہ دھماکے تھے جو یہ اور داعش ہر دو فریقین کرتے پھرتے تھے۔ خالی رامش لکھ کر دیکھ لیجیے، وہ بات ہی نہیں آئے گی، ایک مرتبہ راعمش لکھیے اور آپ کو تخریب کاری مکمل دکھائی دے گی۔

کسی بھی عورت کے ساتھ کچھ بھی برا ہو جائے تو راعمش فاطمہ اس کا درد عین ویسے محسوس کریں گی جیسے وہ کابل اور ہند کا رشتہ علامہ مرحوم بیان فرماتے تھے۔ مولوی کچھ ایسا کہہ دیں جو ان کے دائرے میں آتا ہو تو یہ اٌن کے دائرے سے باہر چھلانگ لگا کر شاٹ کھیلیں گی اور دائرے میں واپس آ کر چوکڑی مارے بیٹھ جائیں گی۔ کسی احمدی شہری کے ساتھ خدا نہ کرے کوئی زیادتی ہو جائے، اس دن راعمش فاطمہ قبر میں بھی ہوں گی تو واپس نکل کر لکھیں گی اور جلدی جلدی شائع کروا کر پھر فوت ہو جائیں گی، ایسا اس لیے ممکن ہے کیوں کہ آج کل یہی چل رہا ہے۔

راعمش سے بحث کرنے کا مطلب ان سے قائل ہو کر اٹھنا ہے۔ ان سے قائل ہو کر اٹھنا جہان سے اٹھنے کے برابر ہے۔ جن چیزوں پر یہ آپ کو قائل کریں گی اس کے بعد زیادہ مزا اسی میں ہے کہ عزت کے ساتھ جہان سے اٹھا جائے پیشتر اس کے، کہ پانچ روپے کی گولی سے آپ اٹھائے جائیں۔

غصے میں ان کی انگریزی عام حالات کی نسبت بہت بہتر ہو جاتی ہے۔ ان کے کمنٹس دیکھے جائیں تو ایسی مہذب انگریزی نظر آتی ہے جس میں یہ حلق پھاڑ کر گیٹ آؤٹ کہنے کی بجائے پلیز لیو، پلیز لیو مائی فیس بک اکاؤنٹ کہتی لکھنئو والی وائٹ مغل دکھائی دیتی ہیں۔ جس وقت یہ سب کچھ لکھا جا رہا ہوتا ہے، ان کے اندر سے لخ لعنت، در فٹے منہ اور جا مر پراں کی آوازیں آ رہی ہوتی ہیں۔ انسان گالیاں سوچتا اپنی مادری زبان میں ہے لیکن فیس بک اسے سکھاتی ہے کہ یہ سب انگریزی میں کہا جائے، تو وہ مجبور ہو کر پکار اٹھتا ہے، پلیز لیو! آئندہ جو مہربان ان سے انگریزی میں عزت کروائے، جان لے کہ اسے انہی تین پنجابی لفظوں سے مخاطب کیا جا رہا ہے بس انگریزی کا جھاکا ہے!

ایک انٹرویو کے دوران راعمش بتاتی ہیں کہ تمام دوست ان کے بزرگ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادھر یہ کچھ لکھیں گی \"\"اور وہاں ان باکس میں تمام نصیحت کرنے والے دھما دھم کودنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ سب کو جی ہاں، جی ہاں کہہ کر مطمئن کریں گی لیکن یہ ان کی منافقت ہو گی۔ لفظ وہی تین ہیں، بس دہرانا نہیں ہے، ان کا موڈ اجازت نہیں دیتا۔ جس دن راعمش کا موڈ اچھا ہو وہ بداخلاقی سے ہرگز گریز نہیں کرتیں، چوں کہ اکثر موڈ آف ہوتا ہے اس لیے اخلاق آن رہتا ہے۔

ہر اچھے لکھاری کی طرح انہیں اپنے کہے اور لکھے پر اعتبار بالکل نہیں ہوتا۔ جب تک وہ چیز ایڈیٹنگ کے سخت مرحلے سے نکل نہ جائے یہ اسے چھپوانا پسند نہیں کرتیں۔ یہ بہت اچھا کرتی ہیں۔ ان کے لکھے میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو چھپوا کر یا تو چُھپنا پڑتا ہے اور یا چُھپ کر چھپوانا پڑتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کا بہترین حل ایک تلوار کے نشان والا ایڈیٹر ہے جو سارے کس بل نکال کر تحریر استری کرنا اپنا فرض سمجھتا ہو۔

ان کا لکھا مختصر ہوتا ہے۔ لیکن وہ موثر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس پر ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ کے کمنٹ ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ بحث کرنے والے آتے ہیں، باقاعدہ ہف کر واپس ہوتے ہیں۔ جو بحث نہیں کرتے کئی بار دوسروں سے شکایت لگاتے ہیں کہ یار، تمہارا بارہواں کھلاڑی کریز سے باہر نکل کر شاٹ کیوں لگاتا ہے؟ اسے سمجھاؤ!

نوٹ: یہ بارہویں کھلاڑی کا خطاب نہایت دکھی دل کے ساتھ کسی کمنٹ پر راعمش فاطمہ اپنے آپ کو آج دے چکی ہیں۔

فرنود عالم

ہر اچھے صحافی کے اندر ایک ماہر رقاصہ، ایک چور اور تھوڑی حرمزدگی ہونی واجب ہے، ورنہ وہ صحافی نہیں کچھ بھی اور کہلا سکتا ہے، اسے اجازت ہے۔

اگلے زمانوں کے ایک بزرگ سے یہ قول سنا تو اپنا یار فرنود عالم یاد آیا۔ فرنود ایک ماہر رقاص ہے۔ جسے معلوم ہے کس وقت کون سے انگ پر کون سا رنگ چھیڑنا ہے۔ کس تار کو ہلائیں گے تو باج کیا ہو گا۔ کون سا توڑا کس وقت دکھانا ہے۔ خیال کا وقت کون سا ہے، بے معنی لفظوں کا ترانہ کب الاپنا ہے اور کب نری راگ داری سے دل بہلانا ہے۔

چور نہیں ہے، فرنود عالم مکھن چور ہے۔ اس کنہیا کی طرح جو چرا کر مکھن کھاتا تھا اور پھر بہت سے ایسے دوسرے \"\"کام کرتا تھا جنہیں کرنے کے بعد ایک مذہب عذاب کی وعید دیتا ہے جب کہ دوسرا مکمل پریم کتھا کھڑی کر دیتا ہے۔ فرنود عالم اس عذاب اور پریم کتھا کے درمیان کی ایک کہانی ہے۔

حرمزدگی اپنے زور بازو سے پیدا کی جاتی ہے، اس طرح کا ایک لفظ جو گالی سمجھا جاتا ہے، وہ اپنے زور بازو کی محتاج نہیں ہوتی۔ اس کے لیے آبا و اجداد کے زور پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ تو حرمزدگی آپ سے مکمل والہانہ پن مانگتی ہے، کمٹمنٹ مانگتی ہے۔ جن دنوں فرنود عالم نے ایک مظلوم طبقے کا ساتھ دیا اور اس پر کچھ لکھا تو بہت سے لوگ اس کے خلاف ہو گئے۔ ایسے لوگ کہ بس سمجھیے اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی والا معاملہ ہوا۔ فرنود عالم کی آنکھوں میں حلقے تھے، بال بکھرے ہوئے سے ہوتے تھے لیکن اپنی بات پر وہ قائم تھا۔ ملاقات ہوئی، کہا، دادا بس کر دو، بہت لکھ دیا اس موضوع پر، کچھ اور کر لو یار اب۔ بولا، کیا میں غلط کہتا ہوں؟ اب اس بات کا جواب تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ غلط دادا کہتا نہیں ہے، پر ٹھیک سننے کو تیار کوئی نہیں۔ کون سمجھاوے؟ یہ حرمزدگی ہوتی ہے۔ جب انسان پیار کرنے والوں کی بات نہ سنے اور اپنے جائز موقف پر قائم رہے بلکہ گل محمد بن جائے تو اسے اور کیا کہیں گے؟

اگر یہ سیکھنا ہو کہ دنیا کا دل کیسے جیتا جائے تو فرقہ فرنودیہ پر بیعت ہو جائیں۔ فرنود کے نزدیک اس کے فیس بک کے دوست صرف آئی ڈی نہیں ہیں۔ ہر آئی ڈی کے پیچھے ایک جیتا جاگتا انسان ہے اور وہ ان سب کو برابر اہمیت دیتا ہے۔ کیسے دیتا ہے، لکھتا کب ہے، نوکری کب کرتا ہے، یہ سب باتیں اس سے جا کر پوچھ لیجیے۔ دیکھنے کا منظر وہ ہوتا ہے جب دادا کسی سیمینار میں آئیں اور چاہنے والوں کے جھرمٹ میں کھڑے ہوں۔ ہر شخص یوں محسوس کرے گا جیسے یہ میرا بیسٹ بڈی ہے۔ دادا سب کا بیسٹ بڈی ہے!

فرنود ایک برانڈڈ مولوی رہ چکا ہے۔ بوئے یاسمین باقی است۔ اپنے کھنگورے سے پہچانا جاتا ہے۔ اچھی بھلی لبرل بات کر رہا ہو گا، پینٹ شرٹ پہنی ہو گی، وشملے قسم کا قاتل حلیہ ہو گا اور اچانک کھانسے گا۔ اہہم۔ ایسے دور حلق سے کھانسی نکلے گی کہ بندے کا تراہ نکل جائے گا۔ کھانسی کی پہچان اگر رکھنے والا ہو تو سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ یار باتوں اور حلیے سے تو بندہ اپنا لگتا ہے پر یہ کھنگورہ؟ اس بات کی طرف توجہ دلائی جا چکی ہے لیکن دوسری عادتوں کے ساتھ یہ عادت بھی سر کے ساتھ جائے گی۔

وہ دو مست کجراری آنکھوں والا انسان ہے۔ اس کی آنکھیں بولتی ہیں۔ فرنود جس وقت موڈ میں ہو گا اس کی آنکھیں بولیں گی۔ ایک بار گھر آیا۔ دادا کی ایک جناح کیپ پڑی تھی۔ فرنود سے کہا یار اسے پہنو اور تصویر بنواؤ۔ فرنود عالم نے جناح کیپ پہن کر جس طبیعت سے تصویر بنوائی واللہ کوئی ایسا ذاکر دکھائی دیتا تھا جس نے پاکستان بھر کا ایک بھی امام باڑہ نہ چھوڑا ہو۔ ہر ضلعے سے بدری کا پروانہ ملا ہو اور وہ تمام پروانے جگنو بن کر اس کی آنکھوں میں چمک رہے تھے۔

تو ایسا مست آدمی اور اپنا نام فرنود عالم رکھ لے یہ کچھ غلط بات لگتی ہے۔ فرنود کا نام فرنود بالم رکھا جانا چاہئیے یا عالم کا لاحقہ رکھنا ہے تو بھئی جان عالم کر لے۔ فرنود عالم ایک ڈرائے نام ہے جو اس کو سوٹ نہیں کرتا۔ لیکن چوں کہ فرنود کی اولین پہچان اس کا نام ہے، وہ نام جس کے چکر میں اس کا اصل نام بھی دنیا کو بھول چکا ہے تو میرے یار کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ فرنود عالم ہی رہے، بالم کہنے کو یار سلامت، جان عالم تو وہ رہے گا!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments