وجاہت مسعود ….تیسری دراز میں رکھا سچ


\"\"اغلب گمان ہے، لوگ سمجھیں یہ وہ وجاہت مسعود ہیں، جو \”جنگ\” اخبار میں کالم لکھتے ہیں، لیکن یہ وہ نہیں، بلکہ یہ وجاہت مسعود ہم سب کے مہا گرو ہیں۔ اسی کے ساتھ ہم یہ بھی بتا دیں کہ انڈین سوپ سیریل کیا ہیں۔ ان ٹیلی ویژن پروگراموں میں پانی میں مدھانی چلانے کا تجربہ خوب کیا جاتا ہے۔ ناظرین منتظر ہوتے ہیں، کہ مدھانی چلنا رکے تو مکھن اور لسی سے مستفید ہوں، لیکن اول تو مدھانی رکنے کا نام ہی نہیں لیتی، کہیں تھک کر سانس لینے رکے، آپ مٹکے میں جھانکیں، تو پانی ہاتھ جوڑے لرز رہا ہوگا۔ ’بھگوان کی کرپا ہوگی، مجھے معاف کر دو۔‘
ایک تو ہم حقوق نسواں کی تحریکوں سے خاص متاثر نہیں، دوسرا یہ کہ ہماری روزی روٹی ٹیلی ویژن ڈراما لکھنے سے وابستہ ہے، اور ٹیلی ویژن پر اسی مصنف کا کام چلتا ہے، جو عورت کی مظلومیت مرد کی سفاکی کو نمایاں کر سکے۔ مصیبت یہ تھی کہ ٹوٹا پھوٹا ڈراما لکھنا تو آ گیا تھا، لیکن عورت کی مظلومیت کا اعتبار نہ تھا۔ کسی نے کہا وجاہت مسعود کے در پہ حاضری دیں۔ انڈین ٹیلی ویژن سوپ انہی کی تحریروں سے متاثر ہیں۔ سو ان کے در پر حاضری دینے آئے، تا کہ کچھ ’ٹِپس‘ لے سکیں کہ عورت کو مظلوم نہ بھی سمجھیں تو اس پر کیسے لکھا جا سکتا ہے۔؛ ایک نکتے کو کیسے پھیلایا جا سکتا ہے۔ ایک ہی بات کو کئی رنگوں میں کیوں لایا جا سکتا ہے۔ وغیرہ۔
وجاہت مسعود کی تحریریں اتنی ہی دل کش ہوتی ہیں، جتنی کسی ہندی ٹی وی کی ہیروئن؛ میک اپ سے تر بہ تر۔ ہونٹ ایسے کہ چومنے کو جی چاہے۔ (وجاہت مسعود کے نہیں، ہیروئن کا ذکر ہے) آنکھیں ایسی کہ ان میں ڈوب جانے کا من کرتا ہو۔ (وجاہت مسعود کی نہیں، یہاں بھی ہیروئن کا ذکر ہے) گیسو وہ کہ جن سے قید مانگنے کی التجا کی جائے۔ (ہیروئن ہی کا ذکر ہے) بہت سے ایسے ہوں گے، جو نا پسند کرتے ہیں۔ (ہیروئن کو نہیں، وجاہت مسعود کا ذکر ہے) لیکن یہ دل کے بہت حسین ہیں۔ (اعتبار کیجیے یہاں بھی وجاہت مسعود کا ذکر ہے) جیسے انڈین ڈراموں میں مردہ کردار پھر سے زندہ کر دیے جاتے ہیں، ویسے ہی وجاہت مسعود اپنی تحریروں میں مردہ قصوں میں جان ڈال دیتے ہیں۔ جس بات کو کوئی ایک سطر میں کہہ دے، وجاہت مسعود اس بات کے اتنے نقش و نگار بناتے ہیں، کہ عمارت کی مضبوطی کا سوال ہی کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ قاری نقش و نگار دیکھ کر فگار ہو جاتا ہے۔ آپ ان سے پتا پوچھئے، یہ آپ کو گھر تک چھوڑ کر آئیں گے۔ اس روز پوچھا، استاذی، ہمیں گورنمنٹ کالج یونے ورسٹی جانا ہے، رہنمائی کیجیے!
وجاہت: ایک تو آپ ’یونیورسٹی‘ کو یونے ورسٹی لکھتے ہیں، یہی اذیت ناک ہے، دوسرا یہ کہ گورنمنٹ کالج لاہور کو آپ یونے ورسٹی کہیے، تو میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکوں گا۔ جن نسلوں نے یکے بعد دیگرے سوا صدی تک علم کے اس معبد کی زیارت کا خواب دیکھا، اپنے دور دراز دیہات اور نیم خوابیدہ قصبوں سے نکل کر علم کی اس روایت سے پیاس بجھانے کشاں کشاں راوی کے کنارے پہنچیں، گورنمنٹ کالج کے برآمدوں میں سرسراتی تاریخ سے لمس پایا، اولڈ پرنسپل آفس بلاک کے کمروں سے دبے پاؤں گزریں، جنھیں داستاں جیسے اساتذہ کو کبھی نظر بھر کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی، وہ گورنمنٹ کالج کے ساتھ یونے ورسٹی کا لاحقہ پسند نہیں کریں گی۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے صوفی غلام مصطفی تبسم کے نام کے ساتھ بی اے بی ٹی لکھا جائے۔ لندن سکول آف اکنامکس کے کسی طالب علم سے پوچھئے گا کہ اس کی مادر علمی کو لندن یونے ورسٹی آف اکنامکس کا نام دے دیا جائے تو اسے کیسا لگے گا۔
ہم: (ڈرتے ڈرتے) ہمیں نہیں معلوم استاذی، کیسا لگے گا؛ یہ کہیے گورنمنٹ کالج یو۔۔ یہاں سے کیسے جائیں؟
وجاہت: اپنا ڈرائیور ہے ناں۔ وہ چھوڑ آئے گا، آپ کو۔
(لیجیے ایک قسط کا مواد مکمل ہوا۔ یقین ہو چلا کہ انڈین ٹیلی ویژن سوپ سیرئیل انہی کی تحریروں سے متاثر ہیں)
وجاہت مسعود خواب دیکھنے والے شخص ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت سے خواب دیکھنے والے گزرے ہیں، علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا، شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کا جنازہ پڑھانے کے لیے خواب سے رہنمائی لی، طاہر القادری کے خواب کی سبھی کو خبر ہے۔ وجاہت مسعود کے ہیرو قائد اعظم محمد علی جناح ہیں؛ راوی کا کہنا ہے، کہ انھیں قائد اعظم نے خواب میں اپنا دیدار کروایا۔ قائد اعظم کے ہاتھ میں گیارہ اگست والی تقریر تھی۔ اسی لیے وہ گیارہ اگست کی تقریر کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ گیارہ اگست کی تقریر ہی کی وجہ سے بضد ہیں، کہ پاکستان کو سیکولرسٹیٹ بنانا چاہیے۔ ورنہ وجاہت مسعود کا سیکولر ازم سے کیا لینا دینا۔ آپ کو یقین نہیں آتا، تو ہم مثال دیے دیتے ہیں۔ استفسار کیا؛ استاذی، جمہوری عمل سے یہاں ’مزید‘ اسلامی نظام آ گیا، تو پھر؟ جیب سے فون نکالا، ڈرائیور کو کال کی، اور اسے کھانا لانے سے منع کر دیا، ڈرائیور ہمارے لیے ہی کھانا لینے گیا تھا۔ پھر سوال کا جواب یوں دیا:
’سن بے مولوی، دنیا بھر میں جمہوری عمل کے شانہ بہ شانہ تعصب اور تنگ نظری کی قوتیں حاوی ہورہی ہیں۔ جمہوریت اکثریت کا جبر تو نہیں ہوتی۔ طاقت ور کے لیے نظام حکومت اہمیت نہیں رکھتا۔ طاقت ور تو آمریت اور استبداد میں زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ کم زور کو اچھے سیاسی بندوبست کی ضرورت پیش آتی ہے۔ (کاش میں ٹفن میں سیاسی بندوبست کر کے لے جاتا) دنیا بھر میں محنت کشوں، اقلیتوں، عورتوں اور غریبوں کے لیے جمہوری جدوجہد کا نیا مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ منڈی کی معیشت اور منافع کی منہ زور یلغار پر غریبوں کے حقوق، کمزوروں کے تحفظ اور یکساں مواقع کی باڑ کیسے باندھی جائے؟ اس لیے میں کہتا ہوں، کہ آپ کا سوال ہی مہمل ہے۔\”
ہم: (سہم کر) استاذی، تو کیا سوال نہ کروں؟
وجاہت: (سادگی سے) آپ نے کھانا کھانا ہے؟
ہم: (عاجزی سے) جی!
وجاہت: تو پھر کھانے کا سوال کریں۔
ہم: (بزدِل انقلابی کی طرح جز بز ہوتے) استاذی، کیا یہی وہ لبرل ازم ہے، جس کا پرچار آپ کرتے ہیں؟
وجاہت: (گرجتے ہوئے) مل جل کر زندہ رہنے کے لیے انسانوں کو ایک دوسرے پر کچھ اصول ضابطے طے کرنا پڑتے ہیں۔ یہ اصول ، قانون اور ضابطے دراصل ایسے رویوں ، افعال اور کاموں سے روکتے ہیں جن سے دوسرے انسانوں کا نقصان ہوتا ہو۔ چنانچہ ضابطہ دراصل پابندی کا نام ہے۔ پابندی کی حدود واضح کرنا ضروری ہے تاکہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچائے بغیر انسان اپنی زندگی گزار سکے اور بہتر بنا سکے۔ زندگی گزارنے کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں۔ انسان اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ان گنت راستے اختیار کر سکتے ہیں۔ ان طریقوں کے انتخاب کی آزادی کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی۔ ہم صرف ان حدود کا تعین کر سکتے ہیں جن کی مدد سے ایک دوسرے کی آزادیوں کا تحفظ کیا جا سکے۔ مثلاً آپ کا یہ سوال۔ کسی فرد یا گروہ کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں۔ کسی کے جذبات سے کھیلنا یہ رائے کا اظہار نہیں۔ انسانی حقوق کے قوانین سوالوں کی نشان دہی کر کے ان حدود کا تعین بھی کرتے ہیں جو ان آزادیوں کی نفی کا باعث ہو سکتے ہیں۔
وجاہت مسعود کی جھڑکیاں کھاتے رات بیت رہی تھی، اور ڈرائیور جسے کھانا لینے بھیجا گیا تھا، اس کی کوئی خبر نہ تھی۔ خدا بھلا کرے بہن تنویر جہاں کا، انھوں نے دوپہر کی بچی دو پھلکیوں پر بناسپتی گھی چوپڑ دیا، اور تھوڑی سی شکر فراہم کی؛ صبر شکر کیا، اور آئندہ وہاں جانے سے توبہ کی۔ لیکن اس ایک ملاقات کا فائدہ یہ ہوا، کہ اب ہمیں طویل سلسلے وار ڈرامے لکھنے آ گئے ہیں؛ سادہ سی تکنیک ہے، وہی تکنیک جب کسی نے کسی کے سوال کا جواب نہ دینا ہو، تو بات گھمائی جاتی ہے؛ بس اسی تکنیک پر ٹیلی ویژن سوپ لکھتے چلے جائیں، سر نہ پیر۔ ہاں! ایک اور بات؛ وہ یہ کہ اس دن دنیا میں کم از کم ایک عورت یعنی بہن تنویر جہان کی مظلومیت پر اعتبار آ گیا۔ بہن جی تجھے سلام!
پسِ نوشت: یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے، کہ یہ سب کذب بیانی ہے، سچ کسی تیسری دراز میں رکھا ہوا ہے۔
\”اغلب گمان میی کنیم کہ تلخ ترین اتفاق ممکن، این است کہ معشوق ترک مان کند۔\”

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments