چلغوزے سے بھینس تک


\"\"احقر نے کچھ روز قبل ہی خود سے عہد کیا تھا کہ اب لغو اور فضولیات پر اپنے قلم کی سیاہی برباد نہیں کی جائے گی۔بلکہ ہمہ وقت قرآن پاک پر غوروفکر کی جائے گی اور اللہ کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔لیکن ابھی جمعہ کے دن ہی محترم پیش امام صاحب نے یہ کہہ کر ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ کوئی بھی زی روح ازخود قرآن پر غور نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لئے کسی عالم سے ایک ایک لفظ سمجھنا ضروری ہے۔جو دانشور ایسا خود سے کرتے ہیں وہ غامدی بن جاتے ہیں۔بس یہ سننا تھا کہ جھر جھری آگئی کیوں کہ مجھے غامدی نہیں بننا تھا اس لئے کسی ’عالم‘کے ملنے تک ہم نے یہ ارادہ موقوف کردیاہے۔جیسے ہی کوئی عالم ملتا ہے ہم ضرور ان لغو اور فضولیات سے پرہیز کریں گے۔ جب تک ہم تھوڑی بہت گفتگو فرما لیتے ہیں۔اول الذکر چلغوزے کا شہرہ سنا تو دل میں’دانشور‘نے بہت زور سے چھلانگ لگائی۔ ہاتھ لکھنے کو بے تاب ہوگئے۔انگلیاں کی بورڈ پر مچلنے کو بے قرار ہوگئیں۔ایک مدت تک دل پر جبر کئے رکھا لیکن جب ایک غلط عمل کے دفاع میں بھونڈی حرکات برداشت نہ ہوئیں تو کی بورڈ سنبھال لیا۔اب آتے ہیں چلغوزے کی کہانی کی طرف۔زمانہ جاہلیت ایسا برا زمانہ تھا کہ عورت کو چنداں حقوق حاصل نہ تھے۔انہیں طرح طرح کے عجیب و غریب ناموں سے تشبیہ دی جاتی تھی۔اسلام آیا ،حالات بدلے عورتوں کو حقوق ملے ،عزت ملی۔لیکن مرد ذہنیت سے یہ برداشت نہ ہوا۔یہاں بھی قرون اولیٰ کے بعد عورت کی تذلیل کا عمل گاہے بگاہے ہوتا رہا ہے۔مزیدار بات یہ ہے کہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہوتا ہے۔ ہمارے گاؤں میں بڑے فخر سے عورت کو’مجھ‘ یعنی بھینس سے تشبیہ دی جاتی ہے۔عام فہم محاورہ ہے کہ عورت کی عقل گھٹنوں میں ہوتی ہے۔ برسبیل تذکرہ ایک واقعہ بیان کئے دیتے ہیں۔ میں دسویں کلاس میں تھا۔ میرے پڑوسی اور کلاس فیلو کو ایک مس سے عشق ہوگیا۔ بات ڈیٹ تک پہنچی۔ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا۔ گھر والوں نے لڑکے کو سمجھایا پتر‘ ابھی یہ کام کرنے کے لئے عمر پڑی ہے۔ توں بچہ ہے اورمس تجھ سے بڑی ہے۔ لیکن پتر کو عشق کا بخار تھا جو نہیں اترا۔ بس ناچار والدین کو ہار ماننی پڑی لیکن مس کے گھر والوں نے بچے کے بڑے ہونے تک کہ شرط رکھی۔اگر بچہ نوکری کرے گا تو رشتہ دیں گے۔ایسے میں والدین نے ہمارے سکول کے پرنسپل سے رابطہ کیا۔میں کلاس کا سی آر تھا۔اس وقت سر کو پیپرز دینے آیا تھا کہ سر نے مذکورہ عاشق کو بلایا اور مجھے کہا کہ آپ بھی بیٹھ جائیں۔ سر نے کہا بیٹا تمہاری ابھی عمر ہی کیا ہے۔اس دنیا میں پیسہ ہے تو چھوکری بھی ہے۔مجھے دیکھو میں پولیس میں ہوں اپنا سکول ہے، کسی بھی لڑکی پر انگلی رکھوں نہ نہیں کرے گی۔لیکن اگر میرے پاس کچھ نہ ہو تو کوئی منہ نہیں لگائے گی۔اپنا کیرئیر بناؤ۔ لڑکی خود تمہارے پیچھے آئے گی۔عورت استعمال کرنے کی شے ہے۔استعمال کرو اور پھینک دو۔ اور سر کی یہ بات مجھے اتنی بری لگی تھی کہ میرے ماتھے پر بل آگئے۔ سر نے بھی بات وہیں ختم کی۔عاشق صاحب کی عقل میں بات آگئی اور وہ پھر کئی عشقوں کے موجد بھی بنے۔
لیکن یہاں ملین ڈالر سوال ہے۔کیا عورت چلغوزہ ہے، کیا عورت بھینس ہے، کیا عورت استعمال کی شے ہے۔ یہ تشبیہات کیونکر دی جاتی ہیں۔ کیا مرد اتنا ہی افضل ہے۔ پہلے ہم اسلامی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو اسلام نے مرد کو عورت پر ایک درجہ فضیلت دی ہے اور وہ درجہ ہے نان اور نفقے کا۔ یعنی کہ مردپر اضافی ذمہ داری معاش کی عائد ہوتی ہے۔ باقی مردو زن برابر ہیں۔ لیکن ہماری ذہنیت یہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔ہم عورت کو ماں کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ ہم عورت کوبیٹی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ہم عورت کو بہن کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ہم عورت کو بھینس، چلغوزہ اور استعمال کی شے سمجھتے ہیں۔
پردے کی آڑ میں اس مسئلے کو لبرل اور اسلامسٹ کا مسئلہ بنانا بھی حیران کن ہے۔ اپنی نام نہاد روایات کی بنیاد پر عورت پر پابندی تو سراپا اسلام ٹھہرائی جاتی ہے لیکن خود جہاں منہ مارتے پھریں سب جائز ہے۔ مجھے بتائیں کہ بیوی کے حقوق کس حد تک ادا کرتے ہیں۔ میں نے ایسے مذہبی بھی دیکھے ہیں جن کی بیٹیوں کی شادی کی عمر نکل جاتی ہے صرف اس وجہ سے کہ ان کے لئے کسی ’عالم‘کا رشتہ نہیں آتا اور والد صاحب کی ضد ہے کہ رشتہ عالم سے ہی کرنا ہے۔ اپنی نفسیاتی ذہنیت کو اسلام کا لبادہ پہنانے والوں کو یہ ضرور جان لینا چاہیے کہ سورة النسا میں بیوی کے کیا حقوق بیان کئے گئے ہیں۔جناب والا ماں کے قدموں تلے تو جنت ہے۔ دو بیٹیوں کی بہترین تربیت اور پرورش کرنے والے والدین کے لئے جنت کی بشارت ہے۔ سورہ النور پڑھ لیں۔ اسلام نے تو عورت کو عزت ہی عزت دی ہے۔ پتا نہیں کیسے لوگ ہیں کیسی ذہنیت ہے کہ عورت کو ایسی ایسی تشبیہات سے نوازتے ہیں کہ اللہ معاف کرے۔
باقی عالم اسلام کے ایک مستند عصری امور کے ماہر عالم دین علامہ یوسف القرضاوی کا چہرے کے پردے کے حوالے سے موقف ضرور پڑھنا چاہیے اور اپنے امیر ملت اسلامیہ اردیوان صاحب سے بھی اس بابت سوال ہونا چاہیے۔
باقی پیارے بھائی عدنان کاکڑ صاحب موقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ اسلحے کا سٹاک پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ادھر مس فائر ہوا اور پوری قوت سے الفاظ کی گولہ باری شروع ہوجاتی ہے۔جب اسلامسٹ کامریڈ کی اس گولہ باری کا جواب نہیں دے پاتے تو پھر’اسلام‘کو ڈھال بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ غلط کو غلط کہنے سے بات ختم ہوسکتی ہے لیکن اسلامسٹ کبھی غلط نہ ہونے کا ٹھیکہ اپنے نام کئے ہوئے ہیں اس لئے اسلام کی آڑلے کر لبرل ازم اور اسلام کا تنازع بنادیا جاتا ہے۔
بھائی بات لبرل اور اسلامسٹ کی نہیں ہے۔ بات بیمار ذہنیت کی ہے۔ یہ ذہنیت زمانہ جاہلیت کی تشبیہات چھوڑنے کوتیار نہیں ہے۔ یہ عورت کو حقوق دینے کو تیار نہیں۔عورت کو اس قدر حقیر جانتے ہیں کہ ایسی تشبیہات دینے سے بھی بعض نہیں آتے۔ کیا لبرل کیا اسلامسٹ۔ ابھی کچھ روز پہلے کی کاکڑ صاحب نے کیا خوب فرمایا تھا کہ ن لیگ لبرل ہے پیپلزپارٹی لبرل ہے۔جی بالکل سر جی اور ان لبرلز کے عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم سے پنجاب اورسندھ کی دھرتی بھری پڑی ہے۔یہ لبرل عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔
یہاں ایک بات صاف ہے۔عورت کو جو حقوق اسلام نے دیے کسی مذہب نے نہیں دیے ،کسی نظام نے نہیں دیے۔رہی بات پردے کی تو یہ عورت کو خود بھی سوچنا چاہیے کہ ہم جس سماج کا حصہ ہیں اس میں اسے کس طرح خود کومحفوظ بنانا ہے۔اس سماج میں ڈیٹ کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔اس سماج میں بے پردگی کو پسند نہیں کیا جاتا۔ آپ کی عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ہو سکتا ہے جو آپ کے سامنے تعریفوں کے پل باندھتے ہوں تنہائی میں آپ کے متعلق ان کی سوچ بہت ہی گندی ہو۔ جہاں تک پردے کا تعلق ہے اس سماج میں باعث عزت ہے۔ پردے کو اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ہم جس سماج میں رہتے ہیں اس کے تقاضوں کو پورا کر کے ہی ہم سماج کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اوٹ پٹانگ لباس ہمیں سب کی نظروں کا مرکز بنا سکتا ہے۔اس لئے لباس ایسا ہو کہ آپ کسی کی توجہ کا مرکز نہ بنیں۔

تنویر اعوان
Latest posts by تنویر اعوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments