پاکستان میں سوشل سائنسز کا انحطاط


\"\"مہر گڑھ ہندوستان میں پہلی بستی ہے جو باقاعدہ منظم انداز میں (administratively & Orderly) نہ صرف آباد تھی بلکہ پہلی زرعی معیشت کی حامل بستی تھی۔ یہ دریائے سندھ سے جڑی ہوئی تھی، کچھ مورخین کے نزدیک دریائے سندھ اس وقت مہر گڑھ تک پھیلا ہوا تھا تو کچھ کے نزدیک دریائے سندھ کی ایک شاخ وہاں تک جاتی تھی تو کچھ کے نزدیک یہ کوئی اور دریا تھا جو مہر گڑھ کے پاس پڑتا تھا اور آخرکار دریائے سندھ میں جا گرتا تھا۔ اسی مہر گڑھ کی بستی سے وادی سندھ کی تہذیب نے جنم لیا اور اسی بستی نے کپاس کی ٹیکنالوجی سے اس خطہ کو نہ صرف روشناس کروایا بلکہ وادی سندھ کی تہذیب کی بدولت تمام یورشیا (Eurasia) میں اپنی ملبوسات بیچیں۔ وادی سندھ آج بھی حیران کر دینے والی تاریخ کی حامل بہت حد تک پراسرار تہذیب ہے۔ اس میں بادشاہت نہیں تھی، بیورو کریٹک بندوبست کے بھی باقاعدہ ثبوت نہیں۔ مذہبی اثرو رسوخ بھی ناپید ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک شہر کے وسط میں جو بڑا حمام تھا وہ دراصل مذہبی غسل کی رسم کو ظاہر کرتا ہے۔ مگر یہ ضروری تو نہیں کہ حمام کسی مذہبی عبادت خانے کی ہی نمائندگی کرے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم مجبور ہیں ماضی کی وضاحت اپنے حال کے تصورات سے کریں۔ جب ہم کوئی چیز ماضی میں دیکھتے ہیں تو اس پر تبصرہ اپنی نفسیات اور مطالعہ کے زیر اثر کرتے ہیں۔ کیا معلوم وہ سوسائٹی ہی اتنی مضبوط ہو کہ باقاعدہ تعاون و تبادلے اور بنا کسی جبر کے خود کو منظم کر لیتی ہو؟ چونکہ آج کی اس پیچیدہ دنیا کو اس طرز پر سوچنا کہ بغیر جبر کے محض رضاکارانہ تعاون و تبادلہ کی بنیاد پر بھی سوسائٹی قائم ہو سکتی ہے، ہمیں ناممکن لگتا ہے تو ہم وادی سندھ میں بھی ایسے کسی تصور کو ریجیکٹ کر دیتے ہیں۔

وادی سندھ اپنی بقا قائم نہ رکھ سکی جس کی مختلف مورخین درجن بھر مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ جن میں ایک وجہ مسلسل سیلاب کا آنا ہے، تو دوسرا بین الاقوامی تجارت میں انحطاط ہے تو تیسرا خانہ جنگی ہے تو چوتھا جنگل میں مقیم وحشی قبائل کے شہری آبادی پر حملے ہیں تو پانچواں افغانستان و ایران سے حملے ہیں تو چھٹا یہ بھی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے سبب یہ تہذیب تباہ ہوئی۔

وادی کی تباہی کے کچھ عرصہ بعد آریائی باشندے سینٹرل ایشیا سے یہاں آتے ہیں، گھوڑے کی ٹیکنالوجی ہندوستانیوں کے لئے جو دیہاتوں میں منتشر آباد تھے حیران کن بھی ہوتی ہے اور تباہ کن بھی، شمالی ہندوستان کو ان کے زیرنگیں کر دیتی ہے۔ یہ قابض لوگ ہندوستان کو لکھنا پڑھنا سکھاتے ہیں، پہلی وید ہندوستان میں نہیں لکھی گئی تھی بلکہ آریائی باشندے اپنے ساتھ لائے تھے (کچھ مورخین کے نزدیک اس کے کچھ حصے مقامی ہیں اور کچھ یہ سنٹرل ایشیا سے لائے تھے) جو اپنے اوریجن میں زرتشت کی اوستا سے ملتی جلتی ہے۔ گھوڑے کا جنگ اور آمدورفت میں استعمال شروع ہوتا ہے۔ گلہ بانی کی معیشت قائم ہوتی ہے۔ شہر آباد ہوتے ہیں۔ مذہب کا اثرو رسوخ وسیع ہوتا ہے۔ دھاتی ہتھیار بنائے جاتے ہیں۔ تقسیم محنت کو نسلی اور مستقل بنیادوں پر مگر جامد انداز میں نافذ کیا جاتا ہے۔ اور ایسی اساطیر قائم ہوتی ہیں کہ آج تک ہندوستانی تہذیب اس پر فخر کرتی ہے۔ آریائی باشندوں کی آمد سے لے کر بدھا تک (بعض کے نزدیک اشوکا یا اشوک اعظم تک) کا دور ہندو تہذیب کا سنہری دور کہا جاتا ہے جس کا ہندو رجعت پسند تحریکیں احیا چاہتی ہیں۔

بدھ ازم ہندو مذہب کا ایک فرقہ ہے جو ہندوستان میں تو دوبارہ سے بڑی حد تک ہندو مذہب میں جذب ہو گیا مگر مشرق ایشیا میں اس نے کنفیوشس ازم کے ساتھ مل کر اپنی منفرد پہچان بنائی جو ہندی پہچان سے کافی حد تک مختلف ہے۔ اشوکا سے لے کر ہندوستان میں مسلم غلبہ تک کا دور ہندوستان میں ویدک لٹریچر کی تشریح کا دور ہے جس میں ایک طرف اپنشد جیسی لازوال تحریریں وجود میں آتی ہیں تو دوسری طرف ہندو مذہبی شدت پسندی کو بھی وجود ملتا ہے۔ مسلم غلبہ کے بعد ہندوستان کی فکری و عملی طور پر کایا پلٹ ہوئی۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس سارے خطہ کو ہند کہا جاتا تھا (جو اپنے اوریجن میں سندھ کی مختصر شکل ہے، ہند کا لفظ عرب اور سنٹرل ایشین لوگ بولتے تھے) جب مسلمان یہاں آئے تو انہوں نے خود کو مقامی آبادی سے ممتاز کرنے کے لئے مقامی آبادی کو ہندو پکارا۔ اس میں بدھ بھی ہندو تھے اور جین مت (بدھ ازم کا فرقہ) کے لوگ بھی ہندو کہلائے گئے۔ مسلم عہد میں قوانین امتیازی بنیادوں پر تھے۔ مقامی علمی ارتقاء ایک حد تک رک گیا تھا۔ فارسی کو ترجیح ملنے کے سبب فارسی زبان اور عرب و فارس کے علوم کی طرف رجحان بڑھا مگر انتہائی حیرت کی بات ہے کہ پورے مسلم عہد میں سوائے انگلی پر گننے کے قابل چند افراد کے، کوئی بڑی قابل شخصیات پیدا نہ ہوئیں اور نہ ہی نظریاتی طور پر جاندار کام ہوئے۔

ہندوستان میں انگریزوں کی آمد اور خاص طور پر 1857 کے بعد ایک اور نئی کایاپلٹ ہوتی ہے۔ اب نیشن اسٹیٹ، قومیت، جدت پسندی، شہریت (citizenship)، شناخت، ترقی، صنعتکاری، سوشل ازم، سرمایہ داری، جمہوریت، سیکولر ازم اور سائنس و ٹیکنالوجی جیسی اصلاحات متعارف ہوئیں اور مباحثے میں آئیں۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ 1857 سے 1947 تک برطانوی راج میں اتنی بڑی تعداد مسلمان و غیر مسلم علمی شخصیات کی سامنے آتی ہے کہ آٹھ سو سال کے مسلم عہد میں اتنی سامنے نہ آئیں۔ اور مزید حیرت کی بات یہ کہ تحقیق کی کوالٹی اور اخلاص و جذبہ میں 1947 سے 2017 تک ایسی شخصیات تعداد میں پاکستان میں بھی کم پیدا ہوئی ہیں۔ مگر اس سارے مکالمے میں تین چیزوں کا غلبہ رہا؛ مذہب کی تشریح نو، نیچرل سائنس اور مابعد الطبیعات، اور مسئلہ قومیت۔ اس پر خاص بات یہ کہ اسلوب میں منطق اور ادبی جوش کا غلبہ رہا۔

مسئلہ قومیت بھی باقاعدہ نظریاتی مکالمہ کا نتیجہ کم اور حالات کا ردعمل زیادہ تھا۔ چونکہ ہم ہندو کے ساتھ نہیں رہ سکتے اس لئے ہم قوم ہیں۔ چونکہ ہم ہندو سے مختلف ہیں اس لئے ہم قوم ہیں۔ قومیت کا لفظ ہندوستان میں مغربی نیشلسٹ تحریکوں سے مستعار لیا ہوا لفظ ہے۔ پوری مسلم لیگی تحریک کانگریس کی بے وفائی کے شکوؤں سے لبریز ہے۔ بقول جسونت سنگھ اگر کانگریس اپنا رویہ درست رکھتی خاص طور پر مخصوص نمائندگی اور کیبنٹ مشن پلان کے حوالے سے تو کبھی بھی مسلم لیگ علیحدہ ملک کا مطالبہ نہ کرتی۔ میرا ذاتی مطالعہ یہ کہتا ہے کہ مسلم لیگ آہستہ آہستہ غیر ارادی طور پر پھسلتے پھسلتے اس مطالبہ پر آ پہنچی کہ علیحدہ مملکت ہی حاصل کی جائے کیونکہ اس کے سوا کوئی حل ممکن نہیں۔ پوری مسلم لگی تحریک نظریاتی کم مگر بیورو کریٹک ٹائپ زیادہ تھی۔ خود قائد اعظم نے پاکستان کا مقدمہ ایسے لڑا جیسے کوئی وکیل لڑتا ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ 1857 سے 1947 تک مسلم ہندوستانی دانشوروں میں سوشل سائنسز بطور ایک باقاعدہ سائنس کبھی نہیں پڑھی گئیں۔ اقبال نے بھی مذہب، مابعد الطبیعات اور ادب کو ہی اپنے مغربی علوم کے مطالعہ میں سرفہرست رکھا جس کا بہترین اظہار اقبال کے انگریزی خطبات ہیں۔ سوشل ازم یا مارکس ازم کی طرف جن صاحبان کا رجحان ہمیں اس دور میں نظر آتا ہے اس کی دو بڑی وجوہات تھیں، انیٹی کالونیل ازم (نو آبادیات کی مخالفت جسے لینن کے اثر میں استعماریت (Imperialism) کی مخالفت کا نام بھی دیا گیا) اور انسانی ہمدردی۔ یہاں بھی ان نظریات کو فرد، سوسائٹی، ریاست، حکومت اور مارکیٹ کے باقاعدہ تجزیاتی و سائنسی مطالعہ سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔

پاکستان بننے کے بعد یہاں کی دانشورانہ فضا میں دو نظریاتی قوتیں بھرپور انداز میں سامنے آتی ہیں۔ ایک مودودی صاحب کا پولیٹیکل اسلام اور دوسرا سوشل ازم، دونوں بین الاقوامی بدلتے ہوئے حالات کے زیر اثر تھیں۔ کچھ تحریکوں نے مذہب اور جدید علوم کا ایسا آمیزہ پکانے کی کوشش کی جس میں مصلحتوں کا اتنا غلبہ تھا کہ مذہب و جدید علوم کے بنیادی اصولوں کو ہی پس پشت ڈال دیا گیا۔ مودودی صاحب مذہب کی عصر حاضر کے تناظر میں ایسی تشریح کرتے ہیں جس میں متکلمانہ اور مناظرانہ مزاج غالب ہے۔ یعنی عقیدہ کو بنیاد بنا کر عصر حاضر کے تمام اجزائے ترکیبی کی ایسی تشریح کہ نتیجہ میں اسلام کو ہی نظام حیات ثابت کیا جائے۔ سوشل ازم کی تشریحات میں بھی متکلمانہ مزاج کہ مارکس کلی طور پر درست تھا، استعمار سے نفرت کے سبب مغربی سماجی علوم و ثقافت سے بیزاری (ہاں الحاد پسند فکر اور نیچرل سائنس کو خوب قبول کیا گیا)، انسانی ہمدردی، اور ادیبانہ جوش کا غلبہ ملتا ہے۔ استاد محترم وجاہت مسعود کہتے ہیں؛ ان کا یہ مشاہدہ ہے کہ سوشلسٹ تحریکوں کی مرکزی کمیٹی میں ایسے افراد کی اکثریت تھی جنہوں نے خود کبھی کمیونسٹ مینی فیسٹو نہیں پڑھا تھا مگر اس پر سر ضرور دھنتے تھے۔

سوویت یونین اور دیوار برلن کے انہدام کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوشلسٹ تحریکیں بے جان ہو گئیں۔ موجودہ صدی کی ابتدا کے ساتھ ہی لبرل ازم کی آواز پاکستان میں سنائی دینا شروع ہوئی ہے اور سوشل میڈیا کے ساتھ ہی لبرل کہلانے والے لوگوں کا رواج بھی بڑھا ہے۔ مگر یہاں بھی ردعمل کا غلبہ موجود ہے۔ کچھ دوست رائج مذہبی تشریحات سے بیزاری کے سبب لبرل ازم کی چھتری تلے آئے ہیں، کچھ سوشلزم سے اس طرف یوں آئے ہیں کہ آدھے سوشلسٹ ہیں تو آدھے لبرل۔ کچھ فیشن کے سبب خود کو لبرل کہلواتے ہیں تو کچھ ملحد ہیں اور چونکہ ملحد تعارف تو ہے نہیں اس لئے لبرل کہلوانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ نظریاتی بنیادوں پر تقسیم کئے بغیر بھی ہم یہ چیز مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ہنوز سوشل سائنسز کا سائنسی مطالعہ، پاکستان میں نہیں کیا جاتا اور \”ادبی جوش و غیر تجرباتی منطقی استدلال\” کا غلبہ قائم ہے۔

 فرد سماجی و نفسیاتی طور پر کیا ہے۔ آزادی کیا ہے، مساوات اور انصاف سے کیا مراد ہے؟ سوسائٹی کی ہیئت ترکیبی کیا ہے، کیسے وجود میں آتی ہے، کیسے کام کرتی ہے کون سی قوتیں ہیں جن کے سبب ارتقا ممکن ہو پاتا ہے۔ ریاست کی ہیئت ترکیبی کیا ہے، کیا یہ سوسائٹی کا ایک ادارہ ہے یا ریاست سوسائٹی کی کلی نمائندگی کرتی ہے؟ اس میں طاقت کے ارتکاز کا کیا مطلب ہے اور طاقت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے۔ احتساب کا کیا مطلب ہے؟ جمہوریت کا کیا مطلب ہے اور اس کا ریاست سے کیا تعلق ہے۔ کیا واقعی سوشل کنٹریکٹ نام کی کوئی چیز ہوتی ہے؟ کیا پاکستان کی موجودہ نسل نے واقعی کسی قسم کے سوشل کنٹریکٹ کی توثیق کی ہے؟ اگر ایک شخص سوشل کنٹریکٹ کو نہیں مانتا تو کیا کرے، کیا وہ غدار ہے؟ مارکیٹ کیا ہے، کیسے کام کرتی ہے، مارکیٹ کا فرد و سوسائٹی اور ریاست سے کیا تعلق ہے؟ مارکیٹ میں سب سے بڑا مسئلہ وسائل کی بہترین تفویض کیسے ممکن بنائی جائے؟ مارکیٹ کیسے نفع بخشی کے کام کرتی ہے اور کیسے نہیں کرتی؟ یہ اور اس قسم کے درجنوں سوالات ہیں جو بنیادی ہیں، جن کو سمجھے بغیر لبرل ازم ہو یا سوشل ازم، کسی بھی سماجی نظریے کو سمجھنا ممکن نہیں۔ سوشل سائنس کا اسلوب مطالعہ، ادب و تاریخ کے مطالعہ سے کلی طور پر مختلف ہے۔ نفسیات سماجی مطالعہ میں تمام سماجی علوم کی ماں ہے کیونکہ یہ فرد کی نمائندگی کرتی ہے اور نفسیات کا مطالعہ کرنے کا رجحان ہمارے ہاں تقریباً صفر ہے۔ نفسیات، عمرانیات، تاریخ، فلسفہ، سیاسیات، معاشیات اور شماریات کے باقاعدہ مطالعہ کے بغیر سوشل سائنسز کے بنیادی سوالات کو سمجھنا اسی طرح مشکل ہے کہ آپ ریاضی پڑھ کر غالب کا تنقیدی جائزہ لکھنے بیٹھ جائیں۔

ان علوم کے مطالعہ کے بغیر یہ پیچیدگی سامنے آتی ہے کہ جب ریاست کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آتی کہ اس سے دراصل کیا مراد ہے۔ جب سیاست و معیشت میں حق انتخاب کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو یہ بھی اچھوتا تصور معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک ممتاز ترین کالم نویس نے مجھ سے کہا کہ ریاست میں حق انتخاب کیا بلا ہے؟ اصل چیز تو گورننس ہے۔ میں نے کہا گورننس بغیر \”فیڈ بیک میکانزم\” کے کیسے ممکن ہے؟ انہوں نے پوچھا یہ کیا ہوتا ہے؟ میں ابھی جواب دینے کے لئے سادہ اور مناسب الفاظ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ گفتگو کو آگے بڑھا گئے۔ میں نے خود سے پوچھا کہ کیا سیاسی و معاشی زندگی میں فیڈ بیک میکانزم کو مختصر و سادہ الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہ اس کا گوورننس اور سسٹم میں کوآرڈینیشن سے کیا تعلق ہے؟ تو خود سے جواب ملا ؛ نو …۔ اسے ایک دوسری مثال سے بھی سمجھتے ہیں، پوری دنیا میں جہاں سوشل سائنسز ترقی یافتہ ہیں وہاں کے سیاسی مکالمہ میں اس سوال کو مرکزی اہمیت حاصل ہے کہ ریاست و سیاست کو کیسے جوابدہی کے کٹہرے میں لایا جائے، کیسی اصلاحات متعارف کروائی جائیں کہ بدعنوانی کا خاتمہ ہو اور حکومت کی کارکردگی میں اضافہ ہو۔ جب کہ ہم ہنوز فکری و عملی طور پر یہ سوچتے ہیں کہ اس بادشاہ کے مرنے کے بعد نیا بادشاہ یقیناً اچھا ہو گا اور یہ کہ حکمران بدلنے سے نظام بھی بدل جائے گا۔ سیاسیات کا مطالعہ کہتا ہے کہ بادشاہ بادشاہ ہی ہوتا ہے اور اگر کسی فقیر کو بھی بادشاہ بنا دیا جائے تو اس کی ذات میں طاقت و اختیار کا ارتکاز اسے بھی بادشاہ صفت بنا دے گا۔

پاکستان میں لبرلز بھی نئے ہیں اور مکالمہ کا یہ انداز بھی نیا ہے۔ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اٹھنے والے سوالات کا تجزیاتی جائزہ لینا بھی آسان ہو جائے گا، دیئے گئے جوابات کا محاسبہ اور درست جواب کی مزید جستجو کی طرف بھی بھرپور دھیان دیا جائے گا۔ یہ گہرے مطالعہ اور بھرپور مگر سائنسی مشاہدہ کے بغیر ناممکن ہے۔ امید ہے ہمارے ملک میں سوشل سائنس کے نامور لوگ پیدا ہوں گے جو سماجی زندگی کے ڈسپلن پر کام کریں گے اور ہماری فکری و عملی میدان میں رہنمائی بھی کریں گے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments