رامش فاطمہ ۔۔۔ با ادب، با ملاحظہ، ہوش یار


\"\"بھڑوں کا چھتا؛ انھیں مشتعل کرنا نہایت آسان ہے۔ محض لفظ ”مرد“ بھی انھیں مشتعل کر دیتا ہے۔ کسی فلم میں بھی عورت پر ظلم ہو جائے تو یہ آٹھ دس مضمون تو باندھ ہی دیتی ہیں۔ اور ان کی آنکھوں کے سامنے ایک عورت مرد کو قتل کر دے، سکون کا سانس لیں گی اور کہیں گی۔ ”کوئی عورت مرد کو خوام خواہ قتل کیوں‌ کرے گی، بھلا!۔۔ ضرور مرد ہی نے اس عورت کو اکسایا ہوگا، کہ وہ اسے قتل کر دے۔۔۔ ہائے بے چاری! یونھی مرد کی باتوں میں آ گئی۔ اب اسے پھانسی نہ ہو جائے کہیں۔“ کبھی امیتابھ بچن کو فلموں میں ایسے کردار نبھانے پر اینگری ینگ مین کا خطاب ملا تھا، جس میں وہ ناراض ناراض دکھائی دیتے تھے۔ یہ احوال رامش فاطمہ کا ہے، آپ جو بھی کہیں، یہ روٹھی رہیں گی؛ اینگری ینگ وومن۔

رامش فاطمہ کو ”ہم سب“ پڑھنے والے جانتے ہیں۔ آپ میں سے ڈراونی فلمیں دیکھنے والوں نے A Nightmare on Elm Street ضرور دیکھی ہوگی؛ رامش نے یہ فلم ڈیڑھ سو بار دیکھی ہے۔ اس میں Freddy Krueger نامی ایک کردار ہے، یہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے خواب میں آ کر انھیں قتل کر دیتا ہے؛ رامش کے ذہن میں ”مرد“ یہی فریڈی کروگر ہے۔ اگر آپ نے یہ فلم نہیں دیکھی، اور فریڈی کے کردار سے نا واقف ہیں، تو رامش کی تحریروں کے مرد کو دیکھ لیں۔ یہ مرد معصوم عورتوں کے خواب میں اپنا آہنی پنجہ لیے نمودار ہوتا ہے۔

مرد سوچنے سمجھنے لگے تو عمران خان بن جاتا ہے، اور عورت سوچنے سمجھنے لگے تو رامش فاطمہ۔ مجھے شبہہ ہوتا ہے، رامش پی ٹی آئی کی اسپورٹر نہیں ہیں، تو کبھی رہی ضرور ہوں گی۔ ان میں تمام خوبیاں عمران خان والی ہیں۔ اتنی ہی خوب صورت ہیں، اتنی ہی دل کش ہیں، اتنی ہی حسین مسکراہٹ ہے۔ رہی ورلڈ کپ جیتنے کی بات، تو ابھی ان کی عمر ہی کیا ہے! دانش، فہم و فراست میں یہ عمران خان سے بیس نہیں تو انیس ہی کم ہوں گی۔ غصے میں آ جائیں، تو گھر کا چولھا تک جلا دیتی ہیں، پھول کھلانے کا من ہو، یونھی مسکرا دیتی ہیں۔ ان کا پیشہ مسیحائی ہے، کئی بیمار انھیں مڑ کے دیکھتے ہیں، ایسے بیماروں کو اک نگہ دیکھتی ہیں، بس اک نگہ سے لٹتا ہے، قافلہ دل کا، سو وہ سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں۔ سیدھے لفظوں میں کہا جائے تو ان کی ایک نظر سے ان کئی کئی بیمار شفا یاب ہو جاتے ہیں۔

\"\"ہم سب کے آغاز ہی میں میرا اور رامش کا خاموش تعلق بن گیا۔ یہ تعلق ایسا ہی تھا، جیسے مقناطیسی قطبین کا؛ ایک منفی ایک مثبت۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد۔ رامش کی اپنا زاویہ ہے، اور میری اپنی نظر۔ رامش اس سوچ کی نمایندہ ہیں، جس کے بارے میں اوپر بیان کر آیا، کہ مرد اور عورت کے رشتے میں کہیں اختلاف دکھائی دیا، تو وہ مرد ہی کو اس کا دوشی قرار دیں گی۔ کیوں کہ عورت کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتی۔ عورت بیٹی ہے، عورت بہن ہے، عورت ماں ہے، اور یہ سکھ کے استعارے ہیں، جب کہ مرد کچھ بھی نہیں؛ نہ بھائی، نہ باپ، نہ بیٹا۔ وہ محض مرد ہے، بنجر ہے اور سفاک ہے۔ سو ہم اپنی چال چلتے رہے، وہ اپنے شعر سناتے رہے۔ ایک دن رامش نے مجھے فیس بک پر تلاش کر ہی لیا، حال آں کہ میں چھپ ہر گز نہیں رہا تھا۔ بات چیت ہوئی تو یک سر سارا تاثر ہی تبدیل ہو گیا۔ یہ تو معصوم سی لڑکی ہے، جو بھائی سے جھگڑ کر صحن میں ایستادہ توت تلے جا بیٹھی ہے، اور اب مردوں کو اس لیے کوس رہی ہے، کہ بھائی کا دل جلا سکے۔ رامش جتنی حسین ہیں، اس سے کہیں زیادہ حسین ان کا دل ہے۔ ایمان داری سے کہا جائے تو رامش کا دل ہی حسین ہے، ورنہ دُنیا میں اور بھی ہیں، حسن ور بہت اچھے۔

جہاں رامش کی شخصیت پر اتنی بات ہوئی، وہیں ان کی تحریر پہ بات نہ ہو، تو یہ ان کے فن سے زیادتی ہوگی۔ یہ ایسا ہی ہے، کہ آپ کسی ڈاکٹر سے دوا لکھوائیں، اور میڈیکل اسٹور والی کی تعریف نہ کریں، کہ وہ ایک نمبر دوا دیتا ہے۔ رامش اپنی تحریر میں ایک سحر باندھ دیتی ہیں۔ قاری کو یوں ہاتھ پکڑ کر چلتی ہیں، کہ قاری کا قدم نہ ڈگمگائے، خواہ یہ خود لڑکھڑا کر گر پڑیں۔ آخر میں رامش کی تحریر دیکھیے، کیسے کیسے موتی پرو لاتی ہیں:

”وہ مجھے دیکھ رہا تھا، اور میں کہیں اور دیکھ رہی تھی۔ جاہل کا بچہ سمجھ رہا تھا، میں اس کو نہیں دیکھ رہی تھی، لیکن میں دیکھ رہی تھی۔ پتا نہیں ان مردوں کو کیا تکلیف ہے، جہاں عورت دیکھی نہیں، دیکھنا شروع کر دیا۔ کوئی ان سے پوچھے جب میں تمھیں دیکھ ہی نہیں رہی، تو تم مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟ لیکن نہیں، انھیں تو دیکھنا ہے۔ اور دیکھنا ہے، بس۔ جیسا کہ کہا میں اسے نہیں دیکھ رہی تھی، لیکن وہ مجھے دیکھ رہا تھا، تو مجھے بہت غصہ آیا، کہ وہ مجھی کو کیوں دیکھ رہا ہے۔ میں اُس کے پاس چلی گئی، ایسا خبیث تھا، پھر بھی نظر نہیں ہٹائی۔ میں نے پوچھا، کیا تکلیف ہے، تمھیں؟ وہ ایسا بن گیا، جیسے کچھ نہیں دیکھ رہا، اور کہا، ”میں تو اندھا ہوں، جی۔ مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔“ بعد میں پتا چلا، وہ سچ کہ رہا تھا، مرد تو سارے ہی اندھے ہوتے ہیں، ان کی عقل پہ پردہ ہوتا ہے۔ آنکھیں ہوتیں بھی تو کیا فائدہ!“

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments