امام بخشی ۔۔ ہمیں تم سے پیار ہے!


ایک چھوٹی سی پک اپ گاڑی کو ذہن میں لائیے۔ سوچیے کہ اس پر ٹرک آرٹ کیا گیا ہے۔ پیچھے کسی ریٹائر ہونے والے جرنیل کی تصویر ہے اور نیچے لکھا ہے، ”میں بڑے ہو کر ٹرک بنوں گی۔ “ بس وہ پک اپ گاڑی حسنین جمال ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر عاصم بخشی بنیں گے۔

مناسب قد، سمارٹ سی جسامت، کندھے ویسے ہی جیسے کسی شدید پڑھاکو انسان کے ہوتے ہیں، چشمہ بھی عین ویسا ہی، نیلی جینز اور ساتھ کوئی بھی شرٹ پہنے ایک لمبی سے ڈاڑھی کہیں بیٹھی ہو جس کے ساتھ مونچھیں نارمل سی ہوں تو وہ تقریباً عاصم بخشی ہوں گے۔ مکمل اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ امام بخشی تشکیک کے اس درجے پر فائز ہیں جس میں خود اپنے ہونے کا بھی گمان تو ہو سکتا ہے، یقین ہرگز نہیں۔ تو بس تقریباً عاصم بخشی کو دیکھیے اور رب کا شکر ادا کیجیے جس نے آپ کو ان سے متعارف کروا دیا اور ان کی شاعری بھی پڑھوا دی۔

وہی شکر استغفار میں بدل جاتا ہے جب انسان ان کی نثر دیکھتا ہے۔ ہما شما عاصم بخشی کو فیشن میں شئیر کرتے ہیں۔ وہ عقل جدید کا ایک ہاٹ ٹرینڈ ہیں۔ ایک بیس سال کا جوان اٹھے گا، سو دو سو کتابیں پڑھی ہوں گی اور وہ بھی عاصم بخشی کا مضمون شئیر کر دے گا تو بزرگ سوچنے لگیں گے کہ ”جانی، تم یہاں بھی بازی لے گئے۔ “ بے شک عقل اور علم کا تعلق بزرگی سے ہرگز نہیں ہوتا لیکن شئیر کرنے والے کی وال دیکھ کر تو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ تو بس جو عاصم بخشی کو شئیر کرے لازم ہے کہ اس کی فیس بک وال پر جائیں اور چیک کریں کہ جوان نے متاثر ہو کر شئیر کیا ہے، کسی اور دانشور کی وال پر دیکھ کر کھینچ لایا ہے یا واقعی سمجھ کر اور مکمل پڑھ کر شئیر کیا ہے۔ اگر اس نے سمجھا ہے اور مکمل پڑھا ہے تو اس کی جوانی میں فالٹ ہے! اور اگر یہ دعوی غلط ہو تو فقیر آج سے گھاس کاٹنے جنگلوں میں چلا جائے گا۔

امام بخشی کا خطاب انہیں شاید وسی بابے نے دیا تھا۔ بابا شیر ہے، وہ کسی کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ تو بخشی صاحب کے لکھے کی تعریف بعض اوقات وسی بابا بھی کرتا ہے۔ جس دن وسی بابے کا سائیکل چلانے کو موڈ نہ ہو اس دن وہ ان کے کالم پڑھ کر چربی گلاتا ہے۔ پانچ چھ بار عاصم بھائی کا لکھا پڑھے گا، دو تین بار ڈکشنری کھولے گا، پھر شاید ایک آدھ بار اسے میز پر پٹخے گا، جب پسینے آنے لگ جائیں گے تو ان باکس میں آ کر تعریف کر دے گا۔ اس دن وسی بابے کے سٹیٹس میں سردی، بہار، نیکر، بھینس یا بارش کا ذکر نہیں ہوتا۔ مکیش کے گانے یا کسی شدید غمگین شاعر کے شعر پوسٹ کرتا ہے۔

عاصم بھائی بات چیت بالکل عام زبان میں کرتے ہیں۔ عین ویسی ہی زبان جیسے ہم سب بولتے ہیں۔ باقاعدہ عالم آدمی ہیں، بات کرنا جانتے ہیں، بات سمجھانا جانتے ہیں، بحث کرنا جانتے ہیں، بحث میں جیتنا جانتے ہیں لیکن جس وقت لکھنے بیٹھتے ہیں انہیں یاد آ جاتا ہے کہ ہر شخص ان کا مخاطب نہیں ہے، انہوں نے صرف دو سو لوگوں تک اپنی بات پہنچانی ہے، ان میں سے بھی اگر کوئی مکمل سمجھ جائے گا تو انہیں خود پریشانی ہو گی اور وہ سوچیں گے کہ استاد اس مرتبہ کوئی کسر رہ گئی۔ ہاں جتنے کم تبصرے ہوں وہ اتنے مطمئن ہوں گے کہ ابلاغ مکمل ہوا اور بس اتنا ہی ہوا جتنا انہوں نے سوچا تھا۔

انہیں ترجمہ کرنے کا شوق بھی ہے۔ انتہائی شاندار ترجمے کرتے ہیں۔ رواں دواں نثر، کہیں کوئی رکاوٹ نہیں، اصل متن سے وفاداری اور سارے کا سارا آسان اردو میں ہوتا ہے۔ اکا دکا مشکل لفظ وہ ملیں گے جہاں انہیں اٹھا کر دہی لینے بھیج دیا جائے گا اور واپس آنے پر سلسلہ ٹوٹا پائیں گے تو جھلا کر تھوڑی سی عاصم بخشیت کا مظاہرہ کر دیں گے۔ گاڑی پھر رواں ہو جائے گی۔ یہ ترجمے ان کے علمی مضامین کی زکوة ہیں۔

جتنی کتابیں ایک شوقین آدمی سال بھر میں خریدتا نہیں ہے یہ اتنی پڑھ بھی لیتے ہیں۔ ان میں سے بہت زیادہ انگریزی کی ہوتی ہیں اور باقاعدہ ایسی مشکل ہوتی ہیں کہ صرف سرہانے رکھا جائے تو نیند کیا باقاعدہ بے ہوشی طاری ہو۔ اچھی انگریزی فلمیں بھی دیکھتے ہیں۔ فیملی کو بھی وقت دیتے ہیں، نوکری بھی پوری چلتی ہے، نماز روزے کے بھی پابند ہیں اور کبھی کبھار لکھتے بھی ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے کوئی دو سو چھیاسٹھ کتابوں کا تعارف نظر آیا اور لکھا تھا کہ بخشی صاحب نے سال بھر میں پڑھا۔ گریبان میں منہ ڈالا اور سوال کیا استاد تم نے کیا پڑھا سال بھر میں؟ چند تصاویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط؟ جواب آیا، بیٹے بہت زیادہ شوخی نہیں کرتے! مٹی تے سواہ گیا سال۔

امام بخشی زندگی کے تمام پہلوؤں پر نظر رکھتے ہیں۔ بوسے کی مابعد الطبیعات نامی مضمون میں لکھتے ہیں، ”بوسے کا مسئلہ نہایت اہم اور فوری توجہ کا مستحق ہے۔ اس کی وجہ فی نفسہ سرعام بوسہ لینے والوں کے انسانی حقوق میں ہماری غیر معمولی دلچسپی نہیں بلکہ اس کو ایک فلسفیانہ قضیے کے طور پر بحث کے دائرے میں لا کر ہمارے سماج میں سرِ عام اظہار عشق و قربت کے اختیاری دائروں کے محیط کی پیمائش اور اخلاقیات سے جڑے کئی اہم مابعدالطبیعاتی مفروضوں کا تجزیہ ہے۔ “ اب کوئی شریف انسان بتلائے کہ آئندہ وہ بوسہ بازی کا سوچ بھی سکتا ہے؟ توبہ توبہ بوسے میں سے اتنا سب کچھ نکال لانا مرشد ہی کا حصہ ہے۔

وہ کالم ختم ان الفاظ پر ہوا، ”اس طویل نظر خراشی کی ضرورت اس لئے پیش آئی تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ ہم سب انسان استدلال کی کوئی مافوق الفطرت قوت نہیں رکھتے بلکہ ہمارا استدلال اپنی گہری ترین تہوں میں کچھ مخصوص ذہنی میلانات کی بنیاد پر چند مابعدالطبیعاتی مفروضے قائم کر کے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہ سفر مشاہدے اور تجربے سے عبارت ہے۔ مشاہدے اور تجربے کے نتیجے میں ذہنی میلانات میں تبدیلی آتی ہے اور مفروضے بدلتے رہتے ہیں۔ ان مفروضوں پر کسی بھی قسم کے اٹل اصرار سے پرہیز کیجئے۔ “گویا اتنا کچھ پڑھا کر، سمجھا کر، کسی بھی دلربا قسم کے بوسے کا مزہ ٹھس کر کے اب بھی یہی کہتے ہیں کہ بھئی اٹل اصرار سے پرہیز کیجیے۔ ٹھیک ہو گیا مرشد! جیویں کہو گے، کر لیں گے!

ایک حالیہ سروے میں انکشاف ہوا کہ عاصم بخشی نے بہت سے کام ایسے کیے جو انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے کبھی سوچے بھی نہیں ہوں گے۔ لیکن چوں کہ وہ ایک سچے اور کھرے انسان ہیں، ان کی خود شناسی پر حاشر بھائی اور فقیر کو یقین ہے اس لیے اس سروے کے نتائج پر دونوں ایمان لے آئے۔ بخشی صاحب کے پورے وجود میں ان کی آنکھیں اور صرف آنکھیں ان کا پول کھولتی ہیں۔ اگر وہ آنکھیں ایسی شرارتی نہ ہوں یا ان کی مسکراہٹ میں کوئی پندرہ بیس رمزیں نہ چھپی ہوں تو بندہ کبھی ایسے گمراہ کن سروے کو خاطر میں نہ لائے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طنیت را!

وی لو یو امام بخشی!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments