ہم سب کی چند ساحرائیں


گزشتہ مضمون میں ہم سب کے چند ساحروں کا تذکرہ ہوا تھا جو کہ طلسم ظلمات کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آج پل پریزاداں کا رخ کرتے ہیں اور اس کے پار کھڑے لشکر کی چند ساحراؤں کا حال بیان کرتے ہیں۔

نور الہدی شاہ

زیادہ شہرت تو انہوں نے ٹی وی ڈراموں سے پائی مگر اب مضمون نگاری پر مائل ہوئی ہیں۔ ہماری طرح نہیں ہیں کہ جو دماغ میں آیا، سوچے سمجھے بغیر فٹ سے لکھ ڈالا۔ یہ پرانے خیال کی رائٹر ہیں۔ کچھ لکھنا ہو تو پہلے اس پر خوب غور و فکر کرتی ہیں اور پھر ایک ایسے زاویے سے معاملے پر روشنی ڈالتی ہیں کہ وہ براہ راست تبصرہ نہ ہونے کے باوجود چودہ طبق روشن کر دیتا ہے۔

بحیثیت ایڈیٹر، کسی بھی رائٹر کو تنگ کرنا ہم اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں، کیا ہوا اگر نور الہدی شاہ صاحبہ اس وقت سے کمال کی تحریریں لکھ رہی ہیں جب ہم نے پڑھنا بھی نہ سیکھا تھا، ان کی تصیح ہم کیوں نہ کریں؟ ان کے مضمون میں تو تصیح کرنا مشکل ہوتا ہے، ہم ان کے عنوان کو پکڑ لیتے ہیں۔ اب انہوں نے گزشتہ مضمون ارسال کیا تو ساتھ یہ سندیسہ بھی بھیج دیا کہ اس کا عنوان عدنان کاکڑ خود ہی رکھ لیں۔ ہم جب سے غور کر رہے ہیں کہ یہ طنز ہے یا ہمارے کمال فن کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

لینہ حاشر

طلسم ہوشربا کی یہ باغی ساحرہ خود کو لینہ حاشر کہتی ہے اور رقعوں سے حشر برپا کرتی ہے۔ آپ نے جادوگروں کے خدا سامری کے پوتے مصور جادو اور اس کی بیگم صورت نگار جادو کا ذکر تو پڑھا ہو گا کہ کیسے دشمن کی تصویر بناتے تھے اور اس کو گرفتارِ بلا کرتے تھے۔ ہماری رقعہ نگار جادو یہی کام خط لکھ کر کرتی ہیں۔ جب بھی ان کا خط پتر موصول ہوتا ہے تو ادارتی ٹیم گھبرا کر مرشدِ شاعراں داغ جادو کا منتر پڑھنے لگتی ہے کہ ’خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں، کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں‘۔ بس یہ گھر بیٹھی خط لکھا کرتی ہیں، روتی ہیں، رلاتی ہیں اور حزن و ملال کا رنگ پینٹ کرتی رہتی ہیں۔

لبنی مرزا

ہم سب کی فکری کج روی کو دیکھتے ہوئے خاص طور پر ڈاکٹروں اور اساتذہ نے اس پر خاص توجہ کی ہے اور ان کی ایک بڑی تعداد ہم سب پر لکھتی ہے۔ انہیں میں سے ایک ڈاکٹر لبنی مرزا ہیں۔ امریکہ میں ہوتی ہیں۔ نہ جانے کس کس شے کی ماہر ہیں۔ کبھی معاشرے کا روحانی علاج کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو کبھی دماغی۔ لیکن بیشتر اوقات مرض کا نسخہ لکھ کر بھیج دیتی ہیں کہ فلاں مرض میں فلاں چیز کا فائدہ ہو گا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنے برس سے انگریزی بول بول کر بھی اتنی اچھی اردو کیسے لکھ لیتی ہیں۔

رامش فاطمہ

یہ محترمہ بھی ڈاکٹر ہیں لیکن ایک اچھی پاکستانی ہونے کی وجہ سے اپنی فیلڈ کے بارے میں لکھنے کی بجائے دوسرے معاملات پر لکھتی ہیں۔ ان سے آپ کی بات ہو تو آپ کو یقین ہو جائے گا کہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں اور میٹھی میٹھی پڑیاں کھلاتی ہیں۔ لیکن اگر ان کو شبہ بھی ہو جائے کہ کسی خاتون کی حق تلفی ہو گئی ہے یا ڈاکٹروں کو کسی نے بری نظر سے دیکھا ہے تو یکلخت جون بدلتی ہیں اور ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے خنجر بدست سرجن بن جاتی ہیں۔ دیکھنے والا شعر پڑھنے لگتا ہے ’بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں​‘۔ پھر اپنی غلطی پر پشیماں ہو کر یہی کہہ پاتا ہے کہ ’میں نے اس کے سامنے پہلے تو خنجر رکھ دیا، پھر کلیجہ رکھ دیا دل رکھ دیا سر رکھ دیا‘۔ اس سے آگے کچھ کہنے کی مہلت نہیں مل پاتی کہ زندہ شخص کا ہی پوسٹ مارٹم شروع ہو چکا ہوتا ہے۔

ان کے کشت و خوں کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کے مستقبل کے بارے میں دو پیش گوئیاں کی جا سکتی ہیں۔ یا تو یہ ڈرون آپریٹر بن جائیں گی اور دہشت گردوں پر میزائل داغا کریں گی، یا پھر یہ ڈاکٹر شیریں مزاری بن جائیں گی اور سٹیٹس کو نامی شے کو بلڈوز کر ڈالیں گی۔

زنیرہ ثاقب

گمان غالب ہے کہ زنیرہ کہیں استاد لگی ہوں گی کیونکہ یہ عام طور پر پرچے سیٹ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی دوپٹے کے دس فوائد پر روشنی ڈال دیتی ہیں تو کبھی مردوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔ پہلے تحریر ایسی لکھ ڈالتی ہیں کہ فریق مخالف کو مار ہی ڈالتی ہیں اور پھر بتاتی ہیں کہ موت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ مختلف چیزوں کے فوائد و نقصانات سے امت معصومہ کو آگاہ کرنے کی شائق ہیں۔ زنیرہ اگر ٹیچنگ کی بجائے گھر داری میں پڑی ہوتیں تو مفاد عامہ کی خاطر ایسے ایسے ٹوٹکے بتایا کرتیں کہ لوگ زبیدہ آپا کا نام بھول جاتے۔

عفت حسن رضوی

غالب نے لکھا تھا کہ ’بھئی مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں‘۔ عفت حسن رضوی صحافی ہیں اور صحافیوں کو مار رکھتی ہیں۔ کبھی ابصار عالم صاحب کو چار سبق پڑھاتی دکھائی دیتی ہیں تو کبھی مائیک پکڑے کسی حسینہ کے ٹرپل ون بریگیڈ کا نمبر لینے پر شکوہ کناں ہوتی ہیں۔ ان سب سے اکتائیں تو کسی صالح صحافی کی ڈائری ہی لکھ ڈالتی ہیں۔ گمان ہے کہ جلد ہی پریس کلب والے ایک بڑا وفد بنا کر ان کی خدمت میں بھیجیں گے کہ بی بی رحم کرو، خبر بنانے والے خبریالوں کو خبر مت بناؤ ورنہ تمہاری خوب خبر لیں گے۔


ہم سب کے چند ساحروں پر ایک شوخ نظر
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments