مجھے ڈر لگتا ہے


\"\"میں پاکستان میں رہتی ہوں اور یہ وہ ملک ہے جہاں میں پیدا ہوئی۔ بچپن کی حسین یادیں، لڑکپن کی شرارتیں اور جوانی کا بانکپن اسی دھرتی پر گزارا ہے۔ اس سرزمین کو دھرتی ماں کہا اور مانا ہے مگر مجھے اب ماں کی گود میں ڈر لگ رہا ہے۔ سلمان حیدر ہو، یا کوئی اور، شاید اُن سب کو بھی ڈر لگ رہا ہو گا۔ اُن جیسے اور بھی بہت سارے خوف زدہ ہوں گے۔ کچھ آواز بلند کر رہے ہیں اور کچھ کو خاموش کروا دیا گیا ہے۔

انسان کا یہ کون سا روپ ہے جو درندوں سے بھی زیادہ بھیانک ہے؟ جنگل کا یہ کون سا قانون ہے جس پر کوئی زور نہیں ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ زیادہ ڈر اس بات سے لگ رہا ہے کہ لاپتہ ہو کر مار دیئے جائیں گے یا لاشیں ملنے کے بعد آواز بلند کرنے کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا۔ ہم سب تو ان سب کے لیئے فکرمند ہیں ہی مگر ان کے اپنوں کا حال شاید ہم سب سے بھی زیادہ برا ہے۔ طبعی موت کا غم سہنا اتنا مشکل نہیں جتنا لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہونا ہے اور نہ زندوں میں اور نہ مُردوں میں کی سی حالت کا سوگ منانا ہے۔

آوازیں بلند ہونا بند ہوجائیں گی، گھر والے لکھنے پر قدغن لگا دیں گے، سب چھوڑ کر باہر پناہ لینی پڑے گی یا شاید گمنام ہونے میں عافیت محسوس ہوگی۔ اخفا کی ثقافت پھر زور پکڑے گی۔ بس ایک بار سوچیں یہ سب ہوگیا تو کیا واقعی ہم انسان ہوں گے؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ نفرت کا کاروبار کرنا بہت آسان ہے مگر مجھے محبت سے محبت ہے۔

لیکن میں مجبور ہوں

کیونکہ انسانیت سے محبت کر کے ہر شخص کو انسان کہنے سے

مجھے ڈر لگتا ہے

کسی اور کے لئے نہیں

اب اپنے لئے بھی آواز اٹھانے سے

مجھے ڈر لگتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments