ہم سب کے تیرہ انمول رتن


تیسری قسم کے لوگ۔ یہ لوگوں سے تنگ، لوگ ان سے تنگ، اور یہ خود بھی اپنے آپ سے تنگ۔ اپنے آپ سے کتنے تنگ آئے ہوئے ہیں حاشر کی تصویر اس کے سوا اور کچھ نہیں بولتی۔ یہ چاہتے ہیں ساری دنیا ان کے جیسی ہو جائے، جس دن یہ ہو گیا اس دن یہ کسی اور طرح کے ہو جائیں گے اور پھر دنیا سدھار مہم شروع کر دیں گے۔ ایک زمانے میں یہ دنیا کے دورے پہ نکلے تو ہر جگہ ان کے مبارک قدم پڑنے سے پہلے ہی عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے اور ہمیں یقین آ گیا کہ یہ بہت فسادی انسان ہیں۔

ید بیضا کو اپنا نام خود ہی پسند نہیں ہے تو ہمارے پاس بھی کوئی وجہ نہیں ہے ان کے نام کو پسند کرنے کی۔ یہ سگریٹ اور سگار کے بیچ پھنسے ڈیڑھ فلسفی ہیں جو ڈیڑھ ہفتے سے پہلے کچھ لکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس دنیا میں آنے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے نہ صاف چھپنا نہ سامنے آنا۔ یہ چپ چاپ اپنی فیس بکی چلمن سے لگے بیٹھے رہتے ہیں، اور اس کی وجہ کسی حسینہ کا انتظار نہیں بلکہ کچھ خاص لوگوں کے کمنٹس کا انتظار ہے، جونہی وہ کہیں کمنٹ کریں یہ بھاگتے دوڑتے وہاں پہنچتے ہیں اور حساب برابر کر دیتے ہیں۔

ذیشان ہاشم کو پہلے روز سے احساس ہے کہ اس ملک کے عام لوگوں کے مسائل پہ خاص زبان میں لکھنا چاہیے تاکہ عام لوگوں کو پڑھ کے بھی احساس نہ ہو کہ یہ ان کے درد میں مبتلا ہیں۔ یہ خود کو عاصم بخشی اور وجاہت مسعود سے کم نہیں سمجھتے اور ان کے اس غرور کی وجہ سے ہم بھی ذیشان ہاشم کو کچھ نہیں سمجھتے۔ معاشیات اور سوشل سائنسز کے بیچ پھنسے انہیں انتظار ہے کسی طرح دس پندرہ برس گذر جائیں تو انہیں وزیر اعظم بنانے کی خاطر اس ملک کے عوام پر مسلط کر دیا جائے گا، اسی امید پر ان کی دنیا قائم ہے۔

عدنان کاکڑ کو کون نہیں جانتا؟ کھڑکی میں بیٹھے پرندوں سے لے کر کمنٹس سیکشن کے صالحین تک سب انہی کو دیدار کروانے آتے ہیں، پرندے بےچارے پرندے ہونے کی وجہ سے بچ جاتے ہیں مگر کسی انسان کا بچنا ممکن نہیں۔ شروع میں ان کی تحریر پڑھ کے گمان ہوا کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے جو ہر موضوع پہ لکھ لیتے ہیں لیکن پھر احساس ہوا کہ ان کا مطالعہ دراصل صفر سے ایک تک کا ہے اور اسی کی بنیاد پر یہ باقی تمام موضوعات پہ بھی لکھ لیتے ہیں، ان کے اتنا لکھنے کی ایک وجہ ان کی باقی ٹیم کا نکمے، سست، آلسی ہونا بھی ہے۔

وسی یا وصی آپ کچھ بھی لکھیں، بابے نے بابا ہی رہنا ہے۔ ایک زمانے میں یہ بچے بھی ہوا کرتے تھے جب انہیں نیکر، سائیکل، سردی، بھینس اور بارش سے محبت ہوئی، اسی بچپن کی محبت کو چھپانے کی خاطر انہوں نے لفظ بابے کا سہارا بھی لیا مگر بات بن نہیں پائی۔

عوامی دانشور ہیں تو عوام میں رہنا بالکل پسند نہیں کرتے، صرف عوامی زبان میں گفتگو کرتے ہیں تاکہ لوگ انہیں زیادہ سنجیدہ نہ لیں۔

ایک وقار ہیں، اور ان سے مجھے بہت گلہ ہے۔

انہیں حراموش سے بہت محبت ہے، اور جس دن سے ہماری دوستی ہوئی ہے انہوں نے حراموش حراموش کی ایسی رٹ لگا رکھی ہے کہ اس سے ملتی جلتی ایک گالی بکنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہیں غلطی سے گالی کے حقدار کو حراموش ہی نہ بول دیں۔ یہ سرد علاقوں سے محبت کا دعوی کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ یہی سردی ان کے مزاج کا حصہ بھی بنی رہے، ان کی اس کامیاب کوشش کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہم سب کو ایک آفر کرائی اور اس کے بعد سے لے کر آج تک ٹھنڈ پروگرام ہی چل رہا ہے۔

لینہ اچھی خاصی ہنس مکھ خاتون تھیں، لیکن پھر ان کی زندگی کا حشر نشر ہو گیا جب انہیں احساس ہوا کہ ان کی زندگی ایک ایسے انسان کے ساتھ گذرے گی جسے باتیں بنانے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ایک مدت تک یہ سوچتی رہیں کہ آخر وہ کیا جرم تھا جس کی ایسی بھیانک سزا ملی، جرم تو واضح نہ ہو سکا مگر انہوں نے ہر مشرقی بیوی کی طرح صبر شکر کر لیا کہ کم از کم باتیں تو بناتے ہیں اگر یہ بھی نہ بناتے تو میں کیا کر سکتی تھی۔ کہتے ہیں میاں بیوی بہت سال اکٹھے رہیں تو ان کی شکلیں ملنے لگتی ہیں مگر یہاں لینہ نے شکل بچا لی اور اپنے میاں کی طرح باتیں بنانی شروع کر دیں۔ اب اگر کسی ہفتے ان کا خط نہ ملے تو ہم ان کے میاں سے پوچھتے ہیں کہیں آپ نے باتیں بنانا چھوڑ تو نہیں دیں؟ پھر جواب ملتا ہے کہ لینہ ایک پتی ورتا پتنی ہیں انہیں اپنے حصے کا ہنسنے سے فرصت ملے تو حاشر کی جگہ بھی ہنسنا پڑتا ہے اس لیے کبھی کبھار ان کی تحریر بھی تاخیر سے پہنچتی ہے۔

زنیرہ ثاقب کے بارے میں علم ہوا ہے کہ وہ ویسی ہی پی ایچ ڈی کرنا چاہتی تھیں جیسی یہاں سب لوگ کرتے ہیں مگر ایک نامعقول انسان کے طعنوں نے انہیں مجبور کر دیا کہ کچھ اچھی کتابیں پڑھ لو، اس چکر میں انہوں نے بہشت کے درختوں سے جہنم کے ریگستانوں تک سب پڑھ لیا بس وہی نہیں پڑھا جو پڑھنا چاہیے تھا۔ ان کی تحریر کو بھی لوگ دل پہ لے جاتے ہیں حالانکہ یہ دوپٹے کے وہ فوائد بتاتی ہیں جو آج تک کچن سے دور رہنے والے اور انہیں کچن میں رکھنے والے بھی نہیں جان سکے۔

عاصم بخشی کے بارے میں آپ کو کچھ بھی جاننا ہو تو ان سے پوچھیں میں نے صرف وارننگ دینی ہے۔ اگر یہ کسی کتاب کا کہیں تو ان کی بات ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کتاب خریدیں گے، پڑھیں گے اور پھر سوچیں گے یہ میں نے کیوں خریدی تھی؟ نہ وہ کتاب آپ کسی کو تحفے میں دے سکتے ہیں نہ ہی ان سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے جو اس کی قیمت ادا کر کے میں نے اٹھایا؟ مجھے ابھی تک انتظار ہے یہ مجھے ملیں تو بارہ سو روپے ان سے وصول کروں گی اور کتاب آگے کسی کو تحفے میں دے دوں گی مگر بخشی صاحب کو لگتا ہے کہ میری وجہ سے ان کی داڑھی کو خطرہ ہے اس لیے مجھ سے ملاقات کی حامی نہیں بھرتے۔ ایک بار انہوں نے ایک کالم لکھا، مجھے اپنے اور باقی دو ناموں کے سوا کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہنا چاہتے ہیں پھر ایک دوست کے ہاتھ پیغام بھجوایا کہ انہیں کہیں آسان بھاشا میں لکھا کریں۔ دوست بھی میرے جیسا ہی تھا وہ میری طرح آج تک بیٹھا ایک مناسب جملہ سوچ رہا ہے جو لکھ سکے اور انہیں یہ کہہ سکے۔ خیر کی بات یہ ہے کہ ایک سال ہم سب کے ساتھ رہنے کی وجہ سے وہ کبھی کبھی آسان بھاشا میں لکھ لیتے ہیں اگر وہ یونہی ہمارے ساتھ رہے تو ایک دن ایسا لکھنا سیکھ جائیں گے جو کسی کو سمجھ بھی آ سکے۔

حسنین جمال کو جاننا ہے تو پہلے ان کے حجرے کا چکر لگائیں یا تصویر ہی دیکھ لیں۔ ان کی زندگی کی طرح ان کے حجرے میں بھی عالیہ نہیں ہے یہ پہلا دھوکہ ہے۔ ان کی تحریر پڑھ کے ایسا لگتا ہے کہ باغ، بہار، پھول، چاندنی رات کے سوا انہوں نے زندگی میں کچھ نہیں دیکھا اور یہیں سے آپ دوسرا دھوکہ کھاتے ہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں کیکٹس میں دلچسپی ہے مگر یہ کانٹے ان کی تحریر میں آپ کو نظر نہیں آتے۔ تیسرے دھوکے کی نشاندہی سے پہلے بتا دوں کہ یہ ایک زمانے تک خود کو اور انتظار حسین کے سوا کسی تیسرے کو کچھ نہیں سمجھتے تھے اور ایسی زبان لکھتے تھے جو امام بھی نہ سمجھ سکے مگر ان کی تربیت بھی ہم سب کے طفیل ہوئی، اب جو کبھی کبھی آپ کو لگے کہ حسنین پانچویں آسمان سے اتر آئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں کچھ عرصہ پہلے ہی احساس ہوا کہ زندگی میں اور بھی دکھ ہیں ناسٹیلجک ہونے کے سوا اور یہی تیسرا دھوکہ ہے جو یہ خود کو کبھی کبھار دے جاتے ہیں۔ انہیں زندگی میں یکسانیت اتنی پسند ہے کہ روز ہم سب کو پروفائل پکچر بدلنے کا دھوکہ دیتے ہیں اور تصویر دیکھ کر آپ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ آخر یہ جو تم نے بدلا ہے یہ بدلا ہے یا بدلہ ہے؟ دراصل حسنین جمال داڑھی والا دھوکہ ہے۔

آج سے سوا سو سال پہلے ایک صاحب اس دنیا میں تشریف لائے اور ارتقاء کے مراحل طے کرتے جانے کیا بن گئے۔ اقبال کے بعد یہ دوسرے شخص ہیں جو خود سے آگاہ نہیں ہیں اور اپنی اس کم علمی کو دانشوری سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کنویں میں رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ عہدِ حاضر کے یوسف ہیں مگر ان کی تین شرائط ہیں، کنواں ان کی مرضی کا ہو، برادرانِ یوسف سی سی ٹی وی پہ انہیں دیکھ کر دل جلاتے رہیں اور یہ اس کنویں میں بیٹھ کر زلیخا کا انتظار کریں۔ ایسے بد دماغ ہیں کہ آپ انہیں پتلی کی طرح نچانے کی کوشش کریں ناکام رہیں گے، اپنی مرضی ہو گی تو گھنٹوں ناچتے رہیں گے۔ آپ سگریٹ آفر کریں یہ ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے الٹا آپ کو چرسی ہونے کا طعنہ دیں گے، اپنی مرضی ہو گی تو گھنٹے میں ڈبی مکا چھوڑیں گے۔ ان کے قریب ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ وہ ان کا سب سے قریبی دوست ہے، وہی واقفِ حال ہے اور اس سے بہتر انہیں کوئی نہیں جانتا، حالانکہ اگر کوئی واقعی انہیں جان جائے تو جوتے بغل میں دبائے دوڑ لگا دے اور کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔

نام بتانے کی ضرورت ہے؟ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے ایک زمانے کو گمراہ کیا ہے اور ان کے ہاتھوں گمراہ ہونے والے فخریہ طور پہ بتاتے پھرتے ہیں کہ ہمیں فرنود عالم نے گمراہ کیا ہے ورنہ ہم تو اچھے خاصے تھے۔

جمشید اقبال کہنے کو اتنے پرانے ہیں کہ جو واقعات کتابوں میں نہیں ملتے یہ ایسے بیان کرتے ہیں جیسے چشم دید گواہ ہوں، بعض اوقات لگتا ہے یا تو انہوں نے سب کروایا ہو گا یا پھر بھگتا ہو گا ورنہ اتنی کہانیاں کس کے پاس ہو سکتی ہیں سنانے کو مگر ایسا کچھ ہے نہیں، اصل میں ان کے اور عثمان قاضی کے پاس کوئی نسخہ ہے جس سے یہ ٹائم ٹریول کرتے ہیں اور عین اس زمانے میں کھڑے ہو کر بتاتے ہیں کہ یہاں اس وقت میں کیا چل رہا تھا۔ ان کے اور عثمان قاضی کے بیچ ایک اور قدر مشترک ہے اور وہ ان کا ہیئر سٹائیل ہے جس سے اکثر لوگ جلتے ہیں مگر یہ جلنے والوں کے منہ ایسے ایسے حوالے دے کر کالے کرتے ہیں کہ وہ دل میں حسرت دبائے بیٹھے رہیں کہ کہیں یہ ملیں تو ان کو ایک آدھ تو لگا ہی دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں حضرات ملنے سے پہلے سامنے والے پہ کتاب کے عین بیچ سے ایسا منتر پڑھ کے پھونکتے ہیں کہ جب تک یہ بیٹھے رہیں لوگ ان کو سنتے رہتے ہیں اور اپنی خواہش بھول بیٹھتے ہیں۔

ایک سال پہلے تک وجاہت مسعود کیا کرتے تھے وہ اگر آپ نہیں جانتے تو خیر ہے مگر ایک سال سے کیا کر رہے ہیں یہ میں آپ کو بتا سکتی ہوں۔ ہم سب ایڈیٹر کا برین چائلڈ ہے سو وجاہت اپنے بچے کی نشونما اور قوت مدافعت بڑھانے میں لگے رہتے ہیں، اسے پیپمر کرتے ہیں، انگلی پکڑ کے چلنا سکھاتے ہیں، موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے کی خاطر اقدامات کرتے رہتے ہیں، بچہ جاگر پہن لے تو تسمے خود باندھتے ہیں کہ نکما باہر بھاگتے دوڑتے گر نہ جائے، کچھ لوگ شادی کے بعد بیگم کو پیارے ہو جاتے ہیں ، کچھ عشق کے بعد نکمے ہو جاتے ہیں، ایسے ہی وجاہت اس بچے کے بعد کسی کے نہیں رہے۔

ایک رامش فاطمہ ہیں، کہنے کو لوگوں نے انہیں مذہب بیزار کہا مگر ہیں یہ آدم بیزار۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ان کی پروفائل بتاتی ہے کہ سوشل میڈیا پہ بہت ایکٹو ہیں مگر یہ لوگوں کو سمجھاتی رہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پہ ایکٹو اور سوشلی ایکٹو ہونے میں بہت فرق ہے۔ انتہائی بد دماغ، بد لحاظ، بدتمیز اور بدتہذیب خاتون ہیں۔ اکثر سوچتی ہیں ماچس ہاتھ لگے تو اس دنیا کو آگ لگا دوں مگر ماچس تو تب انہیں ملے اگر یہ فون چھوڑیں اور کبھی کچن کا چکر لگا لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments