کچھ لوگ خضر کے ساتھ، چلے تھے دریا کرنے پار


\"\"راحیل شریف سبک دوش ہو گئے۔ یوں لگا جیسے پاکستان ایک نئی راہ پر چل نکلا۔ ایک سپہ سالار جو نہ صرف عوام میں بے حد مقبول تھا بلکہ سیاسی قیادت اور اینکر حضرات کی بھی آنکھ کا تارہ تھا، مبینہ طور پر بغیر کسی چوں چرا کے خود ہی گھر چلا گیا۔ ہم بھی ویسے ہی خوش تھے جیسے باقی سارے راندہ درگاہ حضرات تھے۔ ہم نے سوچا کہ اب پاکستان میں ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔ یہاں بھی قانون کی بالادستی ہوگی، جمہور کی حکمرانی ہوگی، پارلیمان افضل ہوگی، ادارے مضبوط ہوں گے، ریاست ہوگی ماں کے جیسی اور جبر کے دن بالآخر ایک پر سکون شام دیکھیں گے۔

اللہ پاک کا حکم ہے کہ خوش گمانی رکھنی چاہئے۔ ہم ویسے ہی کچھ زیادہ خوش گمان ہیں۔ اوپر سے پچھلے کچھ عرصے سے خوشیاں بھی کچھ زیادہ ملیں تو دل کو لگا جیسے وہ فیض کے \’فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم\’ دیکھنے والے \’کوئی اور\’ شاید ہم ہی ہیں۔ مثلاً جب وزیراعظم نے قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کا نام ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھنے کا اعلان فرمایا، یا سندھ حکومت نے جبری مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون لانے کا فیصلہ کیا تو ہمیں لگا کہ اب اس مملکت خداداد میں خدا رب العالمین ہوگا۔ مگر پچھلے چند دنوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ کم از کم ہمیں واپس زمین پر لانے کے لئے تو کافی ہے۔

ذرا پچھلے چند ہفتوں کے واقعات کا جائزہ لیں۔ جس دن وزیراعظم نے ڈاکٹر عبدالسلام کو یہ عزت بخشی، اس کے اگلے چند روز کے اندر چکوال میں ایک احمدی عبادت گاہ پر حملہ ہوا۔ اس کے بعد حکومتی امیدوار کو عبرتناک شکست دے کر حق نواز جھنگوی کے فرزند مسرور جھنگوی پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اور آج سندھ حکومت نے مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے قانون واپس لے لیا۔ سراج الحق نے سندھ کے وزیراعلیٰ کو فون کر کے شکریہ ادا کیا اور انہیں باور کروایا کہ ’’پاکستان میں ویسے بھی اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں‘‘۔

اسی دوران ایک خوفناک صورت حال جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ معروف شاعر اور فاطمہ جناح یونیورسٹی کے پروفیسر سلمان حیدر مع چند مزید سوشل میڈیا لکھاریوں کے غائب ہیں۔ تاحال ان لوگوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔ آخری اطلاعات آنے تک سلمان حیدر صاحب کی بیگم کو موبائل پر ایک پیغام موصول ہوا تھا کہ ان کی گاڑی ایک جگہ کھڑی ہے جہاں سے وہ لے جائی جا سکتی ہے۔ سلمان حیدر کہاں ہیں، کوئی نہیں جانتا۔ خوش گمانی برقرار ہے کہ وہ خیریت سے ہوں گے لیکن بدگمانی بھی آہستہ آہستہ سر اٹھاتی جا رہی ہے۔

میرے دل کو یقین ہے کہ سلمان حیدر خیریت سے ہوں گے۔ مگر ڈر دراصل اس بات کا ہے کہ کہیں یہ سب ایک بہت خوفناک کھیل کی شروعات کا اشارہ نہ ہو۔ انگریزی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ There’s a method in this madness۔  پچھلے کچھ عرصے میں لئے جانے والے وہ تمام فیصلے جنہیں کسی نہ کسی صورت میں روشن خیال کہا جا سکتا ہے وہ یا تو واپس لئے گئے ہیں یا پھر ان کا جواب ان سے کہیں زیادہ خوفناک آیا ہے۔ مثال کے طور پر چکوال کا واقعہ ہمارے سامنے موجود ہے۔

لیکن سیکولر بلاگرز کے غائب ہونے کا سلسلہ اس میں سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ اگر ایسا کسی پالیسی کے تحت ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صاف صاف آزادی اظہار پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ فی الحال یہ واضح نہیں کہ ان حضرات کو غائب کس نے کیا ہے لیکن جس طرح یہ لوگ اٹھائے گئے ہیں، یہ کسی مذہبی یا فرقہ پرست تنظیم کا کام لگتا نہیں۔ یہ بھی کسی حد تک تسلی کا باعث ہے۔ کیونکہ مذہبی تنظیمیں تو عام طور پر لاش ہی واپس بھیجتی ہیں۔ لیکن سوال وہی ہے کہ کیا ایک مرتبہ پھر ہم تاریک سرنگ کی طرف واپس جا رہے ہیں؟

میری دعا ہے کہ میرے خدشات غلط ثابت ہوں۔ خالد احمد اپنی کتاب Sectarian War  میں لکھتے ہیں کہ 1984 تک جنرل ضیاء کا خیال تھا کہ ایران میں انقلاب کے باوجود ہمارا ہمسایہ ہمارے ساتھ تعلقات پہلے ہی کی طرح رکھے گا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ ضیا صاحب کی ایک دن خمینی سے ملاقات ہوئی جس میں خمینی نے جنرل صاحب کی خوش فہمی دور فرما دی۔ اس کے بعد سب تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ افغانستان میں عرب جنگجو بہت تیزی سے جہاد کا حصّہ بننے لگے اور اچانک اللہ نے پشاور کی سرزمین ان پر کشادہ فرما دی۔ ہندوستان سے لے کر اردن اور مصر تک جگہ جگہ سے اہل تشیع کے خلاف فتوؤں کی بھرمار ہو گئی، جھنگ میں سپاہ صحابہ بن گئی اور پشاور میں القاعدہ۔ پھر جو کچھ ہوا وہ ہم ابھی تک ہر روز اخباروں میں پڑھتے ہیں۔

یمن میں جاری جنگ، بھارت کا ایران میں چاہ بہار کی بندرگاہ پر بےپناہ پیسہ خرچ کرنا، ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر کلبھوشن یادیو کا سامنے آنا، پاکستان کا طالبان کی خاطر امریکا سے سامنے کی لڑائی لینا، اور پچھلے ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں سامنے آنے والے وہ تمام واقعات جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے، ان سب کو ذرا اس تناظر میں دیکھیں کہ راحیل شریف جو چند ہفتے قبل پاکستان کے سپہ سالار تھے اب سعودی عرب کے مبینہ طور پر ایران کے خلاف بنائے گئے انتالیس ملکی فوجی اتحاد کے سربراہ ہیں۔

بس یہی وجہ ہے کہ دل میں وسوسے پیدا ہو رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments