غائب بلاگرز، ہیلی کاپٹر اور سیون اپ کا ٹِن!


\"\"سنہ 2011 میں، سُپر مارکیٹ، اسلام آباد کے قریب، اک بائیکر نے غلط سمت سے مجھے اوورٹیک کرتے ہوئے میری لیززدہ گاڑی کا اگلا بمپر چھیل دیا۔ میں نے اسے غصے میں دو تین ہارن دئیے تو وہ بہت سٹائل سے بائیک کو موڑتا ہوا میری جانب واپس آیا۔ میں بھی گاڑی سے نیچے اترا اور اپنے آپ کو ان صاحب کے ساتھ کسی ممکنہ ہاتھا پائی کے لیے ذہنی و جسمانی طور پر تیار کر لیا۔ وہ میرے قریب آئے، بائیک سے اترے تو دیکھا کہ وہ میری نسبت، صحت اور قد کے معاملہ میں کافی خسارے میں تھے۔ میں ان پر چند سیکنڈز میں جسمانی غلبہ پا سکتا تھا۔ خیر، باتوں باتوں میں، کہ جو ہمارے ہاں جھگڑے سے پہلے کا خاصہ ہے، میرے مونہہ سے شاید یہ نکل گیا کہ کچھ خیال کیا کرو، تم نہیں جانتے کہ لوگ کون اور کیا ہو سکتے ہیں؟ تو ان کا جواب بہت مزیدار تھا: کہ تم کون ہو، تم کوئی ہیلی کاپٹر ہو؟ یہ ساری گفتگو، پنجابی میں تصور کیجیے تو لطف دوبالا ہو جائے گا۔ ان کے مونہہ سے یہ سن کر میری بےاختیار ہنسی چھوٹ گئی، میں نے ان سے معذرت کی، گاڑی میں بیٹھا اور ان کی فاتحانہ چال کو انجوائے کرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

پھر کوئی دو سال بعد، 2013 میں مجھے ڈائیوو اڈہ، راولپنڈی سے اپنے کسی رشتہ دار کو وصول کرنا تھا۔ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ رشتہ داران \”صرف\” ڈیڑھ گھنٹہ بعد والی بس سے روانہ ہوئے ہیں۔ مزاج کو گویا اک بلڈوزر روند کر چلا گیا۔ پارکنگ میں جگہ بھی نہ تھی تو اپنے تئیں اک درست جگہ پر گاڑی کھڑی کی تو اک نوجوان ٹریفک وارڈن صاحب نے کچھ سرزنش کی تو میں نے اپنے تئیں غصہ میں ہاتھ میں پکڑا ہوا سیون اپ کا ٹِن زور سے زمین پر مارتے ہوئے کہا کہ کرنا ہے جو کرلو۔ انہوں نے اک بار پھر نرمگی سے کہا، میں نہ ہٹا تو انہوں نے وائرلیس کیا تو ان کے اک سینئر انسپیکٹر ساتھ میں دو ٹریفک وارڈنز اور لے آئے۔ معاملہ کی \”نزاکت\” کو جانتے ہوئے، میں نے آس پاس تین چار بااثر دوستوں کو کالز کیں، مگر کوئی مناسب بات نہ بن سکی۔ مگر وہ انسپیکٹر صاحب، مہذب آدمی تھے تو انہوں نے قانون اور جگہ کی مناسبت کے حوالہ سے بات ثابت کی۔ اور میں نے ان سے اور اس نوجوان ٹریفک وارڈن سے معذرت کرتے ہوئے گاڑی ہٹا لی۔ اور بعد میں اتر کر اصرار کر کے ان سب کی سیون اپ کے ساتھ ہی خدمت کی۔

دو تین دنوں سے چند اک مشہور بلاگرز کے اٹھائے جانے کا تذکرہ بہت زوروشور سے جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے سمیت، کسی کو بھی اصل واقعہ کا علم نہیں۔ علم انہی کو ہے صرف جن کے ساتھ یہ بیتا، یا جنہوں نے یہ کیا۔ بحیثیت اک سیاسی شہری، میں کسی بھی دوسرے شہری کے ساتھ ایسے سلوک کی حمایت نہیں کر سکتا، مگر اس کے ساتھ ساتھ آزادی رائے کے نام پر مسلسل لعن طعن اور تضحیک کو \”جمہوری و شعوری تنقید\” کا نام دیتے ہوئے کہے اور لکھے جانے والی باتوں کی بھی حمایت کرنے سے قاصر ہوں۔ قانون کی رو سے ریاستی اہلکار بھلے ایسی حرکت کر سکتے ہوں، گو کہ اک بار پھر کہتا ہوں کہ میں ایسی کسی بھی \”حرکت\” کے حق میں نہیں، اور یہ حرکت تین چار قوانین ملا کر ہی کی جاتی ہے، تو میرے خیال میں ایسی صورت حال میں معاملہ فہمی کی ضرورت ہے۔ اور ریاست کے ساتھ معاملہ سازی و فہمی، اپنی لیز زدہ گاڑی سے نکل کر اک جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے سیون اپ کا ٹِن زمین پر مارتے ہوئے نہیں کی جا سکتی۔ جب کہ اپنا اپنا مؤقف اپنائے، اک عجب سے خوابناک دھندلکے جیسے رومانوی رویہ کے ساتھ، درجنوں دوستوں اور ساتھیوں کو جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے، اپنے اپنے سیون اپ کے ٹِنز زمین پر مسلسل مارتے دیکھ رہا ہوں۔

اٹھائے جانے والے تمام صاحبان، زندہ انسان ہیں۔ ان کے خاندان ہیں۔ بچے ہیں، والدین ہیں۔ دوست ہیں، ساتھی ہیں۔ ان کے غائب ہو جانے پر انتہا کے رویے اپنا کر آپ ان کی اور ان سے جڑے لوگوں کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ آپ اپنی رومانویت کے خوابناکی دھندلکے میں اک جذباتی سٹیٹس لکھ اور ٹوِیٹ کر کے خود کو بری الذمہ کر رہے ہیں، جب کہ چند ایک اصل کام کیا ہیں، میں بتاتا ہوں، بسم اللہ کیجیے جناب:

– سپریم کورٹ میں ان کے غائب ہونے کو چیلنج کریں۔

– قانونی ماہرین کی اک ٹیم تشکیل دے کر پاکستان میں موجودہ قوانین کا اک تجزیہ کروا کر، ان قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں۔

۔ آپ چونکہ اہم لوگ ہیں، کسی سینیٹر یا ممبر قومی اسمبلی کے ذریعہ، سینیٹ یا قومی اسمبلی میں قراردار پیش کروائیں۔

– غائب ہونے والے صاحبان کے خاندانوں تک پہنچیں، اور اگر وہ آپ کی مدد کے خواہاں ہوں تو ان کے ساتھ مل کر اک مشترکہ حکمت عملی تشکیل دیں اور پھر اس پر عمل بھی کریں۔

– اگر ان کے خاندان آپ کی مدد کے خواہاں نہ ہوں، جو کہ میرے خیال میں وہ نہ ہوں گے، تو آپ گاجر کا حلوہ کھائیں اور ساتھ میں چائے شائے پی کر کسی اگلے موضوع پر سٹیٹس اپ ڈیٹ، اور ٹویٹ کریں۔

– اور سب سے اہم یہ کہ کھپ ڈالنے اور اپنی آواز بلند کرنے میں فرق کو جانتے ہوئے، اپنے اک دائروی ردعمل سے نکل آئیں۔

اگر آپ کو میری کوئی بات بری لگی ہو تو، صاحبان من، آپ کے ہی بنائے ہوئے اصول کے مطابق، آپ کو میری باتوں پر برا منانے کا کوئی حق حاصل نہیں، کیونکہ اگر لعن طعن و تضحیک آزادی رائے ہے تو بقول شخصے، میرے یہ چند الفاظ بھی تو \”جمہوری اور شعوری تنقید\” کے دائرے میں آ سکتے ہیں۔

اور اگر نہیں، تو آپ ہیلی کاپٹر بنتے ہوئے اپنا اپنا سیون اپ کا ٹِن، زمین پر مار کر مسلسل کھڑکانے میں مکمل آزاد ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments