بلاگرز کی جبری گمشدگیاں اور ہم


\"\"میں ایک سیاسی کارکن ہوں۔ میں اپنے معاملاتی فہم کے مطابق سیاسی حالات کا تجزیہ کرتی ہوں۔ میرے تجزیے کا ہدف بننے والی طاقت میری آواز کو دبانے کے لئے اپنے آزمودہ حربے استعمال میں لاتی ہے۔ پہلے دھمکیوں اور ریکی وغیرہ جیسے ہلکے پھلکے ہتھیاروں کا سہارا لیتی ہے۔ اگر میں دب جاٶں اور خاموشی اختیار کر لوں تو ٹھیک، ورنہ میرا مقدر جعلی مقدمے، سینے میں گولی ہے یا پھر جبری گمشدگی سے کم تو ہرگز نہیں۔

یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ میری تنقید، خواہ جائز ہو یا ناجائز، سب سے زیادہ جس کسی بھی طاقت کے مفادات کو نشانہ بنا رہی ہے، وہی طاقت میری زندگی اور آزادی اظہار خیال میں سب سے بڑی رکاوٹ بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔ میری جان اور حفاظت کو اسی سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ کسی بھی گمشدہ ہونے والے شخص کی گمشدگی کے ذمہ داران کا اندازہ لگانا ہو تو اس گمشدہ شخص کی تنقید کے محور پر پہلا شک جانا یقیناً ایک فطری عمل ہے۔

اس فطری عمل سے قطع نظر، سوال یہاں یہ ہے کہ کیا آوازوں کو دبانے کے مقصد میں کامیابی ممکن ہے؟ میرے والد صاحب اکثر ضیاالحق کی جابرانہ آمریت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح ریاست اپنے معیار پر پوری نہ اترنے والی خبروں کو سنسر کیا کرتی تھی اور اگلے روز صفحہ پر اس خبر کے کالم خالی چھپتے۔ یعنی کہ بادشاہ لوگ کوئی عار بھی محسوس نہ کرتے تھے اپنے ان افعال پر بلکہ دھڑلے سے اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ معذرت کے ساتھ آج بھی ہمارے اخباروں میں اس قسم کی سینسرشپ ہوتی ہے۔ فرق محض یہ ہوتا ہے کہ مرد مومن کے دور میں یہ کام کرنے کے لیئے کوئی اہل کار متعین ہوتا تھا، آج ہمارے ہاں خود اخباروں کے عہدوں پر ایسے افراد براجمان ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ آج کے دور میں عوام کی خبروں تک رسائی کو سوشل میڈیا کی وجہ سے غیرممکن نہیں بنا سکتے۔ اخبار میں چھپے نہ چھپے، بلوچستان کے حالات سے ہم سب سوشل میڈیا کے ذریعے واقف رہتے ہیں۔ آج کے دور میں اس قسم کی سنسرشپ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ یہ بہرحال مخصوص طاقتوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آوازوں کو دبانے کے لئے جبری گمشدگیوں جیسے ہتھکنڈوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہمیں دراصل کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو کالعدم دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کراچی پریس کلب کے سامنے اپنی کالعدم جماعت کے کارکنان کو جمع کر کے تقریر کرتے ہیں۔ اگلے ہی دن ناظم آباد کے علاقے میں پینتیس سالہ ذوالفقار حسین، جو آسٹریلیا سے اپنے بھائی کی شادی میں شرکت کرنے کراچی آئے تھے، فرقہ وارانہ حملے میں قتل کر دیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب کامریڈ مومن خان مومن اور پروفیسر حسن ظفر عارف پر بےبنیاد مقدمات چلائے جاتے ہیں۔ جس سیاسی تنظیم میں ان دونوں نے شمولیت اختیار کی، اس کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر قدغن جب کہ اس کے دفاتر کو مسمار کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ بلوچستان کے لاتعداد پروگریسو طالب علم رہنماؤں کو بھی جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اب سلمان حیدر، عاصم سعید اور وقاص گورایا پر ہاتھ ڈال کر عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سچ لکھنا جرم ہے۔ لہٰذا یا تو آپ سچ لکھنا چھوڑ دیجئے اور بادشاہ لوگوں کی ہاں میں ہاں ملایئے ورنہ انجام کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے۔ یہی وہ گھڑی ہے جب ہم سب کو اپنا اپنا فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہمیں ظلم اور جبر کے آگے جھکنا ہے یا پھر عوام کے اور اپنے حقوق کی جد و جہد کو جاری رکھنا ہے۔

اگر آپ اپنی حفاظت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں تو آج سے کمزور کے استحصال پر کوئی بات کرنا تو دور، سوچئے گا بھی نہیں۔ فوراً توبہ کیجئے اور اس قسم کی خرافات سے خود کو بچائیے۔ اور یہ کہنے یا بتانے کی کسی کو بھی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے کہ آج سے ریاستی بیانیہ آپ کا کعبہ اور قبلہ ہے۔ مذہبی منافرت اور مذہبی اقلیتوں کے استحصال کا باقاعدہ حصہ بننے کو اپنا فریضہ سمجھیئے اور اپنی اولاد کو بھی اس کی ترغیب دیجیئے۔ اور اگر خدانخواستہ آپ کے گھر میں کارل مارکس کی کتابیں ہوں تو ان کو اکھٹا کر دوستوں کو دعوت دیجیئے اور ان کتابوں کا بون فائر جلایئے۔ غرض یہ کہ ہر قسم کے پروگریسو پروپیگنڈے سے دور رہیئے اور اپنی حفاظت کو یقینی بنایئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments