ہم سب کا سیارہ


آ ج سے ہزاروں سال پہلے مریخ اورسیارہ زہرہ سے کچھ لوگ  زمین پر آئے اورایک الگ دنیا بسا لی۔ لاکھوں کروڑوں میل دور سے آئے یہ مہم جو اس نئے سیارے پر ایک ساتھ رہنے لگے۔ کہنے کو یہ نووارداپنے اپنے سیارے پھر کبھی واپس نہ جانے کے لئے پیچھے چھوڑ آئے تھے لیکن بقول جون گرے یہ لوگ جو عادات و خصائل ساتھ لائے تھے ان سے کبھی جان نہ چھڑا پائے۔ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود کئی نوری سالوں کے فاصلے اپنے دلوں اور دماغوں میں کم نہ کر پائے۔ ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے کے باوجود مریخ اور زہرہ کی روایتی لڑائی کے بغیر رہ نہیں پاتے ہیں۔ لڑائی اگر زبانی کلامی نہ بھی ہو تو ایک دوسرے کو دل ہی دل میں جی بھر کر کوسےو دیے بغیر انھیں کھانا ہضم نہ ہوتا ۔ آپس میں صلح بھی ہو جاۓ تو باقی دنیا والوں کے ساتھ زن، زر، زمین کی لڑائی تو یہاں کی نہ ختم ہونے والی ریت ہے۔

یہاں رہنے والوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس گولے پر پیٹ نام کاجہنم بھرے بغیر چین نہیں آتا۔ اس جہنم کو زیادہ بھرنے سے فشارِ خون مار دیتا ہےاور کم بھرنے سے قلت خون ۔ یہاں پیدائش ہو یا مرگ، شادی ہو یا ماتم اپنے علاوہ دوسروں کے پیٹ کا جہنم بھرے بغیر معاملہ آگے بڑھ کے نہیں دیتا۔ گھٹی سے لیکر نگلتی اگلتی دوائی کے آخری گھونٹ تک یہاں زندگی ایک سے دوسرے نوالے تک کی کہانی ہے۔ کھا کر ہی بیمار تو کھا کر ہی علاج۔ کھانا ہی ثواب اور کھانا ہی گناہ۔

دنیا کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر شب و روز خیالی جہازوں کے سفر پر رہنے والے چند عظیم خلا بازوں نےپچھلے سال ایک نیا سیارہ دریافت کیا اس کا نام \”ہم سب\” رکھ دیا اور اس میں سب کو آ بسنے کی دعوت عام دی۔ اس سیارے پر جانے کے لئے (خلائی نہیں ) خیالی جہاز کے وجاہت مسعود نام کے پائلٹ نے سب سے پہلے خلا نوردوں کے لئے قواعد و ضوابط کا علان کیا جس میں دنیا سے ہر قسم کے تعلق کو ختم کرنا سر فہرست رہا۔ ایک ہی سال میں اس نئے سیارے میں مکینوں کی تعداد اب ساڑھے سات سو سے تجاوز کر گئی ہے جس میں شب و روز اضافہ ہو رہا ہے۔ آخری خبریں آنے تک اس نئے گولےمیں بسنے کے خواہشمندوں کی لمبی قطار بندھی ہوئی ہے جس میں ہر عمر اور جنس کے لوگ شامل ہیں۔

ہم سب کے گولے پر صبح کا آغاز دنیا میں بسنے والوں کی صبح کی طرح شمال، جنوب، مشرق اور مغرب سے آنے والی ہر طرح کی خبروں سے نہیں ہوتا بلکہ اپنے مطلب اور فکری ضروریات کے مطابق چند ایک شہ سر خابں ہی کافی ہوتی ہیں چاہے کچھ بھی ہو تا رہے یہاں خبریں صرف چاۓ کی پیالی میں فکری اور نظریاتی طوفان بپا کرنے والے کسی واقعے کے رونما ہونے پر ہی بدل دی جاتی ہیں۔  دوسری خبر کے نمودار ہونے تک پچھلی خبر کے ڈھول کو پیٹ پیٹ کر پھاڑ دیا جاتا ہے۔

اس گولے پر آباد کاری مختلف کوچوں اور گوشوں میں کی گئی ہے۔ کالم اور بلاگ کے کوچے میں ہر وقت میلے کا سماں رہتا ہے۔ نئے اور پرانے لکھاری اپنے ہاتھوں میں رنگ برنگی تحریریں لئے ہر وقت گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی گاڑھی اُردو لکھتا ہے تو کوئی پتلی اور کئی ایک تو یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ اب تک ہم سب جو پڑھتے رہے ہیں وہ دراصل اردو نثر تھی ہی نہیں کیونکہ وہ پیدا نہیں ہوۓ تھےجو دراصل نثر کے خالق ہیں۔ یہاں الفاظ جوڑنے اور خیالات نچوڑنے کے جا بہ جا چھوٹے بڑے کارخانے لگے ہوۓ ہیں جہاں کاریگر شب و روز کام میں لگے ہوۓ ہیں۔ کچھ مال یہاں بڑے کاخانوں سے بھی لایا جاتا ہے تاکہ منڈی کی مانگ پوری ہو اور گاہے بگاہے ایک روسی خاتون بھی اپنا شستہ اردو میں لکھے برآمدی احوال کا بیوپار بھی کرتی ہیں۔ یہاں’ کاکڑی‘ ترجماتی کڑاھی کے علاوہ، فرنودی لغت چاٹ، جمشیدی مغز فرائی ، پشور کے وصی بابا کا کابلی اور لیئل پوری مکس پلاؤ، اور حال ہی میں منڈی میں آئے چلغوزوں سے خواتین کے ہاتھوں بنے انواع قسم کے پکوانوں سے مکین محظوظ ہو رہے ہیں۔ آخری اطلا عات کے مطابق عدنان کاکڑ نے بوتلوں کا ایک ٹھیلہ لگانے کی بھی کوشش کی ہے جس میں وہ ازراہ مذاق مشروب مشرق کی آڑ میں ولایتی بیچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہاں سے مال مقبول ترین گلی سے منتخب ہوکر شیشہ گھر پہنچتا ہے تو مال شہرت کی بلندیوں کو چھو کر امر ہو جاتا ہے۔

گوشہ ادب کے نثر والے نکڑ پر کچھ بزرگ اپنے شہ پارے سجاۓ نظر آتے ہیں جن کا خیال ہے کہ جب انھوں نے لکھا تھا تو نظر کا چشمہ ایجاد نہیں ہوا تھا اور بہت سے لوگ ان کو پڑھنے سے محروم رہ گئے تھے ۔ ان کو گلہ یہ بھی ہے کہ آج کل کے دور میں نوجوان ماہ رخوں کے قصیدے قرطاس ابیض میں نہیں پڑھتے بلکہ چہروں کی کتاب میں ماہ جبینوں کو ڈھونڈ تے رہتے ہیں۔ امام بخشی نے اپنے کمال مطالعہ کے راز افشا کرتے ہوۓ یہ سمجھانے کی بھر پور کوشش کی کہ فیس بک کے علاوہ کتابوں کو کیسے پڑھا جاتا ہے لیکن اطلاعات ہیں کہ اس تحریر کے باوجودفیس بک کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

گوشہ ادب کے ایک کونے میں نظم کا کوچہ بھی ہے جو بلی ماراں کا محلہ زیادہ لگتا ہے جہاں کے مکین اب نظام الدین کے دربار کے پاس رہتے ہیں۔ اس گوشے میں آکر تو لگتا ہے کہ اردو نظم کا عجائب گھر بنانے کا جو خیال وجاہت مسعود کو کالج کے دنوں میں لاہور کے ریلوے عجائب گھر کو دیکھ کر آیا ہوگا، اُسی کی تکمیل ہے۔ جس طرح قبروں کے کتبے مکین کا پتہ بتاتے ہیں اس طرح یہاں لگی تصویریں دیکھ کر یہ پتہ چلتا ہے شاعر زمین کے باہر ہے یا اندر۔ بے رنگ تصویروں والے شعراء سارے ہی پیوست خاک ہیں، شومئی قسمت کہ یہاں زیادہ تر تصویریں بے رنگ ہیں۔

شاید گوشہ ادب کے ماضی کے مزار نظر آنے کا شک اس کے معماروں کو بھی ہوا تھا اس لئے ادب جدید کا ایک گوشہ بنا کر اس میں اپنے آپ کو کالم نویس اور بلاگر کہلانے سے احتراز کرنے والوں کے لئے ایک بازار بھی سجایا گیا۔ گوشہ ادب، جدید ادب ، کالم اور بلاگ کے کوچے سواۓ تصاویر کے زیا دہ ایک دوسرے سے مختلف نہیں۔ بعض خود ساختہ نقادوں کا خیال ہےکہ جدید ادب کے کوچہ میں لفظ جدید کے علاوہ کچھ جدید نہیں۔ ہاں یہاں ایک کوچہ میری پسند کا بھی ہے جو تاحال کسی کو پسند نہ آسکا۔

اس گولے پر پہنچنے والے لوگوں کےلئے اس سیارے پر ایک گلی انٹرٹینمنٹ کی بھی ہے جہاں کبھی کبھار فصاحت و بلاغت کے طبلوں کی آوازیں آتی ہیں تو کبھی خیالی ستار کے تاروں کو چھیڑ کر مکینوں کے دل بہلاۓ نہیں تو دہلاۓ ضرور جاتے ہیں۔ یہاں کے سب سے بڑے استاد محمد شہزاد کا خیال ہے کہ اصل طبلہ نوازی اس پر پڑنے والے ہاتھوں اور انگلیوں پر تبصرہ ہی ہے جو صرف ایک اتائی یا کن رس ہی کرسکتا ہے جو ایک ان پڑھ میراثی کی بس کی بات نہیں ۔ یہ میراثی تو ٹھمری ، دادرے، کجری، ہوری ، چیٹھی میں فرق بھی نہیں جانتے  ہیں اور اپنے تئیں اُستاد سمجھ کر طبلے کو پیٹ پیٹ کر اپنے ہاتھوں اور طبلے دونوں پر ظلم ہی کرتے ہیں۔

ایک کونے میں سناٹا چھایا ہوا ہے یہ گوشہ خواتین کہلاتا ہےجہاں جو بریانی اور قورمے کی دیگچیاں چولھے پر مہینوں سے چڑھی ہوئی ہیں ان کے ڈھکن کھول کر کوئی جھانکتا بھی نہیں۔ یہاں آنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ دنیا کی طرح یہاں وہ معاشرے سے کٹ کر رہنا ہر گز پسند نہیں کریں گی اور نہ ہی باورچی خانے میں جھلسنا ۔ اس گوشے کے ایک کونے میں پڑی میز پر سرخی پاؤڈر اور چند گھریلو ٹوٹکے جلد کی رنگت کے واسطے رکھے گئے ہیں ان کی طرف بھی کسی خاتون نے دھیان نہیں دیا۔ منتظمین کا کہنا یہ ہے کہ گوشہ خواتین جن خواتین کے لئے بنایا گیا وہ ابھی تک ان کو ڈھونڈ رہے ہیں۔

جب کوئی کہیں نہیں سماتا ہے تو اس کو علم و فن کا دروازہ دکھایا جاتا ہے جس کے اندر تحقیق و جستجو ، مذہب و معاشرت اور فیچرز کے کوچے بھی ہیں۔ چند لوگ جن کو آپ نے پہلے بھی کسی نہ کسی کوچے میں کچھ اور بیچتے دیکھا ہوگا وہ یہاں بھی ملیں تو آپ پریشان نہ ہوں وہ یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے ہیں۔

میرے مطابق دنیا کے جھمیلوں سے دور ہم سب کے گولے پر بسنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا و مافیہا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان ہی کے دم خم سے ہے۔ جتنی پالیسیاں اور قوانیں دنیا کو چلانے کے لئے بنائے جاتے ہیں وہ سب ہم سب کے کالموں اور اداریوں کی مرہون منت ہیں ۔ دنیا کو چلانے کے لئے منڈیوں کی نہیں ایک بیانیئے کی ضرورت ہے جو ہم سب کا خاصا ہے۔ دنیا میں لڑی جانے والی زن، زر اور زمین کی لڑائی کے برعکس یہاں الفاظ کی جنگ جاری ہے ۔ یہاں الفاظ ہی روح کی غذا ہیں اور ان کی ترتیب ہی سلیقئہ زندگی۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments