آخر جاگنے میں جلدی کیوں کریں؟


\"\" سبزی منڈی کے بیوپاری، اینگزائٹی کے مریض، جھلنگا چارپائی میں سونے والے اور عقائد کے احترام میں جاگنے والوں کے علاوہ اگر صبح تڑکے کوئی جاگ جائے تو جان لیجیے کہ یا بدہضمی کا شکار ہے ورنہ پھر نو بجے پرچہ دینے والا طالب علم ہے۔

اتنی صبح جاگنے کے بہت سے فائدے یار لوگوں نے لکھے ہیں، صفحے کے صفحے کالے کر دئیے لیکن وہ سب بھی مر گئے۔ اور کئی تو باقاعدہ ایسے ہی مرے جیسے دیر سے جاگنے والے مرتے ہیں۔ بھئی جب مرنا ہی مقدر ہے تو صبح سکون سے کیوں نہ اٹھا جائے۔ نہ آپ پرندے ہیں کہ گھونسلے میں سے روشنی آپ کی آنکھوں میں لازمی آئے گی۔ نہ آپ مرغ ٹھہرے کہ بانگ دینے کا سافٹ وئیر آپ کے اندر ہو۔ نہ کوئی شیر چیتے کہ صبح صبح کوئی اور اٹھا ہوا مظلوم جانور پھڑکا کر بچوں کا پیٹ بھرنا ہو۔ نہ کوئی سپر نیچرل لیڈر کہ جن کے بارے میں لوگ پچاس سال بعد بھی کہتے پھریں کہ صاحب چاہے تین بجے رات ٹن ہو کر سوئے ہوں، صبح آٹھ بجے دفتر میں ہوتے تھے۔ نہ آپ مچھلی ہیں کہ جس کے تیرنے کو آب رواں بنا ہو اور جو ہر وقت بہتے پانیوں میں نہ سونے پر مجبور ہو۔ جب ایسا کچھ نہیں تو اتنی صبح اٹھنے کا فائدہ سمجھ سے باہر ہے۔

جس دن غلطی سے یا کسی ٹیکنکل مجبوری کے سبب صبح سویرے آنکھ کھل جائے یقین جانیے دن بہت منحوس گزرتا ہے۔ بار بار نیند آئے \"\"گی۔ ناشتے کے بعد تو شدید جھونکے محسوس ہوں گے۔ دو گھنٹے بعد جھونکوں پر قابو پائیے گا تو پھر سے بھوک لگ چکی ہو گی۔ سگریٹ بھی اس دن زیادہ پیے جائیں گے کہ صبح جلدی ہو گئی، یاد رہے کہ ایک سگریٹ پانچ دس منٹ کی زندگی باقاعدہ کم کرتا ہے۔ گڈ مارننگ کے میسج تو باقاعدہ ذاتی دل آزاری کا سامان لگیں گے۔ طرح طرح کے ٹھیلے والوں کی بے سری آوازیں آئیں گی، حالاں کہ وہی آوازیں دوپہر ایک بجے کے بعد بھلی محسوس ہوتی ہیں۔ غلطی سے باہر نکل پڑے تو سکول جانے والے بچوں کے رش میں پھنس کر سڑک کو اتنا ہی بے کیف پائیں گے جتنا دس یا ساڑھے دس بجے محسوس کرتے ہیں۔ اچانک یاد آئے گا کہ یار ایک کپ چائے پی جائے، کیوں کہ وہ صبح اٹھنے کی ٹینشن میں آپ بھول چکے ہیں۔ چائے والے کھوکھے پر جائیں گے تو وہ ابھی بند ہو گا۔ وہ چائے والا ہے! صبح تڑکے تو پرندوں کا دانہ بیچنے والے بھی دکانیں نہیں کھولتے۔

دوپہر ہونے کا احساس ایک بجے سے شروع ہو جائے گا۔ وہی دوپہر جو پہلے ڈھائی تین بجے ہوتی تھی اب سوا بجے سر پہ کھڑی ناچ رہی ہو گی۔ جس وقت شام کے پانچ بجتے تھے اس وقت دو بجیں گے۔ الغرض ہم الٹے یار الٹا بات الٹی، سبھی کچھ اوندھا کر کے سویرے جاگنے کا شوق ایسا سیدھا ہو گا کہ سارے کس بل نکل جائیں گے۔\"\"

تین بجے سے بیٹھے بیٹھے باقاعدہ جمائیاں آنی شروع ہو جائیں گی، پانچ بجے تک وہ حال ہو گا جس کے بارے میں سودا کہہ گئے تھے کہ اس حال میں کسی کو دیکھنا فضول ہے۔ ایک مرتبہ پھر احساس ہو گا کہ معدہ خالی ہے۔ دماغ کہے گا غضب خدا کا ابھی دو گھنٹے پہلے کھانا ٹھونسا تھا، دل ہل من مزید کی صدائیں بلند کرے گا، پیٹ بے چارہ دونوں کی لڑائی میں رل جائے گا اور قصور آنکھ کا ہو گا، جو صبح صادق کھل جانے کی قصوروار تھی۔  سر بریدن لازم است آں مرغ بے ہنگام را۔۔۔

اس دریا کے پار اترئیے تو ایک اور دریا سامنے ہو گا۔ وہ رات جو روزانہ دو ڈھائی بجے ہوتی تھی وہ بھی ساڑھے نو بجے شروع ہو جائے گی۔ گھر جا کر کسی سے بات بھی نہیں کی اور جمائیاں آنی شروع ہو جائیں گی، نہ کچھ پڑھنے کے لائق رہے نہ کوئی فلم دیکھی بس سیدھے سبھاؤ بستر توڑنے کے لیے تیاری شروع کر دی۔

تو زندگی کا پورا چکر صبح جلدی اٹھنے کے چکر میں گھن چکر بن جائے گا اور اگلی صبح پچھلی صبح کی خواریاں یاد کر کے جاگنے والے دوبارہ رضائی سے منہ ڈھانپ لیں گے۔

اگلے زمانوں میں ایک بادشاہ ہوتا تھا، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، وہ بادشاہ بہت نیک اور رحم دل تھا۔ عوام چوبیس گھنٹے اس کے نام کی مالا \"\"جپتے تھے۔ نیک کام کرنے میں ایسا شیر تھا کہ پل بناتا تھا، چاہ بناتا تھا، تالاب بنواتا تھا اور ہر وقت عوام کی بھلائی کے لیے بہت سے اسباب میں تن تنہا لگا رہتا تھا۔ عوام کا دستور ہے کہ وہ ناشکرے ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر فساد کرتے ہیں۔ انہیں پلوں، کنوؤں اور تالابوں کے بجائے سانس لینے کے لیے کھلی فضا چاہئیے ہوتی ہے۔ تو ایک دن ایسے ہی کسی فریادی کی شکایت سن کر بادشاہ بڑا اپ سیٹ تھا۔ بادشاہ نے اپنے درباری بزرگ کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ اے موجودہ زمانے کے ولی، مجھے کوئی ایسا نیک کام بتا کہ جو میں کر دوں تو مجھے بہت زیادہ ثواب ہو اور میں آخرت کو سرخ رو اٹھوں۔

بزرگ درباری تھے لیکن اپنے روزی حلال کرتے تھے۔ کہنے لگے تو سویا کر!

بادشاہ بہت حیران ہوا، کہنے لگا سوؤں کا تو ثواب کیسے کماؤں گا۔

بزرگ بولے، خدا تیرا تخت و تاج سلامت رکھے، تو دن اور رات ملا کر زیادہ سے زیادہ سویا کر۔ جتنی دیر تو سوئے گا عوام تیرے نیکی اور فلاح وبہبود والے کاموں سے بچے رہیں گے۔ اور یہ اپنے آپ میں سب سے بڑی نیکی ہو گی۔ تو بادشاہ اس دن کے بعد سے زیادہ تر سوتا رہا اور نیکیاں کماتا رہا۔ آخرت کا حال خدا جانے لیکن جب مرا تو اس کا جنازہ لاکھوں افراد پر مشتمل تھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ بخشا گیا۔

تو جو سوتا رہا بغیر کسی ولی کے مشورے کے، گویا یہ اس کے حق میں بہتر ہوا۔ بے شک بعض اوقات سونا، جاگتے رہنے سے کہیں زیادہ محفوظ اور عقل مندانہ آپشن ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments