دلیر بھوکا بھارتی فوجی اور نڈر دادا!


 ٹی وی خبروں میں بھارتی فوجی کی ویڈیو دیکھی جس میں وہ پیٹ بھر کر کھانا نہ ملنے کی شکایت کر رہا ہے۔ خبر کو دیکھ کر دادا کا سنایا ایک دلچسپ واقعہ یا د آ گیا۔ دادا  اور اس واقعہ کےچشم دید گواہ (گاؤں کے ہی دوسرے بزرگ)  ہنس ہنس کر روداد سناتے تھے۔ قصہ یہ تھا کہ دادا کہیں مدراس  کے آس پاس تعینات تھے۔ وہاں روزانہ چنے کی دال پکتی تھی۔ دادا کے بقول چنے کی دال سے میری ناپسندیدگی اپنی جگہ لیکن جو کچھ ہمیں ملتا تھا اس کو چنے کی دال کہنا ہر گز مناسب نہیں تھا۔ یوں سمجھئے کہ ایک پلیٹ میں نمک مرچ والے پانی کے ساتھ بھولے بھٹکے چند چنے کی دال کے دانے بھی آ نکلتے۔ داداکہتے تھے کہ انہوں نے وہاں بہت سے دوستوں کو کہا کہ جب  بڑا گورا افسر اس مہینے لنگر کے ماہانہ معائنے کے لیے آئے تو اس کو شکایت لگائی جائے لیکن کوئی بھی اس خطرے کو مول لینے کو تیار نہیں تھا۔ اس کا انجام یہ بھی ہو سکتا تھا کہ پانی والی دال تو ویسے ہی رہے لیکن مقامی افسر اور نیم افسر دشمن بن جائیں جس کے بعد زندگی مستقل عذاب ہو سکتی تھی۔ پٹھو لگ سکتے تھے ۔ وزن کے ساتھ آٹھ کے ہندسے پر گھومے جانا تکلیف دہ  تھا۔

 آخر دادا سب کی منت کر کے تھک ہار کر بیٹھ گئے۔

ایک ماہ کے بعد گورا افسر ٗ  جوانوں کے میس کا دورہ کرنے آیا۔ سب لوگ کھاناکھا رہے تھے ۔ لانگری مستعدی سے پلیٹیں پانی سے  بھر رہا تھا۔ اچانک گورے کی نگاہ ہمارے دادا جان پر پڑی ۔ گورا   حیرت سے رک گیا اور اس جوان کو دیکھنے لگا جو کھانا نہیں کھا رہا تھا بلکہ پلیٹ سامنے رکھ کر اس کے سامنے معافی مانند ہاتھ جوڑے سر جھکائے بیٹھا تھا۔

گورے نے کہا ،  جوان تم کھانا کیوں نہیں کھاٹا؟

دادا  اٹھے اور اٹھ کر بھی یونہی ہاتھ جوڑے کھڑے رہے۔

گورےنے گرج کر کہا، جوان کون ہو تم ، اپنا ٹعارف کراؤ؟ تم ہاتھ جوڑے کیوں کھڑاہے؟

دادا نے تاریخی جواب دیا،  ” صاحب میں  لانس نائیک شادی خان ولد محمد خان ولد لال خان  قوم اعوان سکنہ تلہ گنگ ہوں۔ صاحب میں جب اپنے علاقے سے بھرتی ہونے پیدل اٹک پہنچا تو  اس کا مقصد قوم کی خدمت نہیں تھی ۔ ہمیں کیا پتہ  جنگ یا جنگ کا مقصد کیا ہوتا ہے۔ ہمارے علاقے میں فوجی چھٹی آتے تھے تو بہت ساری کھانوں سے متعلقہ کہانیا ں سناتے تھے،  میں اپنے علاقے سے صرف اس مردود چنے کی دال سے تنگ تھا۔ میرا اٹک تک پیدل بھرتی کے لیے آنا اس دال سے فرار تھا ۔ پھر رنگروٹی کی صعوبتیں برداشت کیں کہ شاید اس کے بعد اس دال سے جان چھوٹ جائے۔ اب اس کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھا ہوا تھا کہ آخر مجھ غریب الوطن کا قصور کیا ہے؟”

Soldiers from the British Indian Army, France, c 1915. (Photo by The Print Collector)

میس میں خاموشی چھاگئی۔ ہر کوئی دل میں سوچ رہا تھا کہ اس تقریر کے دو ہی نتیجے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ سب کی دال سے جان چھوٹ جائے  جس کا امکان بہت کم ہے ۔ دوسرا یہ کہ شادی خان کو پٹھو لگ جائے گا جس کا امکان کہیں زیادہ ہے۔

آخر گورے نے ان دونوں امکانات سے کہیں ہٹ کر فیصلہ سنایا۔ گورے نے حکم دیا کہ کل سے شادی خان کے لیے افسر میس سے کھانا آئے گا اور لانگری کو کہا کہ اس جوان کو صبح چائے کے ساتھ خشک روٹی نہیں بلکہ پراٹھا بمع گھی دیا جائے۔

دادا فرماتے ہیں کہ  اس کے بعدجب دال کھاتے لوگ میری پلیٹ کو گھورتے تو میں اور بھی زیادہ مزے لے لے کر کھاتا کہ اس وقت جرات نہیں کی اور اب میری پلیٹ کو بھوکے ندیدوں کی طرح گھورتے ہو۔

اب لگے ہاتھوںایک واقعہ اور بھی یاد آ رہا ہے تو وہ بھی پڑھ لیجئے۔

دادا نے یہ قصہ سنایا۔ ہنس کر سنایا اور بہت خوش ہو کر سنایا۔

لانس نائک سے حوالدار ترقی کی جماعت ہو رہی تھی۔ ایک کپتان آ کر سبق دیا کرتا۔ مقصد کوئی علم دینا بانٹنا یا وصول کرنانہیں تھا بس ایک فارمیلٹی تھی جو پوری کرنا تھی۔

ایک دن اسی طرح کلاس ہو رہی تھی۔ کپتان نے ایک ایسی بات کر دی جس کو سن کر میں حیران رہ گیا۔ کپتان کہتا تھا کہ زمین گولے کی طرح گھومتا ہے ۔ اور سورج تین سو پینسٹھ دنوں میں اس کے گرد چکر لگاتا ہے ۔

ویسے تو سوال جواب ہوتا ہی نہیں تھا ۔ کپتان آتا پڑھا پڑھو کر چلا جاتا ۔ لیکن اس بات پر مجھے لگاجیسے وہ غلط کہہ رہا ہے اور آج بھی کہتا ہوں کہ غلط کہتا تھا لیکن اب اس کی بے وقوفی پر میں کیا کہوں۔ ہاں اس دن جماعت میں میں نے ہاتھ کھڑا کیا۔ کپتان نے حیرانگی سے اس غیر متوقع صورتحال کو دیکھا اور کہا ،  ہاں جوان کیا مسئلہ ہے؟

دادا فرماتے تھے کہ میں اٹھا اور کہا ،  صاحب ہم یہاں کلکتہ میں ہیں اور ادھر مغرب کی جانب   میرا علاقہ تلہ گنگ  ہے۔اگر آپ کی بات مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال بعد تلہ گنگ کو مشرق کی جانب آ جانا چاہیےاور مجھے ایک سال بعد چھٹی کے لیے تلہ گنگ جاناہو تو مغرب کے بجائے مشرق کی جانب جاؤں۔ لیکن صاحب میں تو ہر سال مغرب کی جانب ہی جاتا ہوں اور تلہ گنگ وہیں ہوتا ہے

یہ سن کر پوری جماعت نے قہقہہ لگایا۔ پوری جماعت نے میری تائید کی۔ کپتان کا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا۔

گرج کر خاموش کہا اور کہنے لگا،  جوان تم نے لانس نائیک سے حوالدار بننا ہے یا نہیں؟

دادا نے کہا ،  جی بننا ہے ۔

اگر حوالدا ر بننا ہے تو جو میں کہہ رہا ہوں اس کو سنو اور خبر دار جو آئندہ کوئی بولا۔

دادا فرماتے تھے ، یہ نکتہ مجھے بھی  فورا سوجھ گیا کہ کیا  بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زمین اور سورج کیا کر رہے ہیں یا  بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نائک سے حوالدار بننا ہے۔

اس کے بعد میں نے جماعت میں صرف بڑے مسئلے پر توجہ دی ۔۔۔اور کامیاب ہوا!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments