عدنان خان کاکڑ ۔۔ تیغ کج را نیام کج باشد


\"\" سدھارتھ اِس زمانے میں پیدا ہوتے، تو نروان پانے کے بعد عدنان خان کاکڑ کہلاتے۔ ایسا امن، ایسی شانتی جو اِن کے یہاں ہے، وہ چھہ برس کی تپسیا سے ماورا ہے۔ گوتم کا سکھ ان کی پرجا کو فلاح دے گیا، عدنان کا نروان انھی کو سکھ دے پایا ہے، کل جگ آپ سے بے زار ہے۔ آپ اردو آن لائن پیپر کے مذاق احمد یوسفی ہیں۔ اپنے تئیں مزاح لکھتے ہیں، خود ہی ہنستے ہیں، اور ستم یہ ہے، کہ وجاہت مسعود کو ہنسنے پر مجبور کرتے ہیں۔ (وجاہت مسعود نے پچھلے جنموں میں جتنے گناہ کیے تھے، ان سب کا انعام انھیں عدنان خان کی صورت ملا ہے۔ سو اس جنم میں وہ  گناہ کو ترس رہے ہیں) عدنان خان کاکڑ کا پسندیدہ میدان ”اختلاف“ ہے۔ بالفرض کوئی کہ دے، کوا سفید ہے؛ یہ ثابت کر کے رہیں گے، کوا سیاہ ہے۔ کوئی ایسا دعوا کرے کہ کوا سفید ہے، تو ایک دانا کو خاموشی سے اپنی راہ لینی چاہیے، لیکن یہ ایسا کریں تو عدنان خان کاکڑ ہی کیوں کہلائیں۔ یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے، کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے۔ ”جواب جاہلاں باشد خموشی۔“ عدنان خان اس کا مطلب یوں لیتے ہیں، کہ جاہل کے پاس جواب نہیں ہوتا، اس لیے وہ خاموش ہو جاتا ہے، سو یہ جواب دے کر اپنے جہل کا انکار کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے، عدنان خان کاکڑ اسی بات پر اڑ جائیں، کہ ”جواب جاہلاں خاموشی باشد“ کہنا صحیح ہے، اور اس کے مستند حوالے ہڑپہ کے کھنڈرات سے لے آئیں۔

شروع شروع میں موصوف ”عدنان خان“ ہوا کرتے تھے؛ یار بیلیوں نے ان کی حماقتیں دیکھتے مشورہ دیا، کہ ”خاں“ سے قارئیں کو غلط فہمی پیدا ہو سکتی، کہ آپ اعزازی ”خاں“ ہیں، ایسا نہ ہو وہ کہیں اسی غلط فہمی میں پڑے آپ کی تحریروں میں باریک نکتے تلاش کرنے \"\"لگیں، اس لیے ”کاکڑ“ کو اپنے نام کا حصہ بنائیں، تا کہ پڑھنے والے تحریر کو ”سردار“ کی حماقت سمجھ کر آگے بڑھ جائیں۔ ایک اسی بات سے ان کی ”ذہانت“ کا اندازہ کیجیے، انھوں نے مشورہ قبول کیا۔ یہ اس موضوع پر تین کتابیں لکھ سکتے ہیں، کہ ”کاکڑ“ میں ”الف“ نہیں ہے۔ اس بابت ہم ان سے بحث نہیں کرتے، لازمی نہیں ان کی ہر بات ہی غلط ہو۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں کہیں سے معلوم ہوا، سدھارتھ کو املی کے پیڑ تلے وہ روشنی ملی، جس سے ان کا د ل منور ہو گیا۔ انھیں پیڑ تو ملا نہیں، املی چاٹنے ہی پر اکتفا کیا۔ روشنائی میں کھٹاس بھر لکھتے ہیں، تحریر میں چاشنی نہیں، نہ آ سکتی ہے۔

کبھی کبھی گمان ہوتا ہے، یہ شاکیہ منی کے چیلے آنند ہیں، جو گوتم کے فرمان لکھنے پر مامور تھے، یہ ایسے ”آنند“ ہیں جنھیں بدھا کے جیون میں شانتی نہ ملی، تو شاکیہ منی کو چھوڑ دیا، اور شانتی ہی کے دشمن ہو گئے۔ چوں کہ گوتم نے شکار سے منع کیا تھا، تو باغی آنند شکار کھیلنے نکلا ہے۔ اِن کے ”شکار“ کون ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے، اور جواب اس سے زیادہ اہم۔ جیسے شیر کے شکار کے لیے ”ہانکا“ لگایا جاتا ہے، ایسے ہی عدنان خان کاکڑ ”ہانکا“ لگا کر اپنا دشمن تلاش کرتے ہیں۔ جو ان کی ہا ہا کار پر بھڑک اٹھے، بس اسی کو اپنا ”شکار“ بنا لیتے ہیں۔ ”ٹرولنگ“ کے لیے صبر و تحمل کی جتنی مقدار درکار ہے، یہ اس سے زرا زیادہ برداشت رکھتے ہیں۔ احوال یہ ہے کہ شیر اب ہیں نہیں، تو ان کا ”ہانکا“ لگانے کا شوق کئی گیدڑوں کو شیر کی موت دے گیا۔

عدنان خان کاکڑ کے لکھنے کا مقصد کیا ہے؟ ایک تو یہ کہ صفحے سیاہ کرسکیں، دوسرا یہ کہ جس سے مکالمہ ہو، اسے الجھا کر رکھ دیں۔ موضوعات کی ان کے یہاں کمی نہیں۔ ان کا کوئی ایک نظریہ نہیں‌ ہے۔ ہر اس نظریے کے مخالف بات کر سکتے ہیں، جس کے حق میں کوئی دوسرا بات کرے۔ انھیں شبہہ ہو، کہ مخالف ان کے پیش کردہ دلائل سے مطمئن ہونے لگا ہے، تو یہ مخالف کے نظریے کی حمایت میں دلائل لے آتے ہیں، اس طرح ان سے بحث کرنے والا الجھ کر رہ جاتا ہے، کہ کس دلیل کو درست مانیں۔ بس یہی ان کی زندگی کا منشا ہے۔ چوں کہ  زود نویس ہیں، اور زود نویس کے یہاں‌ کم زور تحریروں کا ملنا عام سی بات ہے۔ اس لیے انھیں ہمیشہ یہ چھوٹ حاصل رہے گی، کہ ان کی پھسپھسی تحریروں کی وجہ ان کی زود نویسی ہے۔ مزید امکان یہ ہے، کہ اس لیے بھی زیادہ لکھتے ہیں، کوئی یہ نہ کہ سکے، اتنا کم لکھتے ہو، اور وہ بھی کسی نہ کام کا! کوشش کر کے کوئی ان کی تحریروں کے انبار میں سے ایک بھی کام کی تحریر نکال لائے، جو نثر کی خوبیوں پر پوری اترتی ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ لیکن بعضے ان کی تحریروں کی تعریف اس لیے بھی کرتے ہیں، کہ اگر نہ کریں، تو یہ بھی اُن کو داد نہ دیں۔

بہتر تھا، کہ جہاں عدنان خان کاکڑ کی شخصیت پر روشنی ڈالی ہے، وہیں ان کی تحریر کا نمونہ پیش کرکے بتایا جاتا، کہ یہ کہنا کیا چاہتے ہیں، لیکن جیسا کہ بیان ہو چکا، ان کا کوئی ایک نظریہ یا کوئی اسلوب نہیں جس کی شناخت کی جا سکے، اس لیے آپ میرا کہا مان لیجیے، کہ ان کی ہر تحریر ”ایک نمونہ“ ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments