ایسی بھی کیا جلدی خان جی


\"\"

مجھے ریاستی نظام میں ان سب خرابیوں کے بارے میں اتفاق ہے جن کی نشاندہی عمران خان وغیرہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سے بھی اتفاق ہے کہ تبدیلی آنی چاہیے۔ مگر اتنا زور لگا کے یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ تبدیلی آ گئی ہے؟ اول تو یہ جملہ ہی غلط ہے کہ تبدیلی آ گئی ہے۔ درست جملہ یہ ہے کہ تبدیلی آ رہی ہے۔اور یہ بھی کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ تبدیلی آرہی ہے۔تبدیلی کسی کے کہنے نہ کہنے، گلا پھاڑنے نہ پھاڑنے سے نہیں آتی۔یہ تو خود کار اور فطری نظام ہے۔آپ چاہیں کہ نہ چاہیں، دھاڑیں کہ خاموش رہیں تبدیلی ہر آن آرہی ہے اور آتی چلی جائے گی۔

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

انسان نے غاروں سے عالی شان محلات تک جو سفر کیا۔ پیدل سے خلائی جہاز تک جو پہنچا۔حلق سے غوں غاں نکالنے والے دو پیروں کے جانور نے جو بھانت بھانت کی زبانیں اور ان کی پیچیدہ گرائمر تشکیل دی۔ پہاڑی دیواروں پر ٹوٹی پھوٹی تصاویر بنانے سے جو ابتدا ہوئی اور پھر براستہ مونا لیزا تھری ڈی مووی تک پہنچ گئی۔ پتھروں سے لڑائی کرنے والوں کی نسلوں کی انگلیاں ایٹم بم کے بٹن اور ڈرون گھمانے کی جوکی سٹک تک پہنچ گئیں۔

ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک باآوازِ بلند پیغام بھیجنے یا  دھوئیں کے ذریعے اپنی بات دور کھڑے کو پہنچانے والے نے ای میل تک کا جو فاصلہ طے کیا۔آگ جلا کر روشنی حاصل کرنے والوں کے ورثا نے روشنی کو ایک بلب میں جیسے قید کرلیا۔جانور کی کھال بدن پر لپیٹنے والوں کے بچے بوتیک ڈریسنگ تک جو آگئے۔چہرے پر مٹی سے نقش و نگار بنا کر اچھل کود کرنے والی دخترِ حوا اب ڈیزائنرز کاسمیٹکس استعمال کرنے کے قابل جو ہوگئی۔تو یہ سب تبدیلیاں کون سا خان لایا ؟

ہم تبدیلی بازوں کی پیدائش سے پہلے کمزور اور ادنیٰ ذات والا طاقتور کے برابر یا سامنے نہیں بلکہ جوتے دہلیز سے باہر رکھ کے پگڑی اتار کے زمین پر بیٹھتا تھا اور اس کے منہ سے سوائے جی جی جناب ، بجا فرمایا حضور، مائی باپ آپ سچ کہتے ہیں کہ سوا کچھ بھی نہ نکلتا تھا۔اب یہی کمزور ڈنڈہ اٹھائے منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے دیدے گھما گھما کر بات کرتا ہے، حقوق کے لیے نعرے لگاتاہے، سڑک بند کردیتا ہے اور حاکم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وعدوں کا حساب طلب کرتا ہے۔

جب عمران خان کرکٹر تھے اور ان کے نزدیک تبدیلی کا مطلب پرانی گیند نئی سے بدلنے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔اس زمانے تک کا میڈیا حکمرانی کی چوکھٹ پر سربسجود ہی رہتا تھا۔مضمون و کالم و اداریہ نگار ایک ایک فقرہ لکھنے سے پہلے دس بار سوچتا تھا کہ کہیں یہ ناراض نہ ہوجائے ، کہیں وہ خفا نہ ہوجائے ، کہیں فلاں نہ بگڑ جائے۔خبریں تب بھی اتنی ہی ہوتی تھیں جتنی آج ہیں مگر ہر خبر شایع یا نشر کرنے کی تو نہیں ہوتی تھی نا۔حکومت ، فوج ، عدلیہ کے ادارے ایسی مقدس گائے تھے جن کے بارے میں ایک ایک اطلاع پھونک پھونک کر شایع کرنی پڑتی تھی۔بدتمیز میڈیائیوں کے ڈکلریشن اور کاغذ کا کوٹہ ضبط ہونا اور پھر ان کا جیل میں بند ہونا، جرمانہ بھرنا، نیک چال چلن کے پروانے پر دستخط کرنے کے بعد آزاد ہونا اور پھر بھی باز نہ آنا تو ٹکٹکی پر بندھ کر تشریف پر کوڑے کھانا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔

آج یہی میڈیا ہے جس سے شرفا تو رہے ایک طرف لفنگے بھی دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اور ادھر ادھر کھسک جاتے ہیں۔جس کا ہاتھ کیمرے کے بٹن پر وہی بادشاہ۔جس نے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ کھول لیا گویا کسی کو بھی جوتے کی نوک پر رکھ لیا۔جسے چاہا ہیرو کردیا نہ چاہا تو زیرو کردیا۔غلام میڈیا کی بے لگام آزادی آخر کس عمران خان کی مرہونِ منت ہے؟

اور جمہوریت؟ کیسی جمہوریت؟ کسی اور سے نہیں خان صاحب اپنے کسی بزرگ سے ہی پوچھ لیں کہ ووٹ عام آدمی کا حق کب اور کیسے بنا۔اب سے ساٹھ ستر برس پہلے ووٹ صرف وہ شخص دے سکتا تھا جو کچھ پڑھا لکھا ہو یا مالیہ و ٹیکس ادا کرتا ہو اور صاحبِ املاک ہو۔انیس سو چھیالیس کے جس الیکشن کے نتیجے میں پاکستان بنا اس میں ووٹر کے لیے یہی شرائط تھیں۔ایک آدمی ایک ووٹ کا تصور نری عیاشی تھی چہ جائکہ کوئی انگلا کنگلا صاحب کے سامنے امیدواربننے کا خواب دیکھ سکے۔ووٹ مانگنے صاحب نہیں بلکہ اس کے مسٹنڈے اور کارندے آتے تھے۔

اسمبلیاں وفادار معززین اور نمک خوار مصاحبین کی ٹاک شاپ ہوا کرتی تھیں۔ان کا کام آنکھ بند کرکے قوانین کے مسودے کی منظوری تھا۔جلوس نکالنے کے لیے مجسٹریٹ کی پیشگی اجازت ضروری تھی ورنہ صرف وہی جلوس نکالنے کی جرات کرتے جنھیں لاٹھی سہنے اور گولی کھانے کا حوصلہ ہو۔کسی بھی بلا اجازت جلوس پر پولیس فائرنگ سے پانچ سات لوگوں کا مرجانا اور سیکڑوں کا گرفتار ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ سیاسی قیدیوں کو برسوں جیل میں سڑانا کوئی انہونی بات نہیں تھی۔

آج جب کہ خان صاحب انقلاب ، تبدیلی اور حقوق کی بات گویا ایسے کررہے ہیں جیسے کوئی پہلی دفعہ کر رہا ہو۔اگر یہی خان صاحب اب سے پچیس تیس برس پہلے اس سے آدھی بات بھی کرتے تو غداری کے مقدمے میں کسی کوٹ لکھپت ، میانوالی یا سکھر جیل میں بند ہوتے۔مگر ان پچیس تیس برسوں میں کس قدر تبدیلی آگئی ہے کہ لوگ پارلیمنٹ کے لان میں کپڑے دھو کر لٹکا سکتے ہیں۔پولیس گاڑیوں کی ہوا نکال کر قیدی چھڑوا سکتے ہیں۔پولیس کے سربراہ کو کیمروں کے سامنے ڈنڈوں سے پیٹ سکتے ہیں۔ جو میڈیا ہاؤس پسند نہیں اس پر روزانہ پتھراؤ کرسکتے ہیں۔

عدالتی سمن و فیصلے پھاڑ سکتے ہیں۔ججوں کو مرکزی شاہراہ کے بجائے گلیوں گلیوں دفتر پہنچنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔غیر ملکی صدور اور وزرائے اعظم کے دورے منسوخ کروا سکتے ہیں۔آج اگر ایک شخص بھی سیاسی قیدی ہو تو حقوق کی تنظیمیں آسمان سر پہ اٹھا لیتی ہیں۔فوجی قیادت کو اپنی نئیت کے بارے میں سو سو وضاحتیں پیش کرنا پڑتی ہیں۔ کیا یہ سب تبدیلیاں کوئی ایک شخص لایا ہے ؟

جواہر لعل نہرو جب نئے نئے وزیرِ اعظم بنے تو ایک دن دفتر کے سامنے اپنی گاڑی سے اترے ہی تھے کہ ایک بڑھیا آگے بڑھی اور اس نے نہرو جی کی شیروانی پر ہاتھ ڈال کے زور سے جھٹکتے ہوئے کہا ’’ تو تو پردھان منتری بن گیا مجھے دیش کی آزادی سے کیا ملا۔میرے بچے تو اب بھی کھولی میں رہتے ہیں‘‘۔ جواہر لعل نے بڑھیا کے دونوں ہاتھ نرمی سے پکڑ کے شیروانی سے الگ کرتے ہوئے کہا ’’ ماں تجھے یہ ملا کہ آج تیرا ہاتھ پردھان منتری کے گریبان پر ہے‘‘۔

فیض صاحب سے کسی بے صبرے نوجوان نے پوچھا حضورِ والا آپ کی نسل نے اتنی جدوجہد کی ، ہماری نسل بھی مسلسل جدوجہد کر رہی ہے مگر انقلاب چھوڑ تبدیلی کا بھی دور دور نام و نشان نہیں۔فیض صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا صاحبزادے اتنی جلدی کس بات کی ہے۔ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے۔تبدیلی آپ کی نہیں اپنی شرائط پر آتی ہے۔آپ دل ہارے بغیر کام کرتے رہیں۔

جان کی امان پاؤں۔ابھی ڈیڑھ برس باقی ہے۔ خیبر پختون خواہ ترقی کا شو کیس بن جائے تو لوگ دور دور سے دیکھنے اور ووٹ ڈالنے آئیں گے۔جو وقت بنوں اور صوابی میں لگانے کا ہے اسے بہاولپور اور لاہور میں مت لگائیں۔ورنہ اور وقت لگے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments