کامریڈ ہمایوں احتشام اور تاریخ کا حساب


میرے عزیز بھائی ہمایوں احتشام نے ذیل کا تبصرہ میرے آج کے کالم پر کیا ہے\"\"

\”جناب سوہارتو آف انڈونیشیا بھی آمر تھا، پنوشے بھی آمر تھا، مارکوس بھی آمر تھا، جنرل کارلوس بھی آمر تھا، مبوتو بھی آمر تھا، مگر آپ ان کا نام نہیں لیں گے۔ وجہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان تمام آمروں کا تعلق آپ کے مکتبہ فکر یعنی لبرلزم یا سرمایہ داری کی کاسہ لیسی سے تھا۔ سوشلزم پہ تنقید کرنے کے سوا سرمایہ داری کے معذرت خواہوں کو آتا ہی کیا ہے؟ آپ کی جمہوریت آپ کی آمریت آپ ہی کو مبارک۔\”

عرض ہے کہ ہمیں تنقید اور تبصرہ کرتے ہوئے حقائق کا خیال رکھنا چاہیے۔ پنوشے کا انتقال 10 دسمبر 2006 کو ہوا تھا۔ درویش تب بی بی سی کے لئے فری لانس کالم لکھتا تھا۔ 11 دسمبر 2006 کی صبح درویش کا تعزیتی کالم بی بی سی اردو پر شائع ہوا تھا۔ عنوان تھا \”مرے گیت میں کل کی آشا ہے\”۔ متن کے آخر پر بی بی سی اردو کا لنک حاضر ہے۔

سہارتو کے انتقال پر درویش ہفت روزہ \”ہم شہری\” کا مدیر تھا۔ تعزیتی مضمون لکھا تھا۔ ابھی گزشتہ دنوں اس کا متن \”ہم سب\” پر قند مکرر کے طور پر شائع کیا تھا۔

خاکسار پرتقصیر میں ان گنت خامیاں ہیں۔ ان کی نشاند ہی کھلے دل سے کرنی چاہیے۔ دوستوں کا تنقید کرنے کا حق محترم ہے لیکن انہیں تاریخ کا حساب صاف رکھنا چاہیے۔ پنوشے کے تعزیتی کالم کا متن درج ذیل ہے۔

چلی کے سابق فوجی آمر اگاسٹو پنوشے بالآخر انتقال کر گئے۔ امریکی شاعر ویلیس سٹیونس کی ایک بامعنی سطر کہتی ہے And then the tyrant fell یعنی بالآخر غاصب اوندھے منہ گرا۔ ہر غاصب کو ایک دن اوندھے منہ گرنا ہوتا ہے۔ پنوشے کو اس انجام تک پہنچنے میں \"\"تینتیس برس اور ٹھیک تین ماہ لگے۔

جمہوری دنیا نے تو9/11 کی اصطلاح کہیں سنہ 2001 میں آ کر دریافت کی۔ ہم تیسری دنیا کے کم نصیب تو بہت پہلے 11 ستمبر1973 کی صبح ہی اس قیامت سے آشنا ہو گئے تھے جب جنرل پنوشے نے چلی کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔

اگر انسانی موت میں تالیف قلب کا کوئی پہلو ممکن ہو تو پنوشے کی موت میں یہ زاویہ تقویم کی ایک ستم ظریفی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جدید عالمی تاریخ میں انسانی حقوق پامال کرنے والوں کے اس سرخیل نے دنیا سے رخصت ہونے کے لیے انسانی حقوق کے عالمی دن 10 دسمبر کا انتخاب کیا۔

سوشلزم کی مخالفت کا ڈھونگ رچا کر سرمایہ دار دنیا کے دامن میں پناہ لینا اور بات ہے مگر جمہوریت کا کوئی تقاضا انسانی حقوق کی پاسداری کیے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ سترہ برس تک بزعم خود ملک کی خدمت کرنے والے نے اپنے عوام پر اعتماد کا اعلان اس وصیت کے ذریعے کیا ہے کہ اس کی نعش کو نذرِ آتش کیا جائے تا کہ مشتعل عوام اس کی قبر کی بے حرمتی نہ کرسکیں۔\"\"

چلی میں ستمبر کا مہینہ موسِم بہار سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس برس (1973) لاطینی امریکہ کے ڈیڑھ کروڑ آبادی والے اس ملک میں یہ مہینہ جبر اور فسطائیت کا پیغام لایا۔ چلی میں جنرل پنوشے کی قیادت میں فوج نے منتخب صدر سلواڈور الاندے کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ صدر الاندے نے19 روز قبل ہی پنوشے کو فوج کی قیادت سونپی تھی۔ صدارتی محل کے باہر ٹینک گولے داغ رہے تھے۔ فضائیہ کے طیارے فضا میں چنگھاڑتے ہوئے نمودار ہوتے اور بارود برساتے نکل جاتے تھے۔

اشتراکی رجحانات رکھنے والے سلواڈور الاندے 1970 کے انتخابات میں معمولی اکثریت سے صدر منتخب ہوئے تھے۔ امیر اور غریب کے درمیان وسیع خلیج حائل تھی۔ نومنتخب صدر الاندے نے نجی سرمایہ داروں کی قوت کو لگام ڈالنے کا پروگرام بنایا۔ ملک میں وسیع پیمانے پر زرعی اصلاحات کر کے جاگیریں غریب کسانوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ کوئلے، فولاد اور تانبے کی صنعتیں قومی تحویل میں لے لی گئیں۔ قیمتیں منجمد کر کے اجرتیں بڑھا دی گئیں۔ بچوں کے لئے طبی امداد اور مفت تعلیم کے پروگرام بنائے گئے۔ چلی میں معدنیات کے ذخائر اور زراعت پر امریکی کمپنیوں کا قبضہ تھا۔ معاشی مفادات سے قطعِ نظر امریکی حکومت کو بھی خدشہ تھا کہ کیوبا کے بعد چلی لاطینی امریکہ میں دوسرا اشتراکی مرکز بن جائے گا۔ چنانچہ امریکی حکومت ابتدا ہی سے الاندے حکومت کا تختہ الٹنے کے درپے تھی۔\"\"

2003 میں منظر عام پر آنے والی سی آئی اے کی انتہائی خفیہ دستاویزات کو امریکی صحافی پیٹر کارن بلو نے ’پنوشے فائل‘ کے نام سے مرتب کیا تھا۔ ان دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی سی آئی اے نے حزب اختلاف کے اخبارات، سیاست دانوں، تاجروں اور ٹریڈ یونین رہنماؤں میں لاکھوں ڈالر تقسیم کیے۔ حکومت مخالف عناصر کو ملنے والے اسلحے کا پورا پورا حساب رکھا جا رہا تھا۔ بغاوت میں شرکت پر آمادہ نہ ہونے والے فوجی جرنیلوں کو قتل تک کیا گیا۔ ’پنوشے فائل‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کو ٹھیک ٹھیک علم تھا کہ پنوشے حکومت ہر روز کتنے سیاسی مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے اور باقی ماندہ مظلوموں کو کہاں اور کس حال میں رکھا جا رہا تھا۔ صدر نکسن نے 1976 میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے سی آئی اے کو چلی میں بغاوت کی کامیابی کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کی اجازت دی تھی۔ چنانچہ چلی میں افراط زر آسمان کو چھونے لگا۔ اشیائے ضرورت کی قلت پیدا ہو گئی۔ بالآخر 11 ستمبر 1973ء کو فوج کے سربراہ پنوشے نے بغاوت کا علم بلند کر دیا۔

صدر الاندے نے فوج کی فرمائش پر مستعفی ہونے سے انکار کر دیا اور کوئی درجن بھر ساتھیوں کے ہمراہ ایک مشین گن اٹھائے ٹینکوں اور\"\" فضائی بمباری کا مقابلہ کرنے صدارتی محل سے باہر نکل آئے۔ حبیب جالب نے کہا تھا ’کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب‘۔ یہ نادر تصویر ملاحظہ کریں جو صدر الاندے کی موت سے چند لمحے قبل لی گئی تھی۔ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔

فوج کے حصار میں آنے کے بعد الاندے نے عوام سے آخری بار ریڈیو پر مخاطب ہو کر کہا تھا، ’آپ نے اپنے ووٹ سے مجھ پر اعتماد کیا تھا۔ میں آج اپنی جان دے کر اس امانت کی لاج رکھوں گا۔ یہ لوگ ہمیں ختم کر سکتے ہیں مگر سیاسی عمل کو طاقت کے بل پر دبایا نہیں جا سکتا۔ سماجی تبدیلیوں کو کسی جرم سے روکا نہیں جا سکتا۔ ان لوگوں کا فیصلہ تاریخ کرے گی اور تاریخ عوام بناتے ہیں۔ ‘

چلی میں سی آئی اے کی جیت ہوئی۔ جنرل پنوشے راج سنگھاسن پہ براجے۔ چلی پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہزاروں سیاسی کارکنوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ سان تیاگو کے باکسنگ سٹیٹدیم میں 5000 افراد قید کیے گئے جن میں عوامی موسیقار وکٹر ہارا بھی شامل تھا۔ یونیورسٹی اساتذہ اور طالبعلموں کے حوصلے پست کرنے کے لیے وکٹر ہارا سے خاص طور پر وحشیانہ سلوک کیا گیا۔ وکٹر ہارا نے ساتھی قیدیوں کاحوصلہ بڑھانے کے لیے عارضی نظر بندی کیمپ میں گٹار بجانا شروع کیا تو فوجی اہل کاروں نے اس کی انگلیاں کچل ڈالیں۔ شدید زخمی وکٹر ہارا کے سامنے گٹار رکھ کر اسے کہا گیا ’ہاں اب بجا اپنا گٹار‘ یہ وہی وکٹر ہارا تھا جس نے گیت لکھا تھا۔\"\"

میرا راگ نہیں ہے درباری

کیوں دَھن کی تال پہ نِرت کروں

میرے گیت میں کل کی آشا ہے

میری تان میں جھانجھ ستاروں کی

میں آخری پَل تک یدھ کروں

میرے سارے سر سچے لاگیں

بے پناہ ایذا رسانی کے بعد بالآخر وکٹر ہارا کو 15 ستمبر کو گولی مار دی گئی۔ فوجی حکومت نے سیاسی جماعتوں کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر چلی کے 3 ہزار سیاسی کارکن موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ اخبارات پر کڑی سنسرشپ عائد کر دی گئی، فوجی حکومت کے مخالفین کو جیلوں میں ڈال کر انسانیت سوز اذیتیں دی گئیں۔ ہزاروں سیاسی کارکن اس طرح غائب کیے گئے کہ ان کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ دریائے موپاچو میں تیرتی لاشیں اور جنگلوں میں اجتماعی قبروں کی برآمدگی روزمرہ کا معمول تھا۔\"\"

پابلو نیرودا چلی کا عظیم ترین فرزند تھا۔ پابلو نیرودا نے اپنے قلم سے بیسوی صدی کی شاعری کے خدوخال یوں تراشے تھے جیسے مجسمہ ساز انگلیوں سے اپنے وجدان کی صورت گری کرتا ہے۔ انسانی مساوات اور سماجی انصاف کے لیے للکارتی سطروں کے بیچ نیرودا نے کہیں کہیں محبت کی ایک سرگوشی بھی رکھ دی تھی۔

بہت کچھ کھو چکا پر یاد کی مٹھی ابھی بند ہے

کئی مانوس آوازیں، بہت سے رنج دہ منظر

پرندے ہجرتوں میں تھے

مگر ان گھاس کے چھوڑے ہوئے تنکوں کو

پھر بھی گھر سمجھتے تھے

\"\"

جہاں پہ سینت کے رکھے تھے

بچوں کے کھلونے، آنے والے کل کے خواب

آنسوؤں میں جھلملاتا ماتمی چہرہ بہن کا

مرے پیچھے سمندر تھا

ان گنت سیاسی رفیقوں کی موت سے 69 سالہ نیرودا کو اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ مختصر علالت کے بعد 23 ستمبر 1973 کو رخصت ہو گئے۔ پبلو نرودا کی میت جس گھر سے اٹھائی گئی وہاں وہاں کئی انچ پانی کھڑا تھا اور لائبریری میں رکھی ہزاروں کتابوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ چلی میں فوجی بغاوت کے دو ہفتے کے اندر سیاسی اظہار کے سینے میں بارود اتار دیا گیا تھا۔ نغمہ خاموش ہو چکا تھا اور شعر کا سوتا خشک ہو چکا تھا۔

کھلی منڈی کی معیشت متعارف کرائی گئی مگر کچھ عرصے کے لیے مانگے تانگے کی گرم بازاری کے بعد معیشت پھر سے ڈوب گئی۔ 1988 میں 16 سالہ غیرقانونی حکومت کے بعد پنوشے نے اپنی حکمرانی میں دس سالہ توسیع چاہی مگر اسے ریفرینڈم میں شکست ہوئی۔ بالآخر 1990 میں اسے صدارت چھوڑنا پڑی مگر وہ 1998 تک فوج کا سربراہ رہا۔ انتقال اقتدار سے پہلے اسے سینٹ کی تاحیات رکنیت عطا کی گئی اور دوران حکمرانی کیے گئے جرائم کے حوالے سے عدالتی اختیارات سے ماورا قرار دیا گیا۔

لیکن اکتوبر 1998 میں سپین کی درخواست پر اسے ہزاروں سیاسی مخالفین کے اغوا، ایذا رسانی اور قتل کے الزام میں برطانیہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ مارچ 2000 میں جنرل پنوشے کو چلی لایا گیا۔ اپنے دورِ اقتدار میں پنوشے نے ایک بار کہا تھا، چلی میں وہی پتہ ہلتا ہے جسے میں ہلنے کی اجازت دیتا ہوں۔ جب اس سے شکایت کی گئی کہ ایک ایک تابوت سے کئی کئی سیاسی کارکنوں کی لاشیں برآمد ہو رہی ہیں تو اس نے استہزا سے کہا ’ایسا تو قبرستانوں میں جگہ بچانے کے لیے کیا جاتا ہے‘۔

خفیہ پولیس کے ذریعے ہزاروں مخالفین کو نیست و نابود کرنے والے جنرل پنوشے نے پیرانہ سالی کی بنیاد پر عدالت سے درخواست کی کہ اسے عدالتی سوال جواب کی زحمت نہ دی جائے۔ 2004 میں لاکھوں ڈالر کے مالیاتی خورد برد کے معاملات سامنے آنے پر پنوشے کے پرانے حامی بھی اس سے بدظن ہو گئے۔\"\"

نومبر1997 کا آخری ہفتہ پاکستانی سیاست میں بہت طوفانی تھا۔ صدر، وزیر اعظم اور سپریم کورٹ میں اقتدار کی رسہ کشی بحرانی مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ انہی دنوں لاہور میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے افراسیاب خٹک نے بڑی دردمندی سے کہا، ’ہماری ایک بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ضیاالحق اپنے افعال کا عدالتی سطح پر سامنا کیے بغیر رخصت ہو گئے‘۔ افراسیاب خٹک پاکستانی سیاست کے سرد گرم ہی سے آشنا نہیں، عالمی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔

خیرپور ٹامیوالی کی بستی لال کمال میں جب ایک طیارہ گرتا ہے تو یہ واقعہ آمر کی موت سے زیادہ حمید بلوچ، نذیر عباسی، عثمان طوطی اور ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کی شہادت ہوتا ہے۔ 91 برس کی عمر میں جنرل پنوشے کی موت سے صرف یہ ثابت ہوا ہے کہ سلواڈور الاندے، پابلو نیرودا اور وکٹر ہارا زندہ ہیں۔\”

http://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/12/061211_pinochet_chilli_ur.shtml

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments