ادبی دنیا :اردو آڈیو لٹریچر کا یوٹیوب چینل


\"\"میرے ایک ادیب دوست نے مجھ سے کہا تھا کہ تصنیف ! آپ جن چیزوں کواپنے بلاگ پر  آن لائن کررہے ہیں، لامحالہ اس کی بہت ضرورت ہے۔مگر آپ کوئی اچھا ادبی رسالہ کیوں نہیں شروع کرتے ، اس کی شدت سے کمی محسوس کی جاتی ہے، خاص طور پر ہندوستان میں جہاں شب خون کے بعد کوئی بھی ایسا رسالہ باقاعدگی سے جاری نہیں رہا، جس نے ادبی معاشرے میں ہلچل جاری رکھنے کا کام کیا ہو۔میں نے ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے انہی دنوں \’جدید ترین\’ نامی ایک آن لائن رسالے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا اور اس کا پہلا شمار ہ اپنے بلاگ پر شائع بھی کیا۔نتیجہ تو توقع سے بڑھ کر تھا، مگر پھر بھی لوگوں کی جانب سے اس کی ہارڈ کاپی کی مانگ زیادہ رہی اور بہت سے دوستوں نے یہ مجبوری ظاہر کی کہ ابھی آن لائن ریڈنگ کا چلن اردو کے ادیبوں اور ادب کے قارئین میں اتنا زیادہ نہیں ہے۔حالانکہ اب یہ زور دار روایت پرستی مجبورا ہی سہی، مگر ہمارے ادب کے کاندھوں سے اپنا بوجھ اتارتی ہوئی محسوس ہورہی ہے اور ہند و پاک سے بہت سی ایسی ویب سائٹس شروع ہوئی ہیں، جن کا لوگوں نے نہ صرف استقبال کیا ہے،  بلکہ ان کو باقاعدگی سے پڑھنے والوں میں مجھ سمیت ہزاروں قارئین شامل ہیں۔ایسی ویب سائٹس میں ہم سب، لالٹین، جرات تحقیق، حال احوال ، ہم شہری ، ایک روزن اور ہندوستان سے مضامین ڈاٹ کوم وغیرہ کو میں جانتا ہوں۔ابھی ممبئی سے اردو نیوز ایکسپریس نام کی ایک ویب سائٹ شروع کی گئی ہے، جو مستقبل قریب میں امید ہے کہ ایک اچھی ویب سائٹ کے طور پر ابھر کے سامنے آسکے گی۔لیکن اس کے باوجود کہ ہماری زبان کی اتنی ویب سائٹس منظر عام پر آئی ہیں، ان سب کی حیثیت زیادہ تر ادب کے مقابلے میں کافی وسیع ہے اور ان تمام میں سے کسی کو بھی صرف و محض ادب شائع کرنے کے لیے مختص ویب سائٹ نہیں کہا جاسکتا۔(یہ بالکل الگ بات ہے کہ ان میںسے بعض پر بہترین ادب بھی شائع ہوتا ہے)۔میں نے اسی کمی کو دور کرنے کے لیے جدید ترین اور مطالعہ نامی ویب سائٹس کا پروجیکٹ تیار کیا تھا، مگر وہ میرے اپنے وسائل کے محدود ہونے کی وجہ سے وجود میں نہ آسکیں۔اصل میں ادب کے تعلق سے جو ایک عجیب وغریب بدنظمی و بے ثباتی خاص طور پر نئی شاعری کے حوالے سے ہمیں دکھائی پڑتی ہے، اس کی وجہ ایسے پلیٹ فارمز کی عدم موجودگی بھی ہے۔پچھلے زمانوں میں ادبی بحثیں چوپالوں پر ممکن تھیں، کافی ہائوس اور چائے خانوں میں ، مگر اب ان کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے، مگر بحثوں میں حصہ لینے والا کوئی بھی شخص یہ نہیں جانتا کہ اسے کن مباحث کو پڑھنا چاہیے، کون سی تخلیقات بہتر ہیں اور کون سی لچر۔یہ بات سچ ہے کہ اپنی پسند کی چیزیں پڑھنا اور لکھنا ہر شخص کا پیدائشی حق ہے، مگر ادب میں اچھے رسالوں کی موجودگی سے کئی بہتر امکانات کے پیدا ہونے کی گنجائش کو نکارا بھی نہیں جاسکتا۔تو ہم نے سوچا رسالہ نہ سہی، مگر خود بھی ایسی اچھی چیزیں پڑھیں اور دوستوں کو پڑھوائیں ، جن کی وجہ سے تخلیقی حس کو جلا ملنے کی امید ہو اور ادب کی مختلف النوع لذتوں سے آشنا ہونے کا موقع بھی مل سکے۔

بہرحال، بلاگ تو اپنی جگہ جاری و ساری ہے۔قریب دو سال سے زائد ہو گئے ہیں اور ادبی دنیا پر اچھے ادب کو یونی کوڈ میں اپلوڈ کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔کوشش ہے کہ ادبی دنیا کو جلد ایک ویب سائٹ میں منتقل کیا جائے تاکہ کام کرنے کا دائرہ وسیع ہو اور قارئین کے لیے پڑھنے کی سہولیات مہیا کرانے میں آسانی ہو۔اسی طرز پر میں نے ایک روز سوچا کہ کیوں نہ آڈیو لٹریچر کا ایک باقاعدہ سلسلہ شروع کیا جائے۔تاکہ اوپن سورس میں طلبہ اور بہت سے اساتذہ کے لیے بھی اردو فکشن اور شاعری کو بالخصوص اپلوڈ کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کے تراجم کو بھی ممکنہ حد تک پڑھ کر سنایا جاسکے۔اس کے لیے ہم نے یوٹیوب پر ادبی دنیا کا ایک چینل قائم کیا اور اس چینل پر گزشتہ دس ماہ میں قریب ڈیڑھ سو آڈیوز کو اپلوڈ کیا گیا۔اس سلسلے کو بہت پسند بھی کیا گیا اور کچھ جگہوں سے اس پر تنقید بھی ہوئی۔ظاہر ہے ہم بھی اس معاملے میں تجربہ کار نہیں تھے اور اپنے محدود وسائل میں جس قدر بہتر کام انجام دے سکتے تھے، ہم نے دیا۔ہم نے کوشش کی کہ تلفظات جہاں تک  ممکن ہوں ، صحیح طور پر ادا کیے جائیں تاکہ اردو زبان کو سنتے وقت نہ تو کوئی طالب علم گمراہ ہو اور نہ ہی کسی صاحب زبان کو اس پر اعتراض ہو(حالانکہ صاحب زبان کی اصطلاح بہت حد مبہم ہوچلی ہے، پھر بھی ادبی تخلیقات کو پڑھتے وقت جہاں تک ممکن ہو احتیاط لازم تھی، جو کہ ہم نے کی۔)

ظاہر ہے ہمارے پاس کوئی سٹوڈیو نہیں تھا، دن میں کمرے کے باہر ککر کی سیٹی بجتی،چھت کے اوپر سے کوئی ہوائی جہاز گڑگڑاتا ہوا گزرتا یا پھر گھر کے کسی فرد کو چھینک بھی آجاتی تو ہمیں طویل جملوں کو پھر سے ادا کرنے کے لیے رکنا پڑتا۔اس کا علاج ہم نے اس طرح ڈھونڈ نکالا کہ راتوں کو بیٹھ کر ریکارڈنگ کرنی شروع کی۔ہم سے مراد میں اور فاطمہ خان ہیں، جنہوں نے اس پراجیکٹ میں میرے ساتھ بہت محنت کی۔ہم پہلے کہانی کو ایک دفعہ پڑھتے، اس میں موجود ایسے الفاظ کو جو ہمارے لیے مشکل تھے، ٹک کرتے اور ڈکشنری میں ان کا تلفظ دیکھا کرتے۔کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ ہم نے کاہلی میں لفظ کو اپنی مرضی سے پڑھنے کا جوا کھیل تو لیا، مگر بعد میں اس کو درست کرنے کے لیے پھر سے  اس جملے کو ریکارڈ کرنے کے لیے اگلی رات کا انتظار کرنا پڑا۔ان راتوں میں ہم نے بہت ہنسی مذاق بھی کیا، ایک دوسرے پر بگڑے بھی اور کہانیاں بھی خوب ریکارڈ کیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔فاطمہ کے علاوہ میرے ہندوستانی و پاکستانی دوستوں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا اور ضوفشاں قریشی ، رمشیٰ اشرف، واجد علی سید ،شامل شمس   اور تالیف حیدر کے ساتھ ساتھ کئی دوستوں نے اس سلسلے کو آگے بڑھانے میں کافی مدد کی۔

خاص طور پر اجمل کمال جیسے ادب شناس کی جانب سے جو تعاون حاصل ہوا، وہ حوصلہ افزا رہا اور اب بھی ہے۔انہوں نے ہمیں آج میں موجود بہترین کہانیوں اور تراجم کو پڑھنے کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ خود بھی ایسی تحریریں مہیا کرائیں جن کو پڑھنے سے ادبی دنیا کے یوٹیوب چینل کے وقار میں اضافہ ہوا۔ایسی ہی ایک تحریر اروندھتی رائے کی \’تخیل کی موت\’ ہے، جس کو فاطمہ خان نے بہت عمدگی کے ساتھ پڑھا ہے۔

ادبی دنیا پر سعادت حسن منٹو،  اپندر ناتھ اشک، نیر مسعود،سید محمد اشرف، خالد جاوید، ذکیہ مشہدی، جاوید صدیقی اور صدیق عالم جیسے اہم افسانہ نگاروں کی کہانیاں بھی اپلوڈ کی گئیں اور میرا جی، جاوید انور ، عذرا عباس اور شارق کیفی جیسے شعرا کا کلام بھی ریکارڈ کرکے ڈالا گیا۔ہم نے ابتدا سے لے کر اب تک کسی باضابطہ پالیسی کے بغیر اس لٹریچر کو ریکارڈ کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم تمام طرح کی ادبی تحریروں کو جن میں خاص طور پر تخلیقی ادب شامل تھا، اس چینل کے ذریعے لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔مگر اب ہم نے تنظیم کے ساتھ مختلف پراجیکٹس کو سمیٹنے کا کام شروع کیا ہے اور اس کے لیے  کچھ احباب سپانسرشپ کے سلسلے میں بھی آگے آئے ہیں تاکہ اس کام کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھا جاسکے اور اس سال سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی  کی تمام کہانیوں کے علاوہ میر تقی میر، غالب، فیض، راشد، میراجی اور مجید امجد جیسے شاعروں کا کلیات آڈیو میں اپلوڈ کیا جاسکے۔بہت سے دوستوں کو یہ شکایت ہوتی ہوگی کہ ہم ان کی ریکارڈ کی ہوئی چیزوں کو اپلوڈ نہیں کرتے، اس کی وجہ تلفظات میں برتی گئی ان کی لاپروائی بھی ہوسکتی ہے اور کوئی دوسری تکنیکی خرابی بھی، جس کی وجہ سے وہ آڈیوز ادبی دنیا کے یوٹیوب چینل پر اپلوڈ نہیں ہوپاتیں۔بہرحال اس سال، جیسا کہ امید ہے ، اور دوست بھی اس سنجیدہ سلسلے میں مختلف مراحل پر ہماری مدد کے لیے آگے آئے تو یہ تمام پراجیکٹس ضرور تکمیل کے مرحلے تک پہنچیں گے۔

مستقبل میں ہمارا ارادہ ایک آڈیو رسالے کو بطور تجربہ پیش کرنے کا بھی ہے، جس کے لیے ایک جیوک باکس تیار کرکے  ایک ہی ویڈیو میں اپلوڈ کی جانے والی مختلف تحریروں کو بہت عامیانہ سی قیمت پر یوٹیوب سے خریدا جاسکے گا۔امید ہے کہ نئے سال میں نئے وسائل سے لبریز ادبی دنیا کا یوٹیوب چینل بہت سے طالب علموں اور دور دیس میں بیٹھے، کہانیاں اور شاعری سننے کے رسیا دوستوں کے لیے کارآمد ثابت ہوسکے گا۔

مستقبل تازہ ترین وسائل اور امکانات سے بھرپور ،ہماری نگاہوں پر روشن ہے۔ایک طرف اگر مشرق جنگ اور نفرت کی بھٹی میں جلنے والے دیسوں کا گڑھ بنا ہوا ہے تو دوسری طرف مغرب میں بھی اس آگ کی لپٹیں پھیلتی چلی جارہی ہیں۔ایسے میں ادبی دنیا کا یہ چینل  رسم الخط کے بندھنوں سے آگے جاکر اردو زبان کے چاہنے والوں تک اپنی زبان کے سیکولر لٹریچر کی ترسیل کرنے کو وقت کی ایک اہم ضرورت بھی سمجھتا ہے اور اپنی ذمہ داری بھی۔بھارت میں خاص طور پر اردو بولنے والوں کے تعلق سے ایک خاص قسم کا تعصب بھی پایا جاتا ہے، یہ تعصب ہر دو سطح پر موجود ہے، اس سلسلے میں وہ لوگ بھی قصور وار ہیں جو اردو کو شیریں زبان کا درجہ دے کر الگ تھلگ رکھتے چلے آئے ہیں اور دوسرے وہ جنہوں نے ہندی سے اس کا رشتہ منقطع کرکے اسے صرف و محض مسلمانوں کی زبان سمجھ رکھا ہے اور ان کی نظر میں ہر اردو بولنے والا مشکوک ہے ۔ہم ان تمام رویوں کی مذمت بھی کرتے ہیں اور ان کو دور کرنے کے لیے کام بھی کرنا چاہتے ہیں۔ہم رسم الخظ کے جھگڑوں سے آگے نکل کر زبان کو ایک سماعی حیثیت سے مقبول بنانا چاہتے ہیں اور اس کے ادب میں موجود ایسے پیغام کی تشہیر کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں جو کٹھ ملائوں اور جٹادھاریوں دونوں کے ظلم و بربریت کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی رہی ہے۔ہمارا اصرار ہے کہ اردو ہندی سے الگ نہ کوئی چیز تھی اور نہ ہے اور نہ ہی آگے کبھی ہوگی، سیاسی جھگڑے پیدا کرنے والے کچھ بغیر داڑھی اور چوٹی کے مولویوں، پنڈتوں نے ہندی ، اردو کے بیچ نفاق کی اس ڈور کو مضبوط کیا ہے اور اسے رفتہ رفتہ ایک موٹی دیوار میں تبدیل کردیا ہے تاکہ ادھر والے ادھر اور ادھر والے ، ادھر کی زندگیوں کو جاننے اور سمجھنے سے محروم کیے جاسکیں ، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم ستر سالوں سے اپنے ہی عکس اور اپنے ہی جیسے سادہ انسانوں سے لڑرہے ہیں، جن کی حقیقت اور اصل نہ کل ہم سے الگ تھی اور نہ آج ہے۔

آخر میں میں آپ سبھی دوستوں سے درخواست کروں گا کہ ادبی دنیا کے اس چینل کو سبسکرائب کرکے ہماری اس مہم میں شریک ہوں اور اردو کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے ادب کو سننے اور جاننے کے قافلے میں شامل ہوجائیں۔شکریہ!

ادبی دنیا کے یوٹیوب چینل کا لنک درج ذیل ہے۔

https://www.youtube.com/channel/UCgcve0uzgkk7nlqlioi4Arg


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments