کزن میرج سے چھٹکارے کی ضرورت


\"\" شادی خاندان نظام کے تسلسل کی بنیادی کڑی ہے۔ ایک نسل اپنی آنے والی نسل کو خاندان اور انسانی حیات کےتسلسل کی کنجی اس وقت سونپتی ہے جب اسے اس کی جسمانی اور عقلی بلغوت پر مکمل یا تقریباََ اعتبار ہو جائے۔ شادی کا مقصد صرف دو انسانوں کو جسمانی تعلق کی سماجی اجازت سے کہیں زیادہ ہے۔ معاشرتی سطح پر شادی کو تقدس بہر حال حاصل ہے۔ ناقدین سے معذرت کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔، شادی کے ادارے نے انسانی محبت اور جڑت کو پروان چڑھایا، دوسرے انسانوں سے تعلقات کو استوار کرنا سکھایا اور معاشرتی اقدار کو پہلے سے زیادہ پروان چڑھایا۔ انسانی تخلیق سے ارتقا تک کے سفر میں دوسرے رسم و رواج کی طرح شادی نے بھی بہت سے مراحل طے کیے اور بہت تبدیلیوں سے گزرتی ہوئی آج اس شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔

شادی کے اس ارتقاء میں بعض دفعہ معاشرے نے بہت اہم کردار ادا کیا اور بعض اوقات سائنسی محرکات نے۔ میڈیکل سائنس کا موقف ہے کہ شادی کے ادارے میں نسلی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں میں سب سےاہم وجہ کزن میرج ہے۔ چونکہ سائنس کا کام فتویٰ جاری کرنا نہیں، اس لئے سائنس اپنے استدلال کو پیش کرنے کے بعد معاشرے کو فیصلے کا اختیار سونپ دیتی ہے۔ معاشرہ چاہے تو سائنسی استدلال کو اپنائے یا پھر رد کردے۔ تاریخی طور پر 80 فیصد سے زائد شادیاں اپنے ہی خونی رشتے یا کزن میرجز کی صورت میں ہوتی رہی ہیں جبکہ موجودہ دور میں 20 فیصد جوڑے کزن میرج کے نتیجے میں بنے، جن میں نسلی بیماریوں کا انتقال دوسری شادیوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔

2013ء میں \”دی گارڈین\” نے ایک تحقیقی مضمون شائع کیا کہ بریڈفورڈ میں پیدا ہونے والے 13500 بچوں میں سے پچاس فیصد سے زائد\"\"  جو کہ کزن میرج کے نتیجے میں پیدا ہوئے، پیدائشی معذوری کے ساتھ پیدا ہوئے۔ اس تحقیق نے مزید ثابت کیا کہ نسلی طور پر بیماریوں کی منتقلی میں کزن میرج کا کردار سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ مزید یہ کہ اپنی نسل یا کزن میرج کا رواج پاکستانی طبقے میں زیادہ ہے اور سب سے زیادہ نسلی بیماریوں، داماغی محرومیوں اور یا جسمانی کمزوریوں میں پاکستانی کمیونٹی کے بچوں کو دوسروں پہ سبقت حاصل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر بچے ہیدائش سے قبل اور بہت سے اپنی زندگیوں کی پانچوی سالگرہ بھی نہیں دیکھ پاتے ۔ اور یہ تعداد ہر سال پہلے سے بڑھتی جاتی ہے کیونکہ پاکستانی طبقہ اپنی روایات کو توڑنے کے لئے کوئی تگ و دو کرنے کو تیار نہیں۔

ہو سکتا ہے کہ آپ ان اعدادوشمار سے اتفاق نہ کریں مگر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کزن میرج کا عمل نسلی بیماریوں کے تسلسل میں پچاس فیصد سے زیادہ امکان کو جنم دیتا ہے۔ اس خطرے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں صرف 26 ریاستوں میں کزن میرج کی اجازت ہے اور انہی چھپیس ریاستوں پر ایک تحقیق نیویارک ٹائم نے شائع کی جس کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کم ازکم مزید دس ہزار بچے دماغی اور جسمانی کمزوری یابیماریوں کے ساتھ پیدا ہوں گے۔ اس سے بڑا اور کیا ستم ہوگا کہ آنے والی انسانی نسل کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے بجائے ان میں بھی وہی کمزوریاں اور بیماریاں منتقل کی جائیں جو موجودہ یا پہلی نسلوں میں موجود تھیں۔

سائنسی استدلال کے بعد ہم سماجی استدلال کا جائزہ لیتے ہیں کہ کزن میرجز کس حد تک سماجی بنتر کو تقویت دینے میں ناکام ہیں۔ برصغیر \"\"اور مشرقِ وسطٰی میں مِلن کا جابر انداز آج بھی اپنی اصل شکل میں موجود ہے ۔ ہندوستان میں کہیں کٹار سے شادی کرا دی جاتی ہے تو پاکستان میں آج بھی جائیداد بچانے کے واسطے قرآن سے شادی کی رسم موجود ہے۔ خاندان کا جبری یا روایتی خاندان میں شادیاں ایسا ہی ہے جیسے ایک پروڈکٹ کو بار بار ایک جیسا پیش کرنا جس میں کچھ مختلف نا ہو ۔ یہی شادیاں نفسیاتی تصور پر اگر پرکھی جائیں تو اکثر گھرانوں میں ایسے واقعات سنے میں آئے جہاں شادی سے پہلے موصوف کو بھائی کے نام سے پکارا جاتا تھا مگر پہلی شب قربت کے دوران منہ سے بھائی کا لفظ نکلنا دونوں کے لیے شرمندگی کا مقام بنا ۔ اگر ہم کسی خوبصورت درخت کو دیکھیں تو اس کا حُسن اس بات میں مضمر ہوتا ہے کہ اس کی شاخیں چاروں طرف یکساں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ اور اگر یہی درخت کا ایک ہی تنا ہو جو صرف ایک جانب بڑھ چکا ہے اور ہر شاخ اسی تنے میں گھستی چلی جاتی ہے تو یقیناَ درخت کی خوبصورتی ماند پڑ جائے گی۔ اسی طرح شادی کے وقت اگر دو افراد ایک نسل کے بجائے دو نسلوں کو جوڑیں تو یہ خاندانی شجر مزید پھیلے گا اور اپنی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتا چلا جائے گا۔ اور اس عذاب سے بھی آنے والی نسلوں کو چھٹکارا ملے گا جس کی تلوار ان کی گردنوں پہ ان کی پیدائش سے پہلے ہی رکھ دی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments