سائنس اور ا سلام کے مباحثہ میں علی گڑھ اسکول کا نقطۂ نظر (4)


\"\"1984 میں ایک سیمینار Quest for New Science کے موضوع پر علی گڑھ میں منعقد کیا گیا جس میں ضیاء الدین سردار اور سید حسین نصر کے ایک شاگرد عثمان بکر نے شرکت کی۔ اور یوں ان دونوں اسکول آف تھاٹ سے براہ راست ربط قائم ہوا۔ پہلا واضح Statementجو علی گڑھ اسکول کی طرف سے شائع ہوا وہ Khandala Declaration کے نام سے معروف ہے۔ یہ 1996 میں کھنڈالا (مہاراشٹر)کے مقام پر منعقد ایکOrientation Programme کے دوران ترتیب پایا تھا اور Journal of Islamic Science میں شامل اشاعت ہوا۔ یہ ڈکلییریشن بنیادی طور پراس اسلامک ورلڈ ویو کی ترجمانی کرتا ہے جس کے زیر اثرماضی کے مسلم معاشرہ میں سائنس کی نشو نما ہوئی تھی اور جو آج بھی اس کی ترقی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ چنانچہ علی گڑھ اسکول کے نزدیگ paradigm کی اہمیت با الکل ابتدائی دور سے ہی واضح تھی۔ اس اسکول سے وابستہ افراد مختلف امور میں مختلف آراء ضرور رکھتے ہیں لیکن جن امور میں باہم اتفاق پایا جاتا ہے اور جن کی بنیاد پر علی گڑھ اسکول کو ایک اسکول آف تھاٹ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے انھیں ہم چند نکات میں بیان کرسکتے ہیں۔

(1)  سائنس ایک معاشرتی سرگرمی ہے اور معاشرہ کی روایتوں اور اس پر غالب اقدار سے متاثر ہوتی ہے۔ معاشرہ جن بنیادوں پر قائم ہے اور جو قدریں اس کے اجتماعی اداروں اور انفرادی رویوں کی نقشہ گری کرتی ہیں وہ سائنس کو بھی متاثر کرتی ہیں۔چنانچہ سائنس اجتماعی مقاصد کے حصول کا ایک ادارہ بھی ہے اور انفرادی عزائم کی بجا آوری کا ایک ذریعہ بھی۔ اس طرح سائنس کو قدروں سے محفوظ سمجھنا صحیح نہیں ہے بلکہ ایک بڑی حقیقت کا انکار کرنا ہے۔

(2) مذکورہ بالا نکتہ کو تسلیم کر لینے کے بعد یہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ مغربی جدید سائنس کی نقشہ گری میں مغرب کے ماحول اور مذہب کے تئیں اس کے رویئے نے اس پر گہرا تاثر چھوڑا ہے۔ مذہب سے اس کی مخاصمت،قدروں ( جن کا سرچشمہ مذہب ہی سمجھا جاتا ہے) کے تئیں اس کا رویّہ اور حصول علم کے باب میں Scientific Method پر حد سے زیادہ اصرار کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے اور یقیناً مغرب کی یہ سوچ کسی علم پر مبنی نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر مذہب کی مخالفت پر مبنی روایت سائنس کی ایک مضبوط عمارت کھڑی کرسکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مذہبی روایت اتنی یا اس سے زیادہ و مضبوط اور توانا سائنس کو جنم نہ دے سکے یا اس کی حوصلہ افزائی اور پرورش نہ کرسکے۔ چنانچہ علی گڑھ اسکول اسلام کی مذہبی اور فکری روایات کو ایک آفاقی سائنس کے ارتقاء کے لئے انتہائی حوصلہ افزا پا تا ہے۔

(3) مسلم معاشرہ میں قرآن کریم کی بنیادی اہمیت کے با وصف یہ فرد کی فکری رہنمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور معاشرہ کی ساخت اور فرد و معاشرہ میں کار فرماں اقدار حیات کا یہ سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔چنانچہ سائنس کرنے یا اس کے محاصل کو معاشرہ تک پہنچانے میں جو قدریں کار فرما ہو گی ان کی بنیاد قرآن کریم فراہم کرتا ہے۔مزید یہ کہ کائنات و فرد اور ان دونوں کے باہمی تعامل کے بارے میں قرآن کریم مخصوص نقطہائے نظر کا پابند بنا تا ہے۔ اسی طرح دوسری قرآنی تعلیمات بھی سائنس کو انفرادی اور معاشرتی سطح پر متاثر کریں گی۔ البتہ اس پورے Scenario میں سائنس کرنے والے فرد کے اپنے فہم اور Interpretationکو اہمیت حاصل ہو گی۔ ایسا کوئی ادارہ نہیں پایا جاتا جو قرآنی نقطۂ نظر کا آفیشیل فہم پیش کرنے کا مجاز ہو۔ البتہ فہم و ادراک کے لئے دوسروں کی آراء اور مشوروں سے استفادہ ممکن ہے۔

(4) قرآن کریم علم اور حسّی ذرائع برائے حصول علم کے بارے میں بڑی مثبت اور واضح نقط نظر رکھتا ہے۔ البتہ وہ یہ بھی تسلیم کراتا ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بعض میدان ایسے ہیں جہاں اسے رہنمائی کی ضرورت ہے اور وہ حسّی ذرائع پر مشتمل طریقہ کار اور عقل کے ذریعہ اس میدان کو مکمل طور پر سر نہیں کرسکتا۔چنانچہ وحی اس ضرورت کو پورا کرتی ہے۔لیکن وحی کے فہم میں بھی عقل اور حسّی ذرائع مددگار ہیں۔ قرآن کریم وحی کے ذریعہ حاصل شدہ عقائد کی بنیاد پر ایک World View کے ذریعہ معاشرتی یا فطرت کی تحقیق و جستجو میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔قرآن کریم متعدّد مقامات پر وضاحت کرتا ہے کہ کائنات اپنے وظائف میں قانون سے کبھی بغاوت نہیں کرتی۔ چنانچہ انسانوں کو بھی ایسی ہی روش اختیار کرنا چاہیے جو کائنات کے ساتھ ہم آہنگی پر قائم ہو تاکہ فساد سے محفوظ رہے۔ یہ ہم آہنگی در اصل World View کے تحت کام کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ بعض مفکرین نے Eco-functioning کائنات میں انسان کے Eco Action 26کی ضرورت کی طرف جو اشارہ کیا ہے وہ بھی اس ہم آہنگی کے پیش نظر ہے۔قرآن کریم سے انسان کی شعوری و فکری وابستگی دراصل اس کے مہیّا کردہWorld View کے تحت کام کرنے کو تسلیم کر لینا ہے جس کے نتیجہ میں دنیا کے معاملات ہوں یا کائنات کے ساتھ انسانی تعمّل، نتائج مکمل ہم آہنگ اور فساد و فتنہ سے پاک ہوتے ہیں۔

(5) علی گڑھ اسکول کے نزدیک قرآن انسانی ذہن کو ایک نقطۂ نظر سے مزّین کرنے کے ساتھ ساتھ گاہے بگاہے کچھ ایسے اشارے بھی دیتا ہے جو بعض اوقات اشیاء، انسانی رویّوں اور مظاہر فطرت کے بارے میں علمی تحقیقات کی ابتداء کرنے کے سلسلہ میں رہنمائی کرتے اور اسے سمت عطا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علی گڑھ اسکول ایسے اشاروں کو Paradigm تسلیم کرتا ہے اور یہاں سے علمی تحقیق کا آغاز کرنے کو حق بجانب تسلیم کرتا ہے۔ اس طرح کے اشارے محض سائنسی علوم میں نہیں بلکہ ٹکنالوجی کے ارتقاء کے بارے میں بھی پائے جاتے ہیں اور بشری و معاشرتی علوم میں بھی۔

(6) علی گڑھ اسکول سائنس اور دوسرے علوم میں آج تک کی جانے والی تحقیقات کو جو عقل انسانی اور حسّی ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے کی گئی ہیں بحیثیت مجموعی اور اصولی طور پر اسلامی معیار کے مطابق پاتا ہے اور اگر اس طرح کی کوئی سائنسی تحقیق قرآنی فکر سے متغائر محسوس ہوتی ہے تو وہ اسے قرآن کے منشاء کے فہم میں انسانی کمزوری کا شاخسانہ سمجھتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ علی گڑھ اسکول کے وابستگان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آج کی یہ تحقیق کل انسانی ذرائع وسائل میں اضافہ ہونے کے بعد ممکن ہے کہ غلط ثابت ہو جائے اور معیاری نہ رہے۔ البتہ جب تک ایسا نہیں ہو جاتا یہ تحقیق ہمارے نزدیک عملی پہلوؤں سے قابل قبول میں ر ہے گی۔ ہم پورے سائنسی حقائق کو دراصل Suspended facts کا درجہ دیتے ہیں جو زبان و مکان کی تبدیل کے ساتھ تبدیل ہوسکتے ہیں۔ لیکن جب تک زمان و مکان تبدیل نہیں ہوتے یہ حقائق کارآمد ہی رہتے ہیں۔

(7) علی گڑھ اسکول عملی سائنس کے نتائج کے بارے میں ایسی ہی مثبت رائے رکھتا ہے جیسی دوسرے افراد البتہ سائنس کی پالیسیوں اور سائنسی Products کے استعمال کے بارے میں اسلامی اقدار حیات کو انتہائی اہم اور ضروری تصور کرتا ہے۔

(8) اسلام اور سائنس میں ہم آہنگی کی تلاش ہمارے یہاں ایک بالکل ہی غیر حقیقی سوال ہے ہم سائنس کو اسلام کا ایک تقاضہ، قرآن کریم کا منشاء، اور فرض کفایہ سمجھتے ہیں۔اور اس سلسلہ میں نا کردگی ناشکری کے مترادف ہے۔بعض بظاہر غیر اسلامی سائنسی نقطہائے نظر، suspended truth ہونے کی بنا پر بہت زیادہ توجہ کے طالب نہیں ہوتے۔ Darwin کا نظریہ ارتقاء اور اسی طرح دوسرے ممکنہ نظریات کے بارے میں ہمارا خیال یہی ہے۔

(9) وجدانIntuition) ( جوحسین نصر کے نقطۂ نظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ علی گڑھ اسکول اسے ایک ذریعہ علم اس وقت ہی تسلیم کرتا ہے جب اس کے ذریعہ بہم پہنچائی گئی معلومات یا اشارے تجربہ و مشاہدہ کے ذریعہ صحیح ثابت ہو جائیں۔

چنانچہ ہمارے نزدیک وجدان حسّی ذرائع پر منحصر ایک ذریعہ علم ہے۔

سائنس اور اسلام کا معاملہ ایک علمی مباحثہ وہ تحقیق وجستجو کا موضوع بھی ہونے کے ساتھ دراصل فکر پر مشتمل عملی سرگرمیوں کا موضوع ہے اور علی گڑھ اسکول کی شناخت کا یہ وہ پہلو ہے جو دوسرے اسکول آف تھاٹ سے اسے ممتاز کرتا ہے۔ یہ امتیاز اس کی ابتداء کے تعارف سے توواضح ہوتا ہی ہے آج بھی اس کے وابستگان کی سرگرمیاں اس کی غمّاز ہیں جو اپنی فکری اور علمی سرگرمیوں میں اسلام اور سائنس کے موضوع پر expert سے زیادہ polymath نظر آتے ہیں۔

(ختم شد)

ڈاکٹر ذکی کرمانی 1950 میں بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ کیمسٹری میں اعلیٰ تعلیم پائی۔ ڈاکٹر کرمانی گزشتہ چار دہائیوں میں سائنس اور اسلام کی فکری بحث میں ایک اہم مفکر کے طور پر شریک رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا زیر نظر مقالہ اس موضوع پر خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی علمی افادیت کے پیش نظر اسے مکمل متن کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments