مندر کا شیر (1)


\"\"جو شخص کبھی دابیدھر نہیں گیا وہ اس کے گرد و پیش کے مناظر کے حُسن کا کبھی اندازہ نہیں کرسکتا۔ یہاں “پرماتما کے پہاڑ” کی چوٹی کے قریب ایک ریسٹ ہاؤس ہے۔ اس ریسٹ ہاؤس کے برآمدے میں کھڑے ہو کر آپ جِدھر نظر اٹھائیں گے آپ کو ازلی و ابدی حُسن کےطلسمی نظارے دکھائی دیں گے۔ ریسٹ ہاؤس سے دریائے پانار کی ڈھلان شروع ہو جاتی ہے۔ اس وادی سے پرے پہاڑیوں کا سلسلہ ابدی برف میں کھو جاتا ہے۔

نینی تال سے ایک غیر ہموار اور پیچیدہ سڑک لوہر گھاٹ کی طرف جاتی ہے جو دابیدھر کے اندر سے ہو کر گزرتی ہے۔ اسی سڑک کی ایک شاخ دابیدھر کو الموڑہ سے ملاتی ہے۔ اسی مؤخر الذکر سڑک پر میں پانار کے آدم خور چیتے کا شکار کھیل رہا تھا کہ مجھے محکمۂ تعمیرات کے اوورسیز نے بتایا کہ اس چیتے نے دابیدھر میں ایک شخص ہلاک کر دیا ہے۔ لہذا میں دابیدھر کی سمت چل پڑا۔

اپریل کی ایک گرم دوپہر کو ابھی میں دابیدھر کے ریسٹ ہاؤس میں پہنچا ہی تھا اور چائے سے خود کو تازہ دم کر رہا تھا کہ دابیدھر کے مندر کا پجاری میرے پاس آیا۔ دو برس پہلے جب میں یہاں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کا شکار کرنے آیا تھا تو اس بوڑھے نحیف و نزار آدمی سے میری دوستی ہو گئی تھی۔ وہ مقامی مندر کا پجاری تھا۔ تھوڑی دیر پہلے مندر کے قریب سے گزرتے وقت میں نے اسے سلام کیا تھا۔ مگر اس نے فقط سر ہلا کر جواب دینے میں اکتفا کیا تھا۔ کیونکہ اس وقت وہ عبادت میں مصروف تھا۔ اب عبادت ختم کر کے وہ میرے پاس آ گیا تھا اور برآمدے کے فرش پر بیٹھا میرے ساتھ گپ بازی میں مصروف تھا۔ میں بھی سفر کی تھکاوٹ کا مارا ہوا تھا اور ہلکی پھلکی گفتگو کے سوا کچھ نہ کرنا چاہتا تھا۔

پجاری سے مجھے پتا چلا کہ اوورسیز نے مجھے غلط بتایا تھا کہ دابیدھر میں چیتے نے ایک آدمی کو ہلاک کر دیا تھا۔ وہ آدمی اس پجاری کا\"\"    مہمان تھا اور اس نے رات اس کے پاس مندر میں ہی بسر کی تھی۔ وہ شخص پجاری کی نصیحت کے خلاف رات کو باہر مندر کے چبوترے پر سوگیا تھا۔ نصف شب کے قریب جب مندر کے گرد و پیش کی چٹانیں مندر پہ سایہ فگن تھیں تو آدم خور چیتا رینگتا ہوا اس جگہ آیا اور اس چبوترے پر سوئے ہوئے شخص کا ٹخنا پکڑ کر اسے گھسیٹنے کی کوشش کی۔ وہ شخص ہڑبڑا کر اٹھا اور قریبی الاؤ سے سلگتی ہوئی ایک لکڑی پکڑ کر چیتے کو مار بھگایا۔ اس کے شور سے مندر کے اندر سوئے ہوئے بعض دوسرے پجاری بھی جاگ اٹھے۔ وہ ایک دم اس کی مدد کو پہنچ گئے۔ اپنے لیئے صورتحال خطرناک دیکھ کر چیتا راہِ فرار اختیار کر گیا۔ اس شخص کے زخم زیادہ تشویش ناک نہ تھے۔ گاؤں کے وید نے ان پر بعض جڑی بوٹیوں کا مرہم لگا دیا جس کے بعد وہ آگے اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔

پجاری کی یہ باتیں سن کر میں نے دابیدھر ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا۔ گرد و پیش کے دیہات کے لوگ ہر روز مندر میں اور وید کی دوکان پر آیا جایا کرتے تھے۔ یہ لوگ میری آمد کی خبر چاروں طرف پھیلا سکتے تھے اور جب آدم خور چیتا کسی انسان یا جانور کو ہلاک کرتا تو لوگوں کو مجھے تلاش کرنے میں آسانی رہتی۔

جب بڈھا پجاری شام کے قریب مجھ سے رخصت ہونے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ گرد و پیش کے علاقے میں کون سی جگہ شکار کے لیئے موزوں رہے گی۔ کیونکہ میرے آدمیوں نے کئی دن سے گوشت نہ چکھا تھا اور دابیدھر میں کسی قیمت پر گوشت ملنا محال تھا۔

“جی ہاں ” اس نے جواب دیا۔ “یہاں مندر کا شیر جو ہے۔ ”\"\"

میری اس یقین دہانی پر کہ اس کے شیر کو ہلاک کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ، اس نے ایک قہقہہ لگا کر کہا “جناب آپ اسے بےشک ہلاک کر دیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر نہ تو آپ اور نہ ہی کوئی دوسرا شکاری، اسے ہلاک کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکے گا۔ ”

اور اس طرح مجھے دابیدھر کے مندر کے شیر کا پتہ چلا جس نے مجھے شکار کا ایک دلچسپ ترین تجربہ بخشا اور جسے میں اب آپ کے سامنے بیان کروں گا۔

اگلی صبح میں لوہر گھاٹ کی طرف اس غرض سے نکل گیا کہ آدم خور چیتے کے پنجوں کے نشان تلاش کرسکوں یا س کے متعلق گرد و پیش کے دیہات کے لوگوں سے کچھ اطلاعات لے سکوں کیونکہ چیتا رات کو اس مسافر پر حملہ کر کے اس سمت گیا تھا۔ جب میں دوپہر کو کھانے کی غرض سے ریسٹ ہاؤس میں آیا تو میں نے ایک شخص کو اپنے ایک ملازم سے باتیں کرتے دیکھا۔ اس آدمی نے مجھے بتایا کہ اس کا نام بالا سنگھ ہے۔ رات کو اسے پجاری سے پتا چلا تھا کہ میں شکار کھیلنا چاہتا ہوں اور وہ مجھے چند بارہ سینگوں کا اتا پتا دینے آیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ کھانے کے بعد میں اس کے ساتھ جاؤں گا۔ کھانے کے بعد حسب وعدہ میں اس کے ساتھ ہولیا۔ میرے پاس بالکل نئی بندوق تھی جو کچھ عرصے پہلے میں نے کلکتہ سے اپنے ایک اسلحہ فروش دوست کی دوکان سے خریدی تھی۔ وہ بندوق مارکیٹ میں بالکل نئی تھی اور لوگ اس کے نام سے پہلے واقف نہ ہونے کی بنا پر اسے خریدنے سےگریز کرتے تھے۔ میں نے بھی وہ بندوق اس شرط پر خریدی تھی کہ اگر وہ خاطر خواہ نتائج برآمد نہ کرسکی تو میں اسے واپس کر جاؤں گا۔

دابیدھر کے جنوب کی سمت کی پہاڑیوں کی ڈھلوان شمال کی پہاڑیوں کی ڈھلوان کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔ ہم دیودار کے درختوں میں\"\" سے گزرتے ہوئے شمال کی سمت ہی جا رہے تھے۔ وادی کی مشرق کی سمت، گھاس کے ایک قطعے کی طرف جو گنجان جنگل سے گھرا ہوا تھا اشارہ کرتے ہوئے اس شخص نے کہا کہ بارہ سینگے یہیں گھاس چرنے آتے ہیں۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اسوادی کی دائیں طرف ایک پگڈنڈی ہے جو دابیدھر اور اس کے گاؤں کو آپس میں ملاتی ہے۔ اور اس پگڈنڈی سے اس نے بارہ سینگوں کو اس گھاس کے قطعے میں گھومتے پھرتے دیکھا تھا۔ میری رائفل پانچ سو گز تک مار کر سکتی تھی۔ چونکہ اس پگڈنڈی اور گھاس کے قطعے کا درمیانی فاصلہ بمشکل تین سو گز تھا۔ لہذا میں نے وہیں بیٹھ کر شکار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

جب ہم وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو میں نے سامنے قدرے بائیں طرف چند گِدھ آسمان پہ منڈلاتے دیکھے۔ میں نے اپنے ساتھی کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔ جس پر اس نے کہا کہ گھاس کے قطعے کی دوسری طرف ایک گاؤں ہے۔ ممکن ہے وہاں کوئی مویشی مرگیا ہو اور گِدھ اس کی لاش کو ہضم کرنے کی فکر میں ہوں۔ اس کی اس تشریح سے میری تسلّی نہ ہوئی اور ہم دونوں اس گاؤں کی سمت چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ گاؤں فقط ایک جھونپڑی پر مشتمل تھا۔ جھونپڑی سے پرے کچھ فاصلے پر ایک بیل مرا پڑا تھا اور گِدھ اس کا گوشت نوچ رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ایک شخص جھونپڑی سے باہر نکلا۔ ہمارا پُر تپاک خیر مقدم کرنے کے بعد اس نے پوچھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں نینی تال سے آدم خور چیتے کا شکار کرنے آیا ہوں تو اس نے بڑے تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ کاش اسے کل میری آمد کا پتہ چل جاتا “تب آپ اس شیر کا شکار کرسکتے تھے جس نے میرا بیل ہلاک کیا ہے۔ ” اس نے مجھے بتایا کہ اس کے پندرہ مویشی کھیت میں بندھے ہوئے تھے۔ رات کو شیر آیا اور اس کا ایک بیل ہلاک کر گیا۔ اس کے پاس کسی قسم کا اسلحہ نہیں تھا۔ لہذا وہ بے چارگی کے عالم میں بیل کو شیر کی نذر ہوتا دیکھتا رہا۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ اگر اسے یہ معلوم تھا کہ دابیدھر کے علاقے میں شیر رہتا ہے تو پھر اس نے اپنے مویشی کھُلے کھیت میں کیوں باندھے۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ اس سے پیشتر شیر نے کبھی کسی پالتو مویشی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔\"\"

جب میں وہاں سے جانے لگا تو اس شخص نے پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ بارہ سینگوں کا شکار کرنے۔ اس پر وہ ملتجی لہجے میں کہنے لگا کہ اس وقت میں بارہ سینگوں کا خیال ترک کر کے شیر کا شکار کروں ، “آپ جانتے ہیں کہ میری ملکیت بہت چھوٹی سی ہے۔ اگر شیر اسی طرح میرے بیلوں بھینسوں کو ہلاک کرتا رہا تو میں اور میرے بال بچے بھوکوں مر جائیں گے۔ ”

گِدھ مُردہ بیل ختم کر چکے تھے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ کیونکہ گزشتہ رات شیر کو اپنے شکار کی خاطر کسی قسم کی دقّت نہ اٹھانی پڑی تھی۔ اس بنا پر میرا خیال تھا کہ وہ آج رات کو بھی آئے تھے۔ میرا ساتھی بھی اب بارہ سینگوں کے بجائے شیر کے شکار کو ترجیع دینے لگا تھا۔ میں ان آدمیوں کو وہیں چھوڑ کر یہ معلوم کرنے کی خاطر چل پڑا کہ شیر کس سمت گیا تھا۔ چونکہ گاؤں کے آس پاس کوئی درخت نہ تھا جس پر میں اپنی مچان تیار کرسکتا تھا۔ لہذا میں چاہتا تھا کہ شیر کو اُس کی واپسی پر راستے میں ہی جا ملوں۔ وہاں کی زمین بڑی سخت تھی جس پر شیر کے پنجوں کے نشانات دکھائی نہ دیتے تھے۔ دو دفعہ گاؤں کے چکر کاٹنے کے بعد میں پاس ہی بہنے والی برساتی ندی کی سمت چل پڑا۔ وہاں ہموار و نم دار زمین پر ایک بڑے شیر کے پنجوں کے نشان موجود تھے۔ ان نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ شیر اپنا شکار کھانے کے بعد ندی کی بالائی سمت گیا تھا اور یہ فرض کر لینا بےجا نہ تھا کہ وہ اسی سمت سے واپس آئے گا۔ جھونپڑی وہاں سے کوئی تیس گز کے فاصلے پر تھی۔ ندی کے جس کنارے پر میں نے شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے۔ وہیں ایک دیودار کا درخت تھا جس پر جنگلی گلاب کی ایک بیل چڑھی ہوئی تھی۔ درخت کی ایک موٹی سی شاخ ندی پر جھکی ہوئی تھی۔ رائفل کو زمین پر رکھ کر میں درخت کے اوپر چڑھ گیا اور اس کا بغور معائنہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ وہاں دو شاخوں کے درمیان بڑے آرام سے بیٹھا جا سکتا ہے۔

جھونپڑی میں واپس آ کر میں نے ان دونوں دیہاتیوں کو بتایا کہ میں اپنی بھاری رائفل لینے کی خاطر ریسٹ ہاؤس جا رہا ہوں۔ لیکن میرے راہبر\"\" نے بڑی زندہ دِلی سے کہا کہ میں یہ تکلیف نہ کروں ، وہ خود ہی میری رائفل لے آئے گا۔ اسے ضروری ہدایات دینے کے بعد میں اس دیہاتی کے پاس بیٹھ گیا اور اس کی باتیں سننے لگا کہ اسے کس طرح اپنے سر پر گھاس پھوس کی چھت کا سایہ قائم رکھنے کے لیے فطرت اور جنگلی جانورو ں سے نبرد آزمائی کرنی پڑتی ہے اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور کیوں نہیں چلا جاتا تو اس نے بڑی سادگی ے کہا، “یہی تو میرا گھر ہے”۔

سورج غروب ہونے کے قریب تھا کہ میں نے جھونپڑی ی سمت دو آدمی آتے دیکھے۔ ان میں سے کسی کے پاس بھی بندوق نہ تھی۔ ان میں سے ایک بالا سنگھ تھا۔ جس نے ہاتھ میں لالٹین اٹھا رکھی تھی۔ بالا سنگھ نے مجھے بتایا کہ وہ میری بھاری رائفل نہ لا سکا تھا کیونکہ اس کے کارتوس سُوٹ کیس میں بند تھے اور میں اس سُوٹ کیس کی چابی بھیجنا بھول گیا تھا۔ لہذا اب شیر کو نئی رائفل ہی سے شکار کیا جا سکتا تھا۔

درخت پر چڑھنے سے پہلے میں نے کسان سے کہا کہ میری کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ اپنے دونوں بچوں کو خاموش رکھے اور بیوی کو اس وقت تک چولہا نہ جلانے دے جب تک میں شیر شکار نہ کر لوں یا جب تک یہ فیصلہ نہ کر لوں کہ شیر نہیں آ رہا۔ بالا سنگھ کو میں نے یہ ہدایت دیں کہ وہ جھونپڑی کے مکینوں کو خاموش رکھے اور جب میں سیٹی بجاؤں تو لالٹین روشن کر دے۔ اس کے بعد میری مزید ہدایات کا منتظر رہے۔

(جاری ہے)

 (کرنل جم کار بٹ کی کتاب “Temple Tiger & More Man-Eater of Kumaon” کے پہلے باب “Temple Tiger” کا یہ ترجمہ انیس الرحمٰن صاحب نے کیا ہے اور اسے بزم اردو کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments