طیّبہ کا ایک جج کے سامنے بیان


\"\"میں طیّبہ ہوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں کس کی بیٹی ہوں، کس قوم کی ہوں اور میری ذات کیا ہے۔ میرے جسم کے زخم میرے تعارف کے لئے اگر کافی نہیں تو میرے پاس الفاظ بھی نہیں آپ کو سمجھا نے کے لئے۔ مجھے اس سے بھی سروکار نہیں کہ جو مجھے اپنی بیٹی کہتے ہیں میں ان کی کیا لگتی ہوں۔ نہ مجھے پیدا ہونے کی خوشی تھی نہ مرنے کا غم۔ میں آج آپ کی عدالت میں کھڑی ہوں تو یہاں بھی میں اپنی مرضی سے نہیں آئی۔ آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ آپس میں بات کر ہے تھے تو میں میں نے سنا کہ مجھے یہاں تک میڈیا والوں کے شور مچانے پر لایا گیا ہے اور وہ یہ واویلا اپنی ریٹینگ بڑھانے کے لئے کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ میڈیا کیا ہے اور ریٹینگ کیا ہوتی ہے۔ بس میں اتنا جانتی ہوں کہ پچھلے چند دنوں سے میرا خیال رکھا جارہا ہے، پیٹ بھر کر کھانے کو بھی دیا جارہا ہے اور مارا بھی نہیں جاتا جو مجھے خواب سا لگتا ہے۔ مجھے بتا دیا گیا ہے کہ اس کے بدلے مجھے کیا کرنا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ ایسا نہ کرنے کی کیا قیمت چکانی ہے۔

جناب عالی! ہم جیسے لوگ پیدا ہی آپ جیسے لوگوں کی خدمت کرنے اور مار کھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ ہم جب ہوش سنبھالتے ہیں تو ہمیں بتا دیا جاتا ہے کہ یہ دنیا ان کی ہے جو ہمیں روٹی دیتے ہیں، کپڑے دیتے ہیں اور سائبان دیتے ہیں۔ ہماری اوقات تو آپ کے گھروں میں پلنے والے کتے اور بلیوں جتنی بھی نہیں جو آپ کے صوفوں پر بیٹھ سکتے ہیں جس کی ہمیں اجازت نہیں۔ ہم میں اور رینگنے والے کیڑے مکوڑوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ کسی کام کے نہیں ہوتے اس لئے ان کو آپ تلف کردیتے ہیں اور ہمیں زندہ صرف کام کرتے رہنے کی شرط پر رکھا جاتا ہے۔ جب ہم کام کرنا بند کر دیتے ہیں تو ہماری سانس بھی بند کردی جاتی ہے۔ آپ تو پڑھے لکھے ہیں اخباروں میں پڑتھے ہی ہوں گے کہ ہمارے جیسوں کی جھگیوں میں کیسے آگ لگ جاتی ہے جہاں جھلس کر ہم مر جاتے ہیں اور کتنی فیکٹریوں میں لوگوں کو زندہ جلادیا جاتا ہے۔ یہ سب ان سے الگ ہیں جو خودکشی کرلیتے ہیں یا ان کے شوہر، بھائی اور باپ غربت سے تنگ آکر گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔ موت اور پیدائش ہمارے ہاں ایک واقعہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ پیدا ئش کے بعد پیدا کرنے والوں کو جلدی ہوتی ہے کہ ہم کہیں کام پر لگ جائیں اور اپنے پیدائش کا قرض چکالیں۔ پھر اگر کسی کے ساتھ شادی بھی ہو جاتی ہے تو وہ رہی سہی قیمت ادا کرتا ہے اور دس گنا وصول کر لیتا ہے۔

حضور والا! آپ کی شہر کی سڑکوں پر بھیک مانگتے بچے تو آپ کو نظر آتے ہی ہوں گے یہ بھی میری طرح اپنی مرضی سے بھیک نہیں مانگتے ہیں نہ ان کو یہ معلوم ہے کہ ان کی کوئی مرضی بھی ہے کیونکہ ان کے پاس انکار کی گنجائش نہیں۔ کئی ایک کی ٹوٹی ہوئی ٹانگیں، بازو بھی آپ کو نظر آئیں گے یہ بھی ان کی مرضی سے نہیں ٹوٹے ہیں بلکہ ان کی کمائی بڑھانے کے لئے ان کے پیدا کرنے والوں نےیا خریدنے والوں نے توڑ دیے گئے ہیں۔ اگر اور زیادہ غور سے دیکھنے کی توفیق ہو تو آپ کو معلوم ہوگا ان کے گردے بھی کم ہیں جو آپ جیسے زندگی کے اصل حقداروں کی جان بچانے کے کام آئے ہیں۔ جب رات کو سردی اور گرمی میں ان کو نیند نہیں آتی ہے تو یہ آپ کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے پٹرول نکال کر سونگتے ہیں اور نیم بے ہوشی کی حالت میں سو جاتے ہیں یا پھر موچی کی نظروں سے چھپا کر چرائی صمد بونڈ کی ٹیوب سونگتے ہیں۔ کئی ایک تو پٹرول اور صمد بونڈ سونگنے سے مر بھی جاتے۔ اگر مر گئے تو میونسپلٹی والے کہیں گڑھا کھود کر ان کی لاش پر مٹی ڈال دیتے ہیں جس کو کتے اس رات نکال کر دعوت اڑاتے ہیں۔

جناب عالی! اگر کوئی بچ بھی گیا تو جب تک زندہ ہے بکتا رہتا ہے۔ لڑکیاں یہاں ایک سے دوسرے ہاتھ فروخت ہوتی ہوئی کبھی کہاں اور کبھی کہاں پہنچ جاتی ہیں۔ آپ کے شہروں میں جو قحبہ خانے ہیں وہ ہماری ہی دم خم سے تو چلتے ہیں۔ آپ کی حفاظت کرنے والی پولیس وہاں کبھی کبھار ان بدنام جگہوں پر چھاپے بھی مارتی ہے اور ان بکنے والے جسموں کو تھانوں میں بند بھی کرتی ہے جن کو عدالت سے ان کے خریدار ضمانت کروا کر لے جاتے ہیں اور اپنی قیمت دوگنی کرکے وصول کرتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ کون کس کی ضمانت کیوں دے رہا ہے لیکن پھر بھی ہمارا سودا سر عام ہوتا ہے۔ ہمارے بھائیوں کی بھی قسمت ہم سے بہتر نہیں ہوتی جن کا جسمانی اور نفسیاتی استحصال ہم سے کم نہیں ہوتا۔ آپ نے سنا تو ہوگا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کی اونٹوں کی دوڑ میں نکلتی چیخوں سے مقدس شیخ کس طرح لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آپ قصور،لاہور اور سوات میں اپنے جیسے شرفاء کے بچوں کی بنتی ننگی فلموں کو نہ روک سکے تو ہم جیسے رینگتے کیڑے مکوڑوں کی اوقات کیا ہے کہ آپ ہمارے اوپر ہونے والے ظلم کو روکیں گے۔

جناب والا! مجھے کس نے مارا اور کیوں مارا اس پر آپ کے نوٹس لینے سے میرے جیسے بچوں پر پڑنے والی مار کم نہیں ہوگی اور نہ ان کی خرید و فروخت ختم ہوگی۔ جب سے آپ نے یہ نوٹس لیا ہے اس کے بعد بھی کئی ایک نے ایسے زخم کھائے ہوں گے لیکن ہر جگہ ایسے ہمسائے نہیں ہوتے جو پولیس کو اطلاع دیں اور طیبہ کو بچالیں۔ یہاں تو تڑپتی لاشیں دیکھ کر لوگ منہ موڑ لیتے ہیں کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ مجھ پر ظلم کرنے والے ہاتھوں کو آپ نے توڑ بھی دیا تو میرا نصیب بدلنے والا نہیں۔ مجھے یہاں سے جاکر پھر کسی کے گھر پر کام کرنا ہے، برتن مانجھنے ہیں، جاڑو دینا ہے۔ ہر ٹوٹتے برتن اور گم جاتے جاڑو کے ساتھ مار میرے نصیب میں لکھی ہوئی ہے جس کو آپ بدل نہیں سکتے۔

حضور! اس سماج کو بدلنا تو آپ کی بس کی بات نہیں لگتی جہاں سب انسان کہلانے والے دو پائے برابر ہوں۔ اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو میرے جیسوں کو پیدا ہونے سے روکیں۔ جب تک میری جیسی جنم جلی پیدا ہوتی رہے گی وہ مار کھاتی رہے گی اور آپ جیسے مصروف جج کا وقت بھی ضائع کرتی رہے گی جس کی عدالت میں پہلے سے کروڑوں اور اربوں کے معاملات حل طلب ہیں جو اس سماج کو چلانے کے لئے ضروری ہیں نہ کہ مجھ جیسی جس کو آپ کے معاشرے نے شناختی کارڈ کا نمبر بھی نہیں دیا ہے کیونکہ میں قانونی طور پر پیدا ہی نہیں ہوئی۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments