نیشنل ایکشن پلان اور مسنگ بلاگر


\"\"

دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے دو طریقہ علاج بیک وقت آزمانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر جب انفیکشن کی وجہ سے بخار ہوتا ہے، تو بخار کی شدت کم کرنے کے لئے ڈسپرین دی جاتی ہے۔ یہ دوائی مرض کی علامت کو تو وقتی طور پر ختم کر دیتی ہے اور مریض کو راحت پہنچاتی ہے، مگر مرض اپنی جگہ موجود ہوتا ہے اور زیادہ شدت اختیار کرتا رہتا ہے۔ اس لئے مرض کا علاج کرنے کی خاطر ڈسپرین کے ساتھ اینٹی بائیوٹک بھی دی جاتی ہے۔

یہی معاملہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مرض کے علاج کا بھی ہے۔ مریض کو وقتی راحت پہنچانے کی خاطر ہماری سیکیورٹی فورسز طاقت کے زور پر اس بخار کا علاج تو کر دیتی ہیں، مگر یہ مرض تو فکری گمراہی کے جراثیم کی وجہ سے ہوتا ہے، ان جراثیم کو ختم کرنے کے لئے ان کا خاتمہ فکری محاذ پر کیا جائے تو پھر ہی مرض کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔

بدقسمتی سے نیشنل ایکشن پلان میں ڈسپرین تو دی گئی ہے، مگر اینٹی بائیوٹک کا اس نسخے میں ذکر ہی نہیں ہے۔ یہ اینٹی بائیوٹک ہماری قوم کو منطقی انداز میں سوچنے کی عادت ڈالنے، انسانی جان کی حرمت کا احساس کرنے اور اسلام کی تعلیمات کو درست طور پر سمجھنے کی تعلیم دینے کا نام ہے۔

ہماری قوم کو رواداری اور اختلاف رائے برداشت کرنے کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ نہ تو نصابی طور پر اور نہ ہی منبر و محراب سے یہ تعلیم دی جا رہی ہے۔ لے دے کر پھر سوشل میڈیا ہی رہ جاتا ہے جہاں عام شہری وہ کام کر رہے ہیں جو کہ نیشنل ایکشن پلان میں حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے تھی۔

آئین پاکستان ہماری مملکت کی مقدس دستاویز ہے۔ یہ ہر شہری کو جان، مال، عقیدے اور آزادی کے تحفظ کا یقین دلاتی ہے۔ کسی شہری کی آزادی، صرف ملکی قانون کے تحت مجرم قرار پانے پر ہی چھینی جا سکتی ہے۔

ایسے میں جب پے در پے خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ سوشل میڈیا پر انتہا پسندی کے خلاف سرگرم ہیومن رائٹس بلاگرز کو غائب کیا جا رہا ہے تو صورت حال تشویش ناک ہو جاتی ہے۔ چودھری نثار نے سینیٹ میں اس معاملے پر بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت شہریوں کو غائب نہیں کرتی ہے اور وہ ان افراد کی رہائی کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں سے رابطے میں ہیں تاکہ ان کے تعاون سے بازیابی ممکن ہو سکے۔

دوسری طرف سوشل میڈیا پر یہ تاثر عام پھیلا ہوا ہے کہ ان چاروں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گرفتار کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان بلاگرز کے خلاف افواہیں بھی پھیلائی جا رہی ہیں کہ وہ ایسے سوشل میڈیا پیج چلا رہے تھے جو کہ اسلام اور افواج پاکستان کے خلاف مواد پبلش کرتے ہیں۔ اگر اس بات کا کوئی ثبوت ہے، اور اس الزام پر ان کو گرفتار کیا گیا ہے، تو پھر سائبر کرائم لا یا بلاسفیمی لا کے تحت ان پر مقدمہ درج کیا جائے اور الزام ثابت ہونے پر ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ان قوانین کے تحت تو موت تک کی سزا کی گنجائش موجود ہے۔

اگر اس بات کا ثبوت موجود نہیں ہے کہ ان افراد کا تعلق ان پیجز سے ہے، تو پھر سنی سنائی افواہوں پر گرفتار کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان افراد سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے اور ان کو قانون کا تحفظ فراہم کیا جائے۔ اگر ان کو کسی شخص یا تنظیم نے اغوا کیا ہے، تو پھر ریاستی ادارے اپنے شہریوں کو وہ تحفظ فراہم کریں جس کا آئین ان سے وعدہ کرتا ہے اور ان کی جلد از جلد بازیابی کو یقینی بنائیں۔

ان بلاگروں کے تناظر میں ہمیں جنید حفیظ کا کیس بھی یاد رکھنا چاہیے۔ جنید حفیظ پر بھی یہی الزام لگایا گیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر ایک توہین آمیز آئی ڈی چلا رہے ہیں جو کہ بلاسفیمی کی مرتکب ہے جبکہ کئی برس گزر جانے کے باوجود بھی جنید حفیظ کا تعلق اس آئی ڈی سے ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ کیا ہماری قوم یہ برداشت کر سکتی ہے کہ بلاثبوت کسی بھی شخص کو کسی بھی سوشل میڈیا آئی ڈی سے نتھی کر دیا جائے اور اسے انصاف سے محروم کیا جائے؟ اس طرح تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

ہمیں یہ بات بھی بتائی جاتی ہے کہ ریاستی ادارے کسی بھی شخص کو ثبوت کے بغیر گرفتار نہیں کرتے ہیں لیکن ان کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ کمزور عدالتی نظام اور قانونی گنجائشوں کے باعث یہ افراد عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسی قانون سازی کرے جس سے ان اداروں کو دہشت گردوں سے نمٹنے میں سہولت ہو اور کسی بھی صورت میں کسی شہری کو ماورائے قانون حراست میں نہ لیا جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments