محی الدین نواب …. کیا کہانی مر گئی؟


\"fazleفضل ربی راہی

ڈائجسٹ کی دنیا کی سحر انگیز اور آفاقی شخصیت محی الدین نواب بھی ابدی نیند سو گئے۔ کون ہے وہ شخص جو کہانیاں پڑھنے کا رسیا ہو، کتاب کی قربت جسے عزیز ہو اور اس نے محی الدین نواب کی طویل ترین کہانی ”دیوتا“ کی کوئی قسط نہ پڑھی ہو یا ”دیوتا“ اور اس کے لکھنے والے سے واقف نہ ہو۔ دیوتا کے علاوہ محی الدین نواب ”سسپنس ڈائجسٹ“ میں ایک طویل کہانی بھی لکھتے تھے اور یہ کہانی بھی اس قدر دل چسپ ہوتی کہ اس کی گرفت پڑھنے والے کو جکڑ لیتی۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ دیوتا کے خالق مصور بھی تھے، شاعری کا بھی اعلیٰ اور ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ کئی فلموں کے سکرپٹ لکھے جن میں مشہور’جو ڈر گیا، وہ مرگیا‘ ہے۔ انھوں نے جب لکھنا شروع کیا تو ابتدا میں کئی رومانی ناول بھی لکھے اور یہ ناول ایک خاتون کے نام سے شائع ہوتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس زمانے میں رومانی ناول بہت پسند کئے جاتے تھے اور اگر کوئی ناول کسی خاتون مصنفہ کا لکھا ہوا ہوتا تو اسے بہت جلد مقبولیت حاصل ہو جاتی۔

محی الدین نواب سے مجھے پہلی دفعہ سوات میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ یہ 2006ءکا سال تھا۔ میں انگلینڈ سے اپنے وطن اور اپنی جنم بھومی سوات کی محبت میں واپس آیا تھا اور میرا خیال تھا کہ اپنا وطن انگلینڈ اور میرا سوات لندن سے زیادہ خوب صورت ہے۔ اس کی مٹی میں کوئی ایسی تاثیر پنہاں ہے جس کے مقابل انگلینڈ کی چکاچوند ماند پڑ جاتی ہے، اس کی سحرانگیزیاں لندن کی رنگینیوں اور رعنائیوں سے زیادہ فسوں خیز ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب سوات میں ملا فضل اللہ نے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے غیر قانونی ایف ایم ریڈیو کے ذریعے مام ڈھیرئ، مینگورہ اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں اپنے زہریلے اثرات پھیلا دئیے تھے۔ محی الدین نواب کو کوئی ایسی بیماری لاحق تھی جس کے لیے ڈاکٹروں نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ گرمی کا موسم کسی صحت افزا مقام پر گزارا کریں۔ اس سلسلہ میں وہ پہلی دفعہ سوات 2005ءمیں آئے تھے اور گرمی کے پانچ چھ مہینے گزار کر واپس چلے گئے تھے۔ دوبارہ جب 2006ءمیں سوات آئے تو میں سوات میں تھا اور سوات میں چوں کہ میری کتابوں کی دکان اور پبلشنگ ادارہ ہے، اس لیے ان کا میرے پاس آنا یا میرا ان کے پاس جانا لازمی تھا۔ ان کے ہمراہ ان کی دو بھانجیاں تھیں جو ان کا خیال رکھتی تھیں۔ ایک کا نام کشور سلطانہ تھا جو خود بھی لکھتی تھیں اور نواب صاحب ان کی کہانیوں کی نوک پلک سنوارتے تھے۔

محی الدین نواب کو اپنی طویل ترین کہانی ”دیوتا“ کے سارے کردار ازبر تھے۔ اپنی بیماری کی وجہ سے وہ لکھنے سے قاصر تھے، اس لیے وہ ’دیوتا‘ کی ہر قسط لکھنے کی بجائے بول کر ٹیپ ریکارڈ میں محفوظ کرتے تھے اور اپنی ٹیپ شدہ کہانی ’سسپنس ڈائجسٹ‘ بھیجتے تھے، جہاں اس کی کمپیوٹر پر ٹائپنگ ہوتی تھی۔ میری پبلشنگ کمپنی میں ایک سیکشن کمپوزنگ اور ٹائپنگ کا بھی تھا، جب انھوں نے دیکھا کہ میرے آفس میں ماہر کمپیوٹر ٹائپسٹ موجود ہیں تو میں نے ان کے مطالبے پر ایک ٹائپسٹ کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ ’دیوتا‘ کی ہر نئی ٹیپ شدہ قسط ٹیپ ریکارڈر میں چلاکر کمپیوٹر پر ٹائپ کرلیا کرے۔ یوں دیوتا کی پانچ چھ قسطیں میرے آفس میں ٹائپ ہوکر ای میل کے ذریعے ”سسپنس ڈائجسٹ“ کے آفس میں پہنچ گئی تھیں۔ اس کے لیے وہ میرا شکریہ ادا کرتے تھے لیکن میں اسے باعث افتخار سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے نامور کہانی کار کی مشہور زمانہ کہانی ’دیوتا‘ کی نئی قسط میرے آفس میں ٹائپ ہوتی ہے اور میرے ذریعے ’سسپنس ڈائجسٹ‘ کے آفس ای میل کے ذریعے پہنچ جاتی ہے۔ یہاں یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد خود نمائی نہیں ہے بلکہ نواب صاحب کی اس صلاحیت کو قارئین کے علم میں لانا مقصود ہے جس کے تحت وہ دیوتا کی قسطیں لکھتے نہیں تھے بلکہ زبانی طو رپر کہہ کر ٹیپ ریکارڈ میں محفوظ کرتے تھے۔ اس سے ان کے تیز حافظہ اور کہانی کہنے کی حیرت انگیز صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

\"phpThumb_generated_thumbnail\"محی الدین نواب ایک عظیم لکھاری تھے، بے مثل کہانی کار تھے، ان کے پڑھنے اور انھیں چاہنے والوں کا حلقہ حیران کن حد تک وسیع تھا۔ لیکن شہرت کی اتنی بلندیوں پر ہونے کے باوجود ان میں غرور نامی کوئی چیزموجود نہیں تھی۔ وہ نہایت خاموش طبع اور مرنجاں مرنج انسان تھے۔ تاہم انھیں انسانی نفسیات پر انتہائی عبور حاصل تھا اور اس کا اظہاران کی کہانیوں میں بہ خوبی جھلکتا ہے۔ وہ کہانی کے تانے بانے ایسے بنتا اور کرداروں کی پرداخت ایسی کرتا تھا کہ پڑھنے والا اپنے قرب و جوار سے بے گانہ ہوکر اس میں کھو جاتا ہے۔ کہانی کے فن کو انھوں نے بام عروج تک پہنچایا تھا اور اپنے لیے لکھنے کا ایسا نادر اسلوب وضع کیا تھا جو محض ان کا تھا، کوئی اور کہانی کار اس اسلوب کی نقل تو کرسکتا ہے لیکن اسے نواب کی طرح برت نہیں سکتا۔مگر افسوس وہ ایک ایسے ملک کے باسی تھے جہاں محی الدین نواب جیسے قانع اور خاموش طبع انسانوں کو سرکاری سطح پر کوئی ایوارڈ، کوئی اعزاز نہیں دیا جاتا، ان کے فن اور صلاحیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہاں تک کہ ان کی شاہکار کہانیوں اور مقبول عام کتابوں کو ادبی معیار کا حامل بھی نہیں سمجھا جاتا۔ نواب صاحب تو ویسے بھی شور و غل اور محفلوں سے پرہیز کرتے تھے لیکن کبھی سننے میں نہیں آیا کہ ان کے اعزاز میں کوئی پروگرام منعقد کیا گیا ہو، جس میں ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہو اور ان کی کہانی لکھنے کے فن کا جائزہ لیا گیا ہو۔ ہمارے ہاں ایسی غیرمعمولی شخصیات کی قدر کرنے کی کوئی روشن روایت موجود نہیں۔

سوات میں محی الدین نواب کے بے شمار چاہنے والے تھے۔ بے شمار لوگ ان سے ملاقات کے لیے آتے لیکن انھوں نے کبھی مصروفیت کا بہانہ نہیں بنایا، سب سے نہایت تپاک سے ملتے۔ ہماری درخواست پر ادبی پروگراموں میں بھی شریک ہوتے رہے اوران ہی ادبی پروگراموں میں ان کی موجودگی ہمارے لیے باعث طمانیت ہوتی۔ 2007ءمیں جب وہ گرمی کے موسم میں سوات تیسری دفعہ آئے تو اس وقت سوات میں طالبانائزیشن کے منحوس سایے پورے علاقے میں پھیل چکے تھے۔ عوامی زندگی میں خوف و ہراس جنم لے چکا تھا۔ فوجی آپریشن کے امکانات ظاہر کیے جا رہے تھے، اس لیے نواب صاحب سوات میں چند مہینے گزار کر واپس کراچی چلے گئے اور اس کے بعد انھوں نے سوات کا ر±خ نہیں کیا۔ البتہ سوات میں جب شورش اور بدامنی بڑھ گئی تو نواب صاحب اور ان کی بھانجی کشور سلطانہ کے فون آتے اور وہ سوات میں موجود اپنے چاہنے والوں کی خیریت معلوم کرتے رہتے۔

محی الدین نواب ڈائجسٹ کی دنیا کے نواب تھے۔ کہانی کے فن کو انھوں نے لازوال عروج بخشا ہے اور ان کے بعد کوئی دوسرا محی الدین نواب نہیں آئے گا کہ اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ڈائجسٹوں کی مقبولیت میں خاصی کمی پیدا کی ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کہانی لکھنے اور کہنے والے بھی ناپید ہوتے چلے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments