امید کے چراغ اور قسط وار گمشدگی


\"\"\”اس رات غلام عیسیٰ اور مرید خان میرے آس پاس تھے۔ رات کے کوئی دس بجے جب جیل کی فضا مکمل طور پر خاموش اور پراسرار تھی، اور جیل کے ماحول کی سنگینی اپنے پورے عروج پر تھی، غلام عیسیٰ نے مرید خان کو پکارا۔

مرید خان، اس نے کہا۔

جی اوئے غلام عیسیٰ! ۔۔ مرید خان نے بڑے پیار سے جواب دیا۔

\”مرید خان دے حال؟\”

\”اللہ رحم کرے گا، اللہ فضل کرے گا، اللہ کوٹھیاں توڑے گا\” مرید خان نے مشین کی طرح یہ رٹے ہوئے فقرے دہرا دئیے، جیسے ان کے علاوہ اور کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔

اپنے شعوری اور غیر شعوری اندیشوں کو دبانے کے لیے اپنے آپ سے خوف زدہ ہو کر وہ اتنے زور زور سے بول رہا تھا جیسے اگر اس نے یہ نہیں کیا تو معلوم نہیں کیا آفت آ جائے گی۔ پھانسی والے سب اسی طرح بولتے ہیں، وہ کبھی اپنے منہ سے ناامیدی کا اظہار نہیں کرتے۔

آخری دن تک، آخری وقت تک، وہ امیدوں کے چراغ روشن کیے بیٹھے رہتے ہیں۔ اس سنگ دل کوٹھڑی کے پتھر پر لیٹ کر وہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، کہ وہ نہ بچیں! مرید خان بھی یہی کہہ رہا تھا۔ غلام عیسیٰ کی آواز میں بڑا ہی درد اور بڑا ہی کرب شامل تھا۔

میں اپنے بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مجھے چاروں طرف موت نظر آتی تھی۔ تنہائی کی قید میں پھانسی والوں کے درمیان رہنے کی اذیت میرے \"\"لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ چنانچہ میں نے اپنے اندر اٹھتے ہوئے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے دروازے کے جنگلے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔

غلام عیسیٰ کہہ رہا تھا، \”مرید خان اب تو وارث تنگ آ گئے ہیں!\”

\”اللہ رحم کرے گا\” مرید خان نے تیزی سے کہا۔

غلام عیسیٰ کچھ دیر تک خاموش رہا پھر اس نے کہا، \”مرید خان، میری بیوی کے زیور تو سیشن کی عدالت تک پہنچتے پہنچتے ہی بک گئے تھے۔ ہائی کورٹ اور فیڈرل کورٹ میں ہماری زمین بھی بک گئی۔ اب اگر میں بھی نہ رہا تو میری ماں، میرا باپ، بیوی اور دونوں بچے بھکاری ہو جائیں گے۔\”

\”غلام عیسیٰ، اللہ رہائیاں دے گا۔ اللہ تقصیریں معاف کرے گا۔ دل نہ چھوڑ!\”

\”میں دل تو نہیں چھوڑ رہا ہوں مگر مجھے اپنے گھر والوں کی بہت فکر ہے، مجھے اپنی بیوی اور بچوں کا خیال ہے۔\”

مرید خان اب کی بار چپ رہا۔

وہ خود اپنی زمین، اپنے بچوں اور اپنی بیوی کے بارے میں سوچ رہا ہو گا۔\”

پھانسی کی سزا پانے والوں کے دل میں بھی امیدوں کے چراغ بہرحال تب جلتے ہیں جب مقدمہ عدالت میں ہو، ہاں ایک قیدی اپنے بیوی بچوں کے بارے میں ضرور سوچ سکتا ہے، سوچ کو قید کرنا ممکن نہیں ہوتا! اوپر دیا اقتباس حمید اختر کی ایک کتاب سے تھا۔ \”کال کوٹھڑی\” ان کی وہ کتاب تھی جس میں انہوں نے جیل سے متعلق اپنے تجربات بیان کیے تھے۔ اس دور میں جب حمید اختر، فیض صاحب، سبطے صاحب، سجاد ظہیر، ظفر اللہ پوشنی، جنرل اکبر وغیرہ گرفتار ہوتے تھے تو باقاعدہ پولیس قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے انہیں لے جاتی تھی۔ ان کے گھر والے یہ اندازہ تو نہیں لگا سکتے تھے کہ وہ کب تک رہا ہوں گے لیکن یہ معلوم ہوتا تھا کہ ملکی قوانین کے مطابق مقدمہ چل رہا ہے۔ شاید کبھی رہائی ہو جائے۔ انہیں کبھی کبھار خط و کتابت کی عیاشی بھی نصیب ہو جاتی تھی۔ بہت ہی کم لیکن کبھی کبھی کوئی گھر والا بھی حکام سے اجازت لے کر ملنے آ جاتا تھا۔ پھر وہ دوبارہ گرفتار یا نظر بند ہونے تک کے لیے باقاعدہ رہا بھی ہوتے تھے۔ اس بیچ کئی کتابیں وجود میں آتیں، دریچوں میں گڑنے والی صلیبوں کا ذکر ہوتا، زندگی اور زنداں دلی کی بات ہوتی اور وقت بہرحال گزرتا رہتا۔

اسی کتاب میں ایک جگہ ابراہیم جلیس کا ذکر تھا۔ انہوں نے اخبار کے لیے مضمون لکھا اور کاتب کو دیا، پھر پوچھا کہ یار اس کی لمبائی کتنی\"\" ہو گی۔ کاتب نے کہا تقریباً دو سوا دو کالم ہو گی۔ کہنے لگے بھئی کسی بھی طرح اسے تین کالم کر دو۔ پھر اپنے پھٹے ہوئے جوتے دکھائے اور کہنے لگے کہ جوتے کم از کم تین کالمی مضمون کے پیسوں میں آئیں گے۔

تو اس قسم کے ادیب شاعر بلاگر وغیرہ یقین کیجیے ایسے ہی پھٹے حالوں میں ہوتے ہیں۔ کوئی آسمانی مصیبت آنے کی صورت میں بھی ان کے سامنے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے۔ پھر ایسا ہی ایک مفکر، لکھاری، شاعر، اداکار اور استاد اچانک لاپتہ ہو جاتا ہے۔ دو روز تو اس کی گمشدگی پر احتجاج ہوتا ہے اور تیسرے روز اچانک اس کا تعلق دو تین سوشل میڈیا پیجز سے جڑ جاتا ہے۔ اس پر اتنے الزامات لگتے ہیں کہ وہ زندہ سلامت واپس آ بھی جائے تو بچ نہ سکے۔ سوشل میڈیا پیج کسی کے نام سے کوئی بھی بنا سکتا ہے۔ پیج بنانے کا الزام بھی ہر انسان پر لگایا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں تو کیا ہی کہنے جب وہ جواب بھی نہ دے سکتا ہو۔

پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک بیانیہ مقابلے کی صورت حال بن جاتی ہے۔ قلم کے سفیروں کا مقابلہ ہتھیار اٹھانے والوں سے کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب فلاں فلاں شخص پر یہ افتاد پڑی تو فلاں دانشور نہیں بولا، آج کیوں چیخ رہا ہے۔ یہ تو نری جانب داری ہے۔

غیر جانب داری کی حیثیت ایک دھندلے لفظ کے علاوہ کچھ نہیں۔ جب آپ کسی معاملے پر رائے دینے سے مکمل فرار چاہتے ہیں تو آپ خود کو غیر جانب دار کہہ کر سائیڈ پر ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی جانب داری ہوتی ہے جب آپ دوسرے فریق سے غیر جانب داری کا تقاضا کریں۔ یعنی دوسرا انسان غیر جانب دار ہو کر آپ کی بھی حمایت کرے اور اپنی بھی، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اور اس فریق سے یہ سوال کیا جائے کہ جو صرف قلم چلانا جانتا ہے؟ قلم اور اور غیر قانونی ہتھیار اٹھانے والوں کا ملاپ کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے؟ ایک انسان دونوں چیزوں کی حمایت میں کیسے کھڑا ہو سکتا ہے؟

ایک اور انتہائی تکلیف دہ عمل کسی بھی انسان کے رنگ اور اس کی شکل سے اس کے کردار کا اندازہ لگانا ہے۔ چہرے کے نقوش یا محض رنگت دیکھ کر اس پر لعنت ملامت کرنا اور قابل گردن زدنی قرار دینا مہذب قومیں پچاس برس پہلے ترک کر چکیں۔ ہم چوں کہ عمدہ اخلاق کا دعویٰ رکھتے ہیں تو ہمارے لیے بہرحال سب جائز ہے۔

سب سے پہلے سلمان حیدر کی خبر آئی۔ ان کے بعد ایک ایک کر کے تین چار لوگ مزید لاپتہ ہوئے۔ آنکھیں اور کان صرف دو خبروں کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ کب واپس آئیں گے، اگلا کون ہو گا؟ یہ کسی ایک کی گمشدگی نہیں، یہ ہر ادیب، شاعر، صحافی، اداکار اور استاد کی گمشدگی ہے، جو قسط وار ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments