دیکھنے کے طریقے۔۔۔۔ جان برجر


\"\"جنوری کے آغاز کے وہ دن جب کاغذوں پر نئے سال کی تاریخ لکھنے سے رہ جاتی ہے۔ بے دھیانی قلم کو ایک سال پیچھے کھینچ کر لیے جاتی ہے۔ پھر کوئی چونکا دیتا ہے تو خیال آتا ہے ایک سال گزر گیا، نیا سال آ گیا۔ لیکن ابھی پچھلے سال کا حساب چل رہا ہے۔ آہستہ سے یہ خبر حواس پر اُترتی ہے کہ جان برجر اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ اس اطلاع کے ساتھ ایک خاموشی سی طاری ہے، ٹھٹھرا ہوا سناٹا، اور سکوت جیسے دنیا نئے سال کو ساتھ اس خبر کو بھی اپنے اندر جذب کر رہی ہو۔ پھر ایک ایک کرکے تعزیتی پیغامات سامنے آنے لگتے ہیں۔ بہت صدمے اور احترام کے ساتھ لوگ یہ اطلاع موصول کرتے ہیں کہ اس دور کے خدوخال متعیّن کرنے والا اور اس عہد پر ان مٹ نقوش چھوڑنے والا بے مثال ادیب اس جہانِ فانی سے گزر گیا۔ تعزیتی پیغامات اور اخباری تبصروں میں بار بار دُہرایا جارہا ہے کہ نوے برس تک زندگی کرنے والا یہ نقاد، مضمون نگار، ناول نگار اور ادیب اس زمانے کا بڑا اہم حوالہ تھا۔

جان برجر کے انتقال پر دنیا بھر میں جس طرح رنج و غم کا اظہار ہوا ہے، ان میں سے چند آرا اخبار ’’گارجین‘‘ کے تعزیت نامے میں شامل \"\"    ہیں۔ چناں چہ معروف آرٹسٹ ڈیوڈ شریگلے نے برجر کو ’’فن کے بارے میں قلم اٹھانے والا سب سے بہتر‘‘ ادیب قرار دیا اور ناول نگار جینیٹ ونٹرسن نے کہا کہ وہ ’’ایک ناتواں اور محروم دنیا میں توانائی کا منبع تھا۔‘‘ کچھ عرصے قبل جان برجر کے لیے مضامین کا ایک تہنیتی مجموعہ شائع ہوا تھا تو حاروس کاکر (Jarvis Cocker) نے کہا تھا کہ ’’دنیا میں چند ایک ہی ایسے ادیب ہیں جو اپنی تحریروں سے دنیا کو دیکھنے کے طریقے کو بدل کر رکھ دیتے ہیں اور جان برجر ان میں سے ایک ہے۔‘‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایک اور خصوصیت شامل ہے جس کی طرف سوزن سونٹیگ نے اشارہ کیا کہ برجر فقیدالمثال ہے کہ وہ احساس کی دنیا پر پوری توجہ کے ساتھ ضمیر کی لازمی پکار پر کان دھرتا ہے۔ یہ آخری ٹکڑا توجّہ کے لائق ہے، ورنہ اخبار میں یہ مضمون بھی اس خراج تحسین سے شروع ہوتا ہے کہ برجر صاحبِ نظر ادیب تھا جس نے اس طریقے کو بدل کر رکھ دیا کہ جس طرح پوری ایک نسل فن پاروں کو دیکھتی آئی تھی۔

جان برجر کی شہرت کا بڑا حوالہ ٹیلی ویژن کے سلسلے وار پروگرام رہے ہیں اور اس وقت ان کا ذکر بڑی تعریف و تحسین کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اس کا سلسلہ وار پروگرام ’’دیکھنے کے طریقے‘‘ (Ways of Seeing) بہت مقبول ہوا۔ اس پر مبنی کتاب کو اتنی شہرت حاصل ہوئی اور انگلستان کے بہت سے تعلیمی اداروں میں فنونِ لطیفہ کے بنیادی نصاب کا جزو بن گئی۔ بے شمار طالب علموں کی طرح اس کتاب کا قائل تو میں بھی ہوں کہ یورپی آرٹ کے طویل سفر کو کوزے میں بند کرکے یہ کتاب دیکھنے اور دیکھ کر محسوس کرنے، سمجھنے کی صلاحیت ترقی اور تقویت عطا کرتی ہے۔ اس کے باوجود میرا اصرار ہے کہ جان برجر کے مجموعہ کام کو دیکھیے۔ بصیرت اور بصارت کے علاوہ جان برجر نے نقل مکانی اور بے \"\"وطنی کے تجربے کو بنیاد بنا کر جو کچھ لکھا ہے اور پھر دور افتادہ دیہات میں بظاہر پُرسکون زندگی بزار دینے والے سیدھے سچّے لوگوں کی روز مرہ زندگی کو جس طرح بیان کیا ہے، وہ اس دور میں نمایاں ہیں۔

اس کے مقبول عام ٹیلی وژن پروگراموں کے لاکھوں ناظرین میں بدقسمتی سے میں شامل ہو سکا اور نہ اس سے تعارف کسی نصاب میں ہوا۔ میں تو بس اس کی کتابیں پڑھنے والا ایک عام آدمی ہوں اس لیے میری خواہش ہے کہ اس کو یاد کریں تو اس کی ان کتابوں کو یاد رکھیں، ایک طرف ہٹا کر الگ کر دیں۔

زندگی اور فن کے بارے میں منفرد اور مختلف روّیے جان برجر کی سوانحی تفصیلات سے بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ شمالی لندن کے ایک متوسط گھرانے میں اس نے آنکھ کھولی اور آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔ اس نے خود بھی تصویریں بنائیں لیکن جلد ہی تصویروں کے بارے میں لکھنے اور تبصرہ کرنے کو اپنا فن بنا لیا۔ اخباری مضامین اور فنّی جائزوں کے علاوہ اس نے ناول نگاری کے میدان میں بھی اپنے جوہر دکھائے۔ اس کا پہلا ناول ’’اس دور کا ایک مصّور‘‘ 1958ء میں شائع ہوا۔

مصوّری سے لے کر فلم سازی تک، ادب و فن کی شاید ہی کوئی ایسی صنف ہوگی جس میں برجر نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔ حد تو یہ ہے کہ اس نے مقدور بھر شاعری بھی کی اور اس کی نظموں کا کلیات 2014ء میں شائع ہوا۔

جان برجر بڑا پکّا مارکسسٹ تھا اور سرمایہ داری نظام کا شدید مخالف۔ جان برجر نے اپنی عمر کا بڑا حصّہ بڑے شہروں کی بھیڑ بھاڑ سے \"\"دور گزارا۔ اس نے فرانس کے پہاڑی علاقے میں بُکر پرائز تفویض کیا گیا۔ برجر نے انعام تو قبول کر لیا لیکن اس کے ساتھ ہی اعلان بھی کر دیا کہ انعام کی آدھی رقم وہ برطانیہ کے بلیک پینتھرز کو دے رہا ہے کہ وہ ان کے انقلابی اور سوشلسٹ نقطۂ نظر کا قائل ہے۔ باقی آدھی رقم اس نے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کے مطالعے کے لیے استعمال کی جو ژان مور (Jean Mohr) کی تصویروں کے ساتھ ’’ساتواں آدمی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔

اس طویل عرصے کی فنّی ریاضت میں برجر کی آراء میں تبدیلی نہیں آئی، اس کی پسندیدہ اصناف اور بیان کے انداز ضرور بدلتے رہے۔ بُکر انعام یافتہ ناول کے جدید بیانیے کے بعد اس کے ناول بالکل بدل گئے جب اس نے اپنے لیے سیدھے سادے کسانوں کا طرز حیات اختیار کیا اور افسانہ نگاری کو قصّہ گوئی قرار دیا۔ شاید یہ بھی والٹر بن یامن کا اثر ہو جس کے اثرات کی نشان دہی نقادوں نے کی ہے۔ کسانوں کی زندگی اور ان کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو افسانوں میں ڈھال کر اس نے ناولوں کا پورا سلسلہ قلم بند کیا۔ اس کا ایک اور اہم کارنامہ ایڈز کے مرض میں مبتلا ہو جانے والے کردار کے حوالے سے تھا جس کی بنیاد ایک قریبی عزیز کی موت نے فراہم کی۔\"\"

جدید زندگی کے کتنے ہی سیاسی اور سماجی معاملات پر اس نے مضامین لکھے، پڑھنے میں سہل، جُملے کے جُملے کاٹ دار اور دنیا کے بدلتے ہوئے حالات پر شدید دردمندی سے عبارت۔ ان گارجیئن اخبار کے ایک اور تعزیتی مضمون میں یہ نُکتہ اٹھایا گیا کہ برجر نے کبھی بھی یہ اعتباد ہاتھ سے نہیں گنوایا کہ دنیا کاملیت کے درجے پر پہنچ سکتی ہے اور وہ مارکس ازم کو ایک تجزیاتی اوزار سمجھنے کے قریب آ گیا تھا، دنیا کے تمام مسائل کا لازمی حل نہیں۔ اسی سیاسی بصیرت کے حامل مضامین کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور میرے حساب سے یہ برجر کو مکمل کام کا انتہائی وقیع حصّہ ہیں۔

ان مضامین کے بہت سے مداحوں میں ممتاز شاعر احمد مشتاق بھی شامل ہیں۔ انھوں نے ان مضامین کی طرف میری توجّہ مبذول کرانے کے لیے دو ایک مضامین ’’دنیا زاد‘‘ کے لیے ترجمہ بھی کیے۔ (اس وقت ہم نے اس مصنّف کا نام ’’برگر‘‘ پڑھا!)

ان مضامین سے قبل برجر کی جو کتاب میرے لیے مقدس صحیفے کا سا درجہ رکھتی تھی وہ ایک قصباتی ڈاکٹر کی بظاہر عام سی زندگی کے\"\" بارے میں ہے مگر لگن، حوصلے، اپنے کام سے وابستگی کا ایسا مرقّع ہے جو معمولی کے بجائے آدرش پر پہنچا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ برجر کی کئی کتابوں میں سوئس فوٹو گرافر ژان مور کی تصویریں شامل رہی ہیں۔ اتفاق سے آغا خان فائونڈیشن کے تفویض کردہ کچھ کام کے حوالے سے ژان مور کراچی بھی آیا تو جہاں اس سے ملاقات میں جان برجر کا بہت تذکرہ رہا، اس نے منیب الرحمٰن سے اپنی نسبت کے بارے میں بتا کر حیران کر دیا۔ ژان مور نے کراچی کی کچّی آبادیوں کی جو تصویریں کھینچی تھیں، وہ شائع نہ ہوسکیں، ورنہ میرا ایک خواب یہ بھی تھا کہ کسی دن میرے ہاتھ میں وہ کتاب آئے گی جس کی تصویریں مور کی ہوں گی، موضوع کراچی کے پسماندہ علاقے اور بیان جان برجر کا۔

مگر یہ خواب ہی رہ گیا اور نہ جانے کتنے خواب اپنے ساتھ لیے جان برجر وہاں چلا گیا جہاں خواب نہیں ہیں، کتابیں ہیں۔ کتابیں اور تصویریں۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments