ہمارا قومی وقار کیسے تباہ ہوا؟


پاکستان کو غیر ملکی حکمرانی سے آزادی حاصل کیے 70 برس مکمل ہوگئے۔ اس دوران دنیا کے بیشتر خطوں میں ترقی کے قابل رشک نمونے سامنے آئے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک کھنڈر میں تبدیل ہونے والا یورپ صرف بحالی اور تعمیر نو کے عمل ہی سے نہیں گزرا بلکہ اس نے علمی اور معاشی ترقی کی نئی منزلیں طے کی ہیں۔ سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں اشتراکی آمریت سے نجات حاصل کر لی گئی ہے۔ایشیا اور افریقہ کے درجنوں ممالک میں نو آبادیاتی نظام ماضی کا قصہ بن چکا ۔ لاطینی امریکا میں منافع خوری کے لیے بڑے بڑے ممالک کو اپنی چراگاہ بنانے والی سرمایہ دار کمپنیوں کا بستر گول ہو رہا ہے۔ آبنائے عرب کے ریگ زاروںمیں سیاسی پسماندگی کے باوجود بے مثال معاشی ترقی ہوئی ہے۔ یورپی یونین، چین، بھارت اور روس عالمی قوتوں میں شمار ہو رہے ہیں۔ نسل پرستی، صنفی امتیاز اور طبقاتی ناانصافی جیسی برائیوں کے خلاف انسانی جد وجہد بڑی حد تک آگے بڑھی ہے۔

1947ءکے عالمی تناظر میں پاکستان کی ابتدا خاصی خوش آئند تھی۔ مسلم اکثریتی ممالک میں پاکستان واحد ملک تھا جہاں سیاسی عمل میں جمہوریت کا بنیادی خاکہ موجود تھا۔ خواندگی کی شرح بہت بلند نہ سہی لیکن پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ اہلیت کے اعتبار سے مسابقت کی صلاحیت ضرور رکھتا تھا۔ پیداواری ذرائع کی پسماندگی کے باوجود انتظامی اور قانونی ڈھانچے بڑی حد تک استوار تھے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے لیے ترقی کرنے کے روشن امکانات موجود تھے۔ تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔ آج پاکستان میں ہر شعبے میں انحطاط نظر آتا ہے۔ ریاست کی عمل داری معدوم ہو رہی ہے۔ معاشی اشاریے روبہ زوال ہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ کمزور ہو چکا ہے۔ پاکستان ترقی کی دوڑ میں جنوبی ایشیا کے تقریباً سبھی ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟

دنیا کی ہر ریاست اپنے قومی مفاد میں کسی حد تک اخفا سے کام لیتی ہے۔ یعنی ہر معاملے میں حقائق کو پوری طرح بیان نہیں کرتی۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے خیال رکھا جاتا ہے کہ قومی مفاد میں بولا جانے والا جھوٹ اس احتیاط سے استعمال کیا جائے جس سے ریاستی اعتبار کم سے کم مجروح ہو۔ ہم نے ریاستی سطح پر غلط بیانی کرتے ہوئے اس احتیاط کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ منتخب حقائق کی پردہ پوشی ایک ناگزیر تدبیر تو ہو سکتی ہے لیکن اسے مستقل حکمت عملی یا پالیسی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسی ریاست اندرون اور بیرون ملک اپنا وقار کھو بیٹھتی ہے۔ قوموں کی زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جہاں انہیں ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کر کے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں سوویت افواج نے تمام جنگی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولینڈ کے بائیس ہزار فوجی افسر قتل کر دیے تھے۔ پچاس برس بعد 1990ءمیں سوویت یونین نے اعلیٰ ترین سطح پر اس جرم کا اعتراف کیا۔ جنوبی افریقہ میں سچائی اور مفاہمت کے کمیشن میں نسل پرستی کی پالیسی کے تحت روا رکھے جانے والے مظالم کو تسلیم کیا گیا۔جرمنی اور جاپان نے عالمی جنگ کے دوران کی جانے والی ناانصافیوں کا اعتراف کیا۔ ماضی کی کوتاہیوں کے اعتراف سے اجتماعی زندگی میں شفافیت پیدا ہوتی ہے اور شہریوں میں یہ اخلاقی احساس پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے پاکستان میں جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر اصرار کرنے کی روایت قائم کی ہے۔ ہم نے مختلف بین الاقوامی معاہدوں اور یقین دہانیوں کی کیسے خلاف ورزی کی ، مختلف ادوار حکومت میں عوام پر کیسے ظلم توڑے گئے اور ظلم کرنے والوں کو کس طرح توقیر دی گئی، مختلف جنگوں میں پاکستان کی حقیقی کارکردگی کیا رہی، یہ سب کچھ ایک طرف، ہم نے تو اب تک قوم کو کھل کر یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ مشرقی پاکستان کے ہم وطن ہم سے کیونکر بدظن ہوئے اور ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ تقسیم ہند کے موقع پر ہونے والے فسادات کے بارے میں پاکستان میںایک بھی مستند تحقیق موجود نہیں۔ مستقل اندھیرے میں رہنے سے پاکستانیوں کی آنکھوں میں روشنی کی برداشت باقی نہیں رہی۔ کسی بھی معاملے پر حقائق سامنے آتے ہی ہم تردید اور تاویل کی چادر تان لیتے ہیں۔ ہم اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینے پر تیار نہیں ہیں چنانچہ ہمیں ہر ناکامی کے پیچھے سازش نظر آتی ہے۔ ایسا کرنے سے ہم خود کو دھوکہ تو دے سکتے ہیں لیکن اس سے عالمی سطح پر پاکستان کا وقار بری طرح مجروح ہوا ہے۔

جدید سیاسی تصورات اور دستوری اداروں کے کردار سے نابلد ہونے کے باعث ہم طرز حکمرانی کے بحران کا شکار ہو گئے ہیں۔ ہم جمہوریت کا نام لیتے ہیں لیکن پاکستان میں تعلیم یافتہ افراد سمیت عوام کی اکثریت درحقیقت جمہوریت سے بے گانہ ہے۔ ہم اجتماعی فراست کی بجائے کسی مسیحائے دوراں ، نیک نیت آمر اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل کرشماتی رہنما کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان غالبا ًدنیا کا واحد ملک ہے جہاں پچھلے ساٹھ برس میں ان پڑھ لوگوں کی تعداد میں تین سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگر اس خوفناک حقیقت میں تعلیم کے گرتے ہوئے معیار کو بھی شامل کر لیا جائے تو ہم بارود کے ایک ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔ جن معاشروں میں غور و فکر کی صلاحیت محدود ہواور جذبات بے لگام ہوں، وہاں گمراہ رائے عامہ ناگزیر طور پر انتشار اور فساد کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ اسے انقلاب کا نام دیجئے یا لوگوں کی محرومیوں کا ردعمل، اس کا انجام بہرصورت تباہی ہوتا ہے۔

پاکستانی باشندے سیاسی اور سماجی پسماندگی کے باعث معیشت کے تلخ حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بے شک پاکستان میں وسائل اور صلاحیت کی کمی نہیں لیکن ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ ہم برآمدو درآمد کے ضمن میں مسلسل خسارے کا شکار ہیں۔ ہماری پیداواری بنیاد کمزور ہے۔ ہمارے توانائی کے ذخائر ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم نے عشروں سے امداد اور قرضے لے کر اپنا ملک چلایا ہے۔ ہماری معاشی ترجیحات میں عوام کے معیار زندگی کو بنیادی اہمیت نہیں دی گئی۔ ہم نے اپنے بیشتر وسائل دفاع پر صرف کیے ہیں اور دفاعی خطرات کو کم کرنے کی سیاسی تدابیر پر توجہ نہیں دی۔ ہمارے ملک کے مختلف خطوں اور گروہوں کی معاشی ترقی ہموار نہیں رہی۔ ایسی غیر ہموار ترقی سے سیاسی اور معاشرتی بے چینی جنم لیتی ہے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نہ صرف اپنی معاشی مشکلات کی حقیقت نہیں سمجھتے بلکہ اس صورت حال میں بہتری لانے کی قابل عمل تدابیر سوچنے سے بھی قاصر ہیں۔

دنیا بھرکے ہوائی اڈوں پر پاکستان کا سبز پاسپورٹ رکھنے والوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ہم وطنوں کا غم و غصہ قابل فہم ہے۔ تاہم ہمیں اغیار سے شکایت کرنے کی بجائے اس امر پرغور کرنا چاہیے کہ پاکستان میں ریاست نے شہریوں کو کس عزت و احترام کا مستحق سمجھا ہے۔ کسی ملک کے باشندوں کی اس سے بڑی توہین کیا ہو سکتی ہے کہ رات کے اندھیرے میں ایک ریاستی اہلکار اعلان کرے کہ اس نے ملک کے آئین کوٹھوکر مار کر پرے پھینک دیا ہے اور ملک کے شہریوں کو اپنی رعایا قرار دے دیا ہے۔ ایسا ایک بار نہیں، چار مرتبہ ہوا ۔ غالباً اس سے زیادہ شرم ناک بات یہی ہو سکتی ہے کہ ان قومی مجرموں کو عدلیہ کے ججوں، صحافیوں، دانشوروں اور سیاست دانوں میں سے بے شمار حامی میسر آئے جنہوں نے قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ قومی ترقی کے لیے ایسے ہی کسی حادثہ فا جعہ کی ضرورت تھی۔ عوام کی رہنمائی کے دعویدار جب قوم کے خلاف بدترین جرم میں شریک ہو جائیں تو بیرونی دنیا کو یہ پیغام ملتا ہے کہ پاکستان میں اختیار اور دانش کے سرچشمے عوام کے وقار کو پرکاہ برابر اہمیت نہیں دیتے۔ اگر درون خانہ شہریوں کا احترام مجروح ہو جائے تو دنیا سے یہ توقع رکھنا محض خوش فہمی ہو گی کہ وہ پاکستان میں بسنے والوں کو وہ عزت اور توقیر دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments