پاکستان کی مستحکم بنیادوں میں احمدیوں کا خون شامل ہے


\"\"

ہم سب کے روح رواں قبلہ عدنان خان کا کڑ کا بلاگ بعنوان ’احمدی خلیفہ کا بلوچستان کو احمدی بنانے اورہندوستان سے وفاداری کا اعلان‘ پڑھا۔ پھر دوبارہ اور سہ بارہ پڑھنے کے باوجود میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر رہا کہ آخر میرے فاضل دوست ثابت کیا کرنا چاہ رہے تھے۔

عدنان صاحب نے اپنی اس تحریر کو جو عنوان دیا ہے وہ چونکا دینے والا ہے، بادی النظر میں عنوان سے ہی قاری کا ذہن کسی سازشی تھیوری کے تانے بانے بننے لگتاہے۔ جہاں تک میں اس تحریر کا جو لب لباب سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ دراصل انہوں امام جماعت احمدیہ کے دو مختلف وقتوں میں دیے گئے بیانا ت کو ایک سطر کے عنوان میں سمو کر قیام پاکستان کے سیاسی اکھاڑے میں احرار کے کرادر کا تذکرہ کر کے مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس وقت احراری جماعت جن ملک دشمن سرگرمیوں اور اپنی گرتی ہو ئی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے جو اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی تھی اس کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر عائد ہو تی ہے۔

ابتداء میں موصوف نے جماعت احمدیہ اوراحراری کشمکش کا ذکر کیا اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے فرمایا کہ ’اس وقت مذہبی جماعتوں کو مسلم لیگ نے شکست فاش دی تھی اور اس شکست سے نکلنے کے لئے وہ مذہبی جذبات کا سہارا لے کر سیاست میں اپنی واپسی چاہتی تھی‘۔

ڈاکٹر صاحب کے اس سے ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ 53 لے کر سن 74 میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے تک احرار کی تمام تر کوششیں اسلام کی سر بلندی کے لئے نہیں بلکہ اپنی کھوئی ہوئی اس سیاسی ساکھ کو جسے خدمت اسلام سے دورکا بھی واسطہ نہ تھا بحال کرنے کے لئے تھیں، جس کے لیے احراری جماعت نے تختہ مشق جماعت احمدیہ کو بنایا۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ مجلس احرار کی قیام پاکستان اوراستحکام پاکستان حوالہ سے کوئی سیاسی ساکھ تھی بھی یا نہیں۔ ؟ تو جواب نفی میں ہے۔

اس مؤقف کی تائید میں 53 کے احمدیہ مخالف فسادات (جس کا حوالہ میرے فاضل دوست اپنی تحریر میں دے چکے ہیں) کے بعد حکومت نے جسٹس منیر کی زیر صدارت ایک بینچ قائم کیا جس نے ان فسادات کی تحقیق کرنے کے بعد رپورٹ پیش کی جو The 1954 Justice Munir Commission Report On The Anti Ahmadi Riots Of Punjab In 1953 کے نام سے ریکارڈ پر موجود ہے دیکھی جا سکتی ہے۔

\"\"

منیر ان کوائری رپورٹ میں عدالت نے لکھا :

”مولوی محمد علی جالندھری نے 15 فروری 1953 ؁ ء کو لاہور میں تقریر کرتے ہو ئے اعتراف کیا کہ احرار پاکستان کے مخالف تھے۔ اس مقرر نے تقسیم سے پہلے بھی اور تقسیم کے بعد بھی پاکستان کے بعد بھی پاکستان کے لئے پلید ستان کا لفظ استعمال کیا اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اپنی تقریر میں کہا ”پاکستان ایک بازاری عورت ہے جسے احرار نے مجبورا قبول کرلیا ہے“۔
( رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 274)

ان (احراریوں )کے ماضی سے ظاہر ہے کہ وہ تقسیم سے پیشتر کانگریس اور دوسری جماعتوں سے مل کر کام کرتے تھے جو قائد اعظم کی جدو جہد کے خلاف صف آراء ہو رہی تھیں۔ اس جماعت نے دوبارہ اب تک پاکستان کے قیام کو دل سے گوارہ نہیں کیا۔
( رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 149، 150)

احراری جماعت کس ایجنڈا پر کام کر رہی اس بات کا نتیجہ قارئین سردست مندرجہ بالا دو حوالہ جات سے بخوبی نکال سکتے ہیں، جنہیں احراری جماعت کے قیام پاکستان میں کردار جاننے کی جستجو ہو تو وہ جسٹس منیر ان کوائری رپورٹ پڑھ لیں یا سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کے پاکستان کے حوالہ سے خطابات دیکھ لیں۔

اب آتے ہیں اصل مدعا کی جانب، عدنا ن کاکڑ صاحب نے جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرا لدین محمود احمد کے حوالہ سے دو باتیں کی ہیں، ایک: بلوچستان میں احمدیت کو پھیلانا، دوسرا :ہندوستان سے وفاداری۔ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا اول الذکر بیان قیام پاکستان سے چند دن پہلے کا ہے جبکہ دوسرا بیان اوائل مارچ 1949 کا ہے۔ ان دونوں بیانوں اور اس پر نوائے وقت کے تبصرہ سے عدنان کاکڑ صاحب شاید ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے قیام پاکستان کی کوشش اور حمایت محض اس لئے کی تھی تاکہ بلوچستان کو احمدی کیا جاسکے، اس مقصد کے حصول کے لیے انہیں چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے عروج کی صورت میں اپنی جماعت کا عرج نظر آ رہا تھا۔ کس طرح نظر آرہا تھا اور کیا اس بات کا اظہار مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب یا خود چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے اپنی زبان سے کیا یا یہ محض صاحب تحریر کا مفروضہ ہے اس کی وضاحت بھی عدنان کاکڑ صاحب کے ذمہ ہے۔

\"\"

عدنان صاحب کسی شخص کا تعلق کسی بھی مذہب کے کسی بھی فرقہ سے کیوں نہ ہو چاہے وہ مذہب بیزار دہریہ ہی کیوں نہ ہو لا محالہ ہر شخص کی یہ خواہش ہو گی کہ وہ اپنے عقائد کا اپنے نظریات کا پرچار کرے، مذہبی چھوڑ فی زمانہ ایتھیسٹ بھی یہی یہ چاہتے ہیں دنیا کے تمام ممالک ایتھسٹ ہو جائیں۔ تو جناب ایک لمحہ کے لئے فرض کریں کہ آپ ایک ایسی مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں جو خود کو حق پر سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ جس عقیدہ پر عمل پیرا ہے اسی عقیدہ میں انسانیت کی فلاح و نجات ہے تو کیا آپ نہیں چاہیں گے کہ بلوچستان تو کیا پوری دنیا آپ کے عقیدہ کو اپنا لے؟ اور آپ بلحاظ عقیدہ کہ سکیں کہ بلوچستان ہمارا صوبہ ہے کیا ایساخیال اور اظہار اور اس کے لئے کوشش جائز نہیں؟ بے شک آپ اپنی اس خواہش میں حق پر ہوں گے۔ اگر آپ کو اعتراض بلوچستان پر ہے تو بالخصوص بلوچستان کا نام لینے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں کم آبادی مخصوص جغرافیائی حالات یا اپنے پاس مہیا وسائل کی بناء پر بلوچستان پر تو جہ مرکوز کرنے کا اشارہ کیا گیا۔

لیکن کیا مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے بیان سے کہیں یہ بھی مترشح ہو تا ہے کہ اگر بلوچستان پورا کا پورا احمدی ہو جاتاہے تو ہم وہاں بزور بازو مسلح ہو کر حکومتی رٹ کو چلتا کر دیں دیں گے؟ یا مذہبی چولہ اتار کر سیاست کا جبہ پہن کر سیاسی میدان میں کو د پڑیں گے؟ ظاہر ہے ایسی کو ئی بھی بات نہ تھی تو کسی ایک علاقے پر تبلیغی لحاظ سے توجہ مرکوز کرنا محل اعتراض نہیں۔

امر واقع یہ ہے کہ وطن عزیز میں پچانوے فیصد احمدی آبادی پر مشتمل شہر ربوہ جسے احمدی ”ہمارا شہر“ کہتے ہیں چند دن پہلے CTD کے چند اہلکار وارنٹ نام کی کسی چیز کے بغیر شہر میں موجود دفاتر میں داخل ہوتے ہیں وہاں موجود افراد کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ڈراتے دھمکاتے ہیں بغیر کسی رسید کے سامان ضبط کر تے ہیں اور تین بندوں کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

رہی بات ہندوستان سے وفاداری کی تو صاحب آپ نے شاید بنظر غایت اپنے ہی لکھے اس حوالہ کو نہیں پڑھا جس میں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ہندوستان جانے اور قادیان کو اپنا مرکز بنانے کو حالات سے مشروط کیا ہے۔ احمدی جس ملک کا بھی اس ملک سے وفادارہوگا اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ ہندوستان واپس جانے کی خواہش جذباتی وابستگی کی بناء پر تھی کیونکہ جس تحریک کے آپ رہنما تھے اس کا پہلا مرکز قادیان تھا اس کے علاوہ قادیان آپ کا جائے پیدائش تھا وہیں پلے بڑھے تعلیم حاصل کی اور یہ وابستگی اور وہاں جانے کی خواہش ایسی تھی جس کا سرے سے کسی سیاسی پس منظر نہ تھا اور کسی بھی ملک کی غداری سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس بیان پر نوائے وقت نے جو تبصرہ کیا اس تبصرہ کی تب تک کوئی اہمیت نہیں جب تک وہ حکومت پاکستان کی کسی متعلقہ وزارت یا مقررکردہ کسی متعلقہ فرد کی جانب سے نہ ہو، ورنہ ایسے کسی اخبار کے کسی فرد یا ادرایہ کو ہم جواب دینے کے متکلف نہیں اور نہ خود کو جواب دینے کا پابند سمجھتے ہیں تبصرہ کرنا اور اپنی رائے دینا ان کا حق ہے۔

\"\"

دیانت داری کا تقاضا تھا کہ آپ وہ سوال بھی لکھتے جس کے تناظر میں مرزا بشیرالدین محموداحمد صاحب نے ہندوستان واپس جانے اورہندوستان سے وفادار رہنے کا بیان دیا تھا تاکہ اس بیان کا پس منظر واضح ہوسکے۔ عدنان کاکڑ صاحب الفاظ قابل غور ہیں آپ ایک مذہبی مرکز اور مسکن کو گڈ مڈ کرکے بیان کو متنازع بنانے کی کو شش کر رہے ہیں۔ کسی مذہبی جماعت کاروح رواں جس جگہ بنفس نفیس موجود ہو وہی مرکز ہو تا ہے اور آپ کی یہ خواہش آپ کی اپنی ذات تک تھی نہ کہ عام ہدایت کہ ہر احمدی ماحول ساز گار ہونے پر دوبارہ ہندوستان کی جانب دوڑ لگادے۔ آئندہ حالات نے ہمارے موقف کی تائید کی ہے نہ حالات ایسے ساز گار ہو ئے کہ آپ واپس جا سکے۔ تب سے اب تک ربو ہ بطور مرکز احمدیت کے جانا جاتاہے۔

نیشنل ڈاکو مینٹیشن سینٹر لاہور نے ایک کتاب بعنوان ”متحدہ پنجاب کی تقسیم 1947“ شائع کی جس کے صفحہ 251 پر لکھا ہے۔

”قادیان اسلامی دنیا کا ایک فعال بین الاقوامی یونٹ بن چکا ہے۔ اس لیے اس یونٹ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہندوستان میں شامل ہو نا چاہتا ہے یا پاکستان میں، اور ہم نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے“۔

جماعت احمدیہ کا قیام پاکستان کے حوالے سے کردارجس کے آپ بھی معترف ہیں کیا محض لفاظی ہے؟ کیا جماعت احمدیہ نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک اپنے عمل سے خود کو ایک ملک سے وفادار جماعت ثابت نہیں کیا؟ کیا ہم اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر کبھی سڑکوں پر آئے ہیں؟ کیا کبھی احتجاجا ملکی املاک کو نقصان پہنچایا ہے؟ کیا کبھی حکو متی رٹ کو چیلنج کیا ہے؟ کیا جماعت احمدیہ کا کوئی فرد ملک دشمن سر گرمیوں میں ملوث پایا گیا ہے؟ کیا کبھی کسی فرد جماعت سے متعلق یہ شکایت ملی کہ یہ ملک سے وفادار نہیں؟ اگر جواب ناں میں ہے تودل کی عینک سے تعصب کی گرد جھاڑیے اوراپنی تحریر پر نظر ثانی کیجئے۔

قیام پاکستان میں اپنی جان مال اور وقت کے نذارنے پیش کرنے والی محب وطن جماعت کو پاکستان پہنچنے پر اس وقت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے مخاطب ہو تے ہو ئے فرمایا تھا۔
”پاکستان کا مسلمانو ں کو مل جانا اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سانس لینے کا موقع میسر آ گیا ہے اور وہ آزادی کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ا ب ان کے سامنے ترقی کے اتنے غیر محدود ذرائع ہیں کہ وہ اگر ان کو اختیارکریں تو دنیا کی کوئی قوم ان کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی اور پاکستان کا مستقبل نہایت شاندار ہو سکتاہے“۔
نہ صرف قیام پاکستان کے حوالے سے مرزا بشیرالدین محمود احمد کی جماعت نے کار ہائے نمایاں سر انجام دیے بلکہ دفاع پاکستان میں اپنی جانوں کے نذارنے بھی پیش کیے اور ہر محاظ پر دشمن کا مقابلہ کیا۔

\"\"

1948 میں مرزا بشیر الدین محمود احمدنے کشمیر کے محاذ پر رضار کار فرقان بٹالین فورس بھجوائی، اس بٹالین نے دو سال تک سعد آباد کی حفاظت کے فرائض باحسن ادا کیے۔

65 کی جنگ میں چھمب کے محاظ پر ہلا ل جرائت کا اعزاز پانے والے جنرل اختر حسین ملک احمدی تھے۔ (بحوالہ روزنامہ جنگ 9 ستمبر 1969)

چونڈہ کے محاظ پر وطن عزیز کا دفاع کرنے والے برگیڈیئر عبدالعلی ملک جنہیں ہلال جرائت سے نوازا گیا ان کا تعلق بھی جماعت احمدیہ سے تھا۔ یہ چند ایک مثالیں تھی لیکن قیام پاکستان میں جماعت احمدیہ کے مؤثر کردار، دفاع پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مثالی خدمات اور ملکی تعمیر و ترقی میں جماعتی کرادر کو متعصب کور چشم شخص کے سوا کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ وطن سے محبت ہر دور میں ہر احمدی کے ایما ن خاصہ رہی ہے۔

جب بھی وطن کو ضرورت ہماری ضرورت پڑی سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن یہ چمن ہے ہمارا تمھارا نہیں

احمدی خلیفہ کا بلوچستان کو احمدی بنانے اور ہندوستان سے وفاداری کا اعلان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
19 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments