نوجوانی کا پہلا گستاخِ عشق


\"\"

زندگی کا ہر رشتہ کسی نہ کسی ضرورت کے ساتھ جڑا ہے۔ بچھڑنے والوں کی یاد بعد میں اور ان سے جڑی ضروریات پہلے غمگین کرتی ہیں، جب کسی سے ازخود علیحدگی مقصود ہو تو جانے ان جانے انسان اپنے مطلب کے ترازو میں رشتے کو ضرور تولا کرتا ہے۔

دورِ حاضر کے عشق کے حالات بھی مختلف نہیں، بظاہر اور ابتدائی شدت تو ہمارے شدت پسند معاشرے اور ماحول کی مرہون منت ہے۔ فی زمانہ محبت مرحلہ وار اور سلسلہ وار بھی ہے اور مختلف اقسام میں ہمارے بناوٹی رویوں میں بھی موجود ہے۔

ابتدائے عشق میں نا تجربہ کاری کا عنصر نمایاں ہوتا ہے، مخالف صنف کی آواز کے اتار چڑھاؤ، کھلکھلاہٹ، نخرا، نظروں کے تیر، حتی کے چلنے کا انداز۔ محبوب کے دل کو گدگدانے کے لئے کافی ہوتے ہیں، دونوں اطراف سےہی پاکیزہ محبت کی دہائیاں دی جاتی ہیں، مگر یہ دہائیاں بھی ”موقع“ ملنے سے پہلے تک ہوتی ہیں اور پھر موقع ملتے ہی محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہو جاتا ہے!
لڑکیاں پہلا عشق اس وقت کرتی ہیں جب کوئی ان کے بے رنگ پروں میں اپنے الفاظ اور نظروں کے لاووں سے رنگ بھرنے لگتا ہے، عورت چاہے کتنی بھی مضبوط کیوں نہ ہو اپنی اہمیت اور حسن کے ذکر پر تتلیوں کی طرح اڑنے لگتی ہے۔ اور شکنجوں میں آتے ہی اپنے ہاتھوں سےاپنے پر کاٹ دیتی ہے۔

بات جب حسن سے بڑھ کر روز مرہ معاملات تک پہنچتی ہے تو محبت کہ یہی پرندے اکثر گھٹن کا شکار ہو کر اپنی راستے بدلتے نظر آتے ہیں، یا اکثر خوب سے خوب تر کی تلاش مسکن بدلنے پر مجبور کر دیتی ہے، عشق کا نظریہ بھی نظریہ ضرورت اور فطری تقاضہ ہے، محبت وہی پائیدار ہے جو آپ کے ساتھ ہے، جہاں فاصلے نمایاں ہونے لگیں تو محبت کی لو بھی مانند پڑنے لگتی ہے، آس پاس کی دنیا کے نئے چہرے دل کو لبھانے لگتے ہیں۔

محبت کی ایک قسم ”لمحاتی“ بھی ہے، یہ فطری تقاضوں کی آئنہ دار ہوتی ہے، اکثر اس محبت کے امین انسان خودغرضی میں غرق ہو کر دوسرے انسان کو اپنی دوہری باتوں میں الجھائے اپنے لمحات پر سکون بنا لیتےہیں اور اپنے ”خود ساختہ تہہ شدہ“ اصولوں کے مطابق اپنے ضمیر کی آوازوں کو تھپکی دے کر سلا لیتے ہیں، سامنے مسکراتی اگلی ہمہ وقت دستیاب محبت گزشتہ تعلق کو آسانی سے تبدیل کر لیتی ہے، جہاں دیس، وہیں کی محبت۔ البتہ کچھ لوگ جو ایک تعلق کے بعد جو معیار ذہن میں بنا لیتےہیں اس س کم پر مطمئن نہیں رہتے۔

بقول جون ایلیا
میں کیا ہوں بس اک ملال ء ماضی
اس شخص کو حال چاہیے تھا

جدید محبت، عشق دراصل خود ایک نظریہ ضرورت ہے، سراہے جانے کی خواہش کا نام، سکون کی تلاش۔ یہی اس دور کی حقیقت ہے۔ محبت کی کامیابی صرف شادی نہیں ہے، شدید محبت کے دعویدار جب شادی جیسے مستقل رشتے میں بندھتے ہیں تو اکثر اکتا کر علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔

محبت وہ ہے جو ذات کی نفی کر دے، تصورات کی شدت ہے جو اندھیروں میں بھی محبوب کو حاضر کردے، وہ تڑپ جو روح پر گذرے، وہ طاقت ہے جو کسی انجان کے دل میں بے چینی پیدا کردے، جو آپ کو محبوب کے رنگ میں رنگ دے، جنون جو آپ کو بیگانہ کر دے، ضرورت سے بڑھ کر۔ فنا تک۔ !

ھم سے نام جنوں کا قائم
ھم سے دشت کی آبادی
ھم سے درد کا شکوہ کرتے؟
ھم کو زخم دکھاتے ہو؟

”ابنِ انشاء“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments