مساوات، انسان دوستی اور مذہب


اجیت کمار عظیمی سے میں نے پوچھا بھائی آپ یہاں کیا کررہے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ عظیمی آپ نے کیوں لگا لیا؟ ؟یہاں نہ تو بھگوت گیتا پڑھی جاتی ہے نہ کسی لکشمی کی پوجا ہوتی ہے۔ کہنے لگے بھائی ہمیں یہاں مذہب کی نہیں انسانیت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہمیں یہاں بلانے والے یہ تعلیم دیتے ہیں کہ انسان کو اس کے خالق نے اس دنیا ( عالم ناسوت) میں کیوں بھیجا ہے !اس دنیا میں اسے کس طرح رہنا ہے ،اپنے جیسے انسانوں اور دوسرے جانداروں سے معاملات کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہے۔ اپنے نام کے ساتھ عظیمی اس لئے لگایا کہ میں اپنی ذات کے ادراک کے لئے خواجہ شمس الدین عظیمی کا شاگرد ہوں ، اور بس۔ سوات کے سندر سنگھ بھی ساتھ ہی کھڑے تھے میں نے ان سے بھی کم و بیش یہی سوال کیا۔ کہنے لگے ہمیں اس جگہ مذہبی امتیاز کا احسا س تک نہیںہوتا۔ یہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور ان کے ساتھ ہندو ،سکھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آتے ہیں۔ ہمیں یہاں تصوف کی تعلیم دی جاتی ہے، ہمارے روحانی استاد کے زیر اہتمام یہ دور وزہ اجتماع سال کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے جہاں ہم سب ایک دوسرے سے مل بھی لیتے ہیںاور حضور قلندر بابا اولیا ؒ کے عرس میں بھی شرکت کرلیتے ہیں۔

عرس! برصغیر میں ایک مذہبی یا صوفی محفل سے(شاید )زیادہ ثقافتی اہمیت بھی اختیار کر چکا ہے۔ حضرت بابا تاج الدین ناگپوری ؒکے نواسے حضرت سید محمد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاؒ کے یوم وصال کی مناسبت سے ایک تقریب ہر برس کراچی میں منعقد ہوتی ہے۔ اسے آپ عرس بھی کہہ سکتے ہیں جس میں شرکت کے لئے پاکستان کے علاوہ دنیا کے کونے کونے سے ہزاروں مسلم اور غیر مسلم خواتین جمع ہوتے ہیں اوراکیسویں صدی کے عظیم روحانی بزرگ قلندر بابا اولیا ؒ کی روحانی تعلیمات کے فروغ کے لئے گفت و شنید کرتے ہیں۔ بائیس برس پہلے کراچی میں ایک روحانی ورکشاپ کا آغاز کیا گیا تھا جو آج بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ ہر برس ایک نیا موضوع، قرآن کی کوئی آیت، کسی حدیث پر سیر حاصل گفتگو، کسی سماجی مسئلے کا روحانی حل،دنیا بھر سے آئے لوگ گروپوں کی شکل میں مقررہ موضوع پر شائستگی او رمتانت سے اپنا موقف پیش کرتے اور دوسروں کا سنتے ہیں۔ اختلاف یا مسائل کو اگر ہماری قوم اس طریقے سے حل کر لے تو دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں اس کا شمار ہو۔ سلسلہ عظیمیہ کے سربراہ اور معروف روحانی سکالر خواجہ شمس الدین عظیمی کے فرزند ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی اس ورکشاپ کے روح رواں ہیں جو بجا طور پر اس علمی میلے کے مسلسل انعقاد پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ رواں برس اس روحانی ورکشاپ کا موضوع اولیا اللہ کی تعلیمات کے مطابق( جو بجا طور پر رسول رحمت ﷺ کی ہی تعلیمات ہیں) خالق کائنات کی مخلوق کی خدمت تھا۔ مخلوق کی خدمت !بلاتفریق مذہب و ملت ،جنس کے امتیاز کے بغیر ہر چھوٹے بڑے جاندار کی خدمت ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنے شہر،ملک ،خطے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ ورکشاپ کے پنڈال میں ہی خواجہ شمس الدین عظیمی سے ملاقات ہوئی۔ ایک شفیق چہر ہ ،ایک شفاف قلب، ایک روشن دماغ جو اللہ کی مخلوق میں سکون کی دولت بانٹنے کے لئے اس پیرانہ سالی میں بھی جوانوں ایسے جذبے کے ساتھ دن رات کوشاں ہیں۔ دنیا بھر سے روحانی علوم کے پیاسے ان کے پاس آتے ہیں۔

میں نے پوچھا کہ یہ جو علمی میلہ آپ لگاتے ہیں تو اپنے شاگردوں کو کیا سکھاتے ہیں ؟

چند لمحے توقف کیا، ایک حدیث نبوی ﷺ کے مفہوم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے گویا ہوئے ’ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ، ساری مخلوق اللہ کی عیال(کنبہ ) ہے‘۔ سب کو چاہیے کہ جس طرح ایک باپ کی اولاد کی طرح بچپن ،جوانی اور بڑھاپا گزارتے ہیں اسی طرح اسلام کے پلیٹ فارم پر بھی بغیر کسی اختلاف کے ، بغیررنجش کے، بغیر بغاوت کے، بغیر کسی خوں ریز ی کے آپس میں محبت کے ساتھ رہیں۔ اور اپنا سب سے بڑا اور واحدکفیل، مالک و مختار اللہ کو سمجھیں۔ آدم ؑ کی اولاد ہونے کے ناطے تمام انسان آپس میں بھائی بہن ہیں،رشتوں کی تقسیم میں کوئی چچا ہے ،کوئی تایا ہے کوئی دادا ہے کوئی نانا ہے۔ زمین کے جس خطے میں سورج کی تپش زیادہ ہے وہاں انسانوں کے رنگ کالے ہوجاتے ہیں اورجہاں سورج کی تپش کم ہے وہاں لوگوں کے رنگ گورے ہو جاتے ہیں۔ لیکن پیدائش ،بچپن،جوانی اور بڑھاپے کے تمام مراحل میں یکسانیت ہے،جہاں تک لباس کا تعلق ہے کوئی لباس ایسا نہیں جسے ہم اسلامی کہہ سکیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب ہم اس دنیا(عالم ناسوت) میں آتے ہیں تو ظاہر ہے پہلے سے کہیں تھے تویہاں آتے ہیں اور اس دنیا سے جب ہم جاتے ہیںتو کہیں کوئی جگہ ہے تو وہاں جاتے ہیں،تویہ آنا اور جانا جو ہے اس پر اگر آپ غور کریں تو سوائے غیب کے اسے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جب ہم پید انہیں ہوئے تھے تو غیب میں تھے ،جب اس دنیا میں آئے تو ظاہر ہو گئے اور ہمارا ہر گزرنے والا دن غیب میں چھپ رہا ہے۔ ہم غیب سے یہاں آئے اور غیب میں ہی واپس پلٹ رہے ہیں۔ مطلب اس کا یہ ہوا کہ ہم پر تین رخ غالب ہیں دو غیب کے اور ایک ظاہر کا،لیکن ظاہری رخ میں دوام نہیں ہے۔ لیکن اس رخ میں (زندہ) رہنے کی حدیں مقرر ہیں ،چالیس سال،ساٹھ سال یا سوسال جتنی انسان کی زندگی ہو۔ اور جس جگہ (عالم ارواح ) سے ہم اس دنیا میں آئے ہیں اس کے مہ و سال کی کوئی حد اور کوئی حساب نہیں ہے اسی طرح اس دنیا سے رخصت ہو کر جہاں جاتے ہیں وہاںبھی وقت لامحدود ہے۔ ہمارا مشن یہ ہے ساری نوع انسانی چاہے وہ انگریز ہوں،ہندو ہو ں،مسلمان ہوں، سکھ یا عیسائی ہوں یہ جا ن لیں کہ ہم سب آپس میں ایک باپ آدم ؑاور ایک ماں حواؑ کی اولاد ہیں۔ مسلمان،سکھ ،عیسائی اور ہندووغیرہ یہ قبیلے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اللہ کس قبیلے کو پسند کرتا ہے۔ حضرت آدم ؑ نے جو بھی فرمایا ہے اور پیغمبران کرام ؑ نے جس کا اعادہ کیا ہے اس پر اگر ہم انسان عمل کریں گے تو ہم سعادت مند ہیں ورنہ بد بخت ہیں۔ بدبختی سے مراد دوزخی اور سعادت مندی سے مراد جنت ہے۔ بدقسمتی سے آدم ؑ کا جو ورثہ ہے بھائی چارے کا اور اخوت کا،ایک دوسرے سے محبت کا ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کا وہ ہمارے اندر سے آہستہ آہستہ نکلتا گیا اور ہم خود غرض ہوگئے۔ خو د غرضی اللہ کا وصف نہیں ہے۔ اللہ کافر اور مسلمان دونوں کو وسائل دیتا ہے چیونٹی کوبھی رزق دیتا ہے،سانپ اور بچھو کو بھی کھانا اللہ ہی کھلاتا ہے،ان کی نسل بھی چلاتا ہے۔

 مساوات !مساوات !زور دے کر عظیمی صاحب نے فرمایا کہ میرے نزدیک اسلام کا جو سب سے زریں پہلو ہے وہ مساوات ہے۔ ہم انسان الگ الگ نہیں ہیں بلکہ اپنے باپ آدم ؑ کے ناطے ہم سب ایک ہیں۔ اگر آدمؑ کے کچھ بیٹے اللہ اور اس رسولﷺ کے قوانین کو نہیںمانتے تو ان کو بھائی یا بہن کے رشتے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اوراگر آدم ؑکے کچھ بیٹے کسی اورپیغمبر کی شریعت پر عمل کریں تووہ بھی اچھے ہیں۔

اس لئے کہ حضور پاک ﷺ نے ارشا د فرمایا کہ میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں ،میرے بھائی پیغمبر جو کچھ فرما کر گئے میں تو اس کا اعادہ ہوں۔ غریب اگر اللہ رسول کے قوانین کے مطابق زندگی گزار رہا ہے تو وہ ایسے ارب پتی سے بہتر ہے جو اللہ کے قوانین پر عمل نہیں کرتا۔ میں نے پوچھا ! پینتیس برس سے آپ دن رات اپنے شاگردوں کی تربیت میں مصروف ہیں !فرق کیا محسوس کرتے ہیں۔ اللہ کے دوست نے میری نظروں میں جھانکا، لبوں پہ مسکان بکھیری اور فرمایا ’باپ اپنی اولاد کی تمام خامیاں چھپا کر اس کی خوبیاں ہی بیان کرتا ہے !یہ توآپ کا کام ہے آپ ان لوگوں سے ملیں،بات چیت کریں ،آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ان میں کیا تبدیلی وقوع پذیر ہوئی‘۔ اور میں نے عظیمی صاحب کے شاگردوں میں ایک بات پائی ہے کہ وہ مختلف مذاہب اور طبقات سے تعلق کی بنا پر کسی سے کوئی امتیاز روا نہیں رکھتے ،حتی کہ معمولی لباس اور قیمتی پوشاک والا ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں اور غیر مسلم عظیمی صاحب کی تعمیر کی گئی مسجد میں بھی بلا خوف خطر امن سے آتے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments