مرزا غالب بنام مدیر ہم سب


حضرت! آداب

حیراں کیوں ہو۔ کیا بلاگ لکھنے پر صرف تمہارا اجارہ ہے؟ کیا یہ آئین جاری ہوا ہے کہ مرگ آباد کے خاک نشین بلاگ نہ لکھیں۔ جب ایک سے بڑھ کر ایک اچھا جملہ بلاگ کی صورت تخلیق ہو رہا ہے تو یہ فقیر اسد اللہ غالب کیوں کر اس صورت حال سے منقطع رہ سکتا ہے؟ یہ پیرائیہ تو میری طبع رواں کو اور مہمیز دینے لگا ہے۔ ہاں قلم سنبھال کر اور دل لگا کر لکھنے سے ڈرتا ہوں کہ بلاگز کی چکاچوند کے سامنے میری سخنوری کے شکوہ پر حرف نہ آئے۔ میرا دکھ سنو، میں آج بھی تنہا ہوں جس طرح بلی ماروں کے محلہ میں تھا دلی کے ہنگاموں سے دور ،غم ہائے تنہائی نے آ گھیرا تو خط لکھنا مرغوب ٹھہرا۔ اگر کوئی خط بیرنگ بھی بھیجتا تو وصول کرنے کو ہمہ دم تیار، ہائے ہائے نئی نسل تو بیرنگ کے لفظ اور لذت دونوں سے نا آشنا ہے۔۔۔۔۔ سنا ہے تار کے نظام کا بھی بستر باندھا جا چکا ہے۔ اب ڈاک کے ہرکاروں کی وہ منزلت کہاں؟ ایک وقت تھا کہ چٹھی کا انتظار اختر شماری کی طرح صبر آزما ہوتا تھا۔ ایک عالم وہ تھا کہ جب “اکمل الا خبار”اور “اشرف الاخبار” میں اپنا عذر دیا کہ صحت اب خطوں کے جواب کی اجازت دیتی ہے نہ اصلاح شعر کی متحمل ہے مگر ہر طرف سے خطوں کا سیل تھا کہ چلا آتا تھا۔ اور اب عالم یہ ہے کہ آنکھیں ترستی ہیں مگر ڈاک آتی ہے نہ اس کے ہرکارے۔۔۔۔ اب اگر خط لکھوں تو کسے ؟ اگر لکھوں بھی تو کس کو فرصت کہ مراسلت کے آزار سے گزرے۔ اب تو سب برقیاتی مراسلت کے دلدادہ ہیں۔

صاحب! یہ مت سمجھو کہ “ہم سب”سالگرہ منائےاور غالب خستہ حال کو خبر نہ ہو گی۔ “ہم سب” نے جو کامیابیاں سمیٹی ہیں، اس کی بازگشت عدم آباد کیوںکر نہ پہنچتی۔ صرف اسلام آباد ہی نہیں، عدم آباد بھی تمہارا مداح غیبی ہے۔ رنج ضرور ہے کہ پہلے تم نے مجھ فقیر کو بہت نظر انداز کیا اور سچ پوچھو تو بہت سے لکھنے والوں سے بے حد حسد ہوتا ہے۔ ایک لاکھ ویوز سے دس لاکھ ویوز تک۔ توبہ توبہ یہ افراط بصر۔۔۔۔ اور اوپر سے نورچشم، راحت جاں عدنان خان کاکڑ اتنے تخلیقی افراط کا ثبوت دیتے ہیں کہ گمان گذرتا ہے کہ یہ بھی کوئی امریکہ کی سازش نہ ہو۔ ہمارے ہاں تو آبادی اور زر ہی کی افراط رہی ہے۔ کیا یہ واقعی کوئی جیتا جاگتا آدمی ہے یا امریکہ کا شیطانی روبوٹ ہے جسے لکھنے پر مامور کیا گیا ہے؟ عاصم بخشی میں اپنے سید احمد خان کی جھلک دیکھتا ہوں۔ صرف داڑھی میں نہیں ، اس کے اسلوب میں بھی وہی طرحداری ہے، پیچیدگی ہے۔ جب سید احمد خان “آثار الصنادید” لئے پھر رہے تھے تو اس فقیر نے ہی انہیں مشورہ دیا تھا کہ دہلی کے اجڑے دیار کے بام و در پر قوت صرف کرنے کی بجائےآنے والے دنوں پر نگاہ کرے۔ سید نے بات سمجھ لی اور آج انہیں ہم سب مانتے ہیں۔ فرنودعالم، حسنین جمال، وصی بابا، حاشر بن ارشاد، ذیشان ہاشم تو “ہم سب” کی نثر کے ارکان خمسہ لگتے ہیں۔ ایسا ایسا جملہ ۔۔۔۔ ہر فقرے کی اٹھان پر سبحان اللہ سبحان اللہ کا ورد طاری ہو جاتا ہے۔

یہ مت سمجھو کہ میں “تانیثیت”سے غافل بوڑھا ہوں۔ ہم سب میں تو نسائی آوازوں کی ایک پوری صف ہے پیچھے اس امام کے اور امام یقیناً رامش فاطمہ ہی ہوں گی ۔ معلوم کرو اس قدر تلخی اور کاٹ کہاں سے آ گئی ہے؟ اینگری ینگ وومن نے تو ضمیر کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر وہ ضربیں لگائی ہیں کہ مسلط شدہ معیارات اعتبار کھوتے نظر آتے ہیں۔ حنا جمشید، قرۃ العین فاطمہ، عظمی کیانی، لینہ حاشر، ثنا بتول، طیبہ مصطفئ، لائبہ زینب، زیبا حسین، زنیرا ثاقب، منزوہ طاہر، جفصہ نور ہوں یا تانیہ مرزا۔۔۔۔ سچ جانو ان کی تحریروں سے زندگی کی آس پاتا ہوں۔ اتنی کمسنی اور کم عمری میں یہ فہم اور یہ طبع سلیم، ہو سکے تو سب کو داد پہنچاؤ، دعا پہنچاؤ۔

صاحب! خدا لگتی کہتا ہوں ،عدم آباد جو کوئی آ نکلتا ہے، مدح تمہاری یوں کرتا ہے جیسے تم نے نوجوانوں میں ایک انقلاب دوڑا دیا ہے۔ سال دو سال پہلے یہی سوشل میڈیا تھا جس میں کوئی حکایت ایسی نہ تھی جس میں کوئی حکمت یا استعجاب یا کیف پایا جائےاور اب عالم یہ ہے کہ تم نے “ہم سب”کو علی گڑھ بنا دیا ہے۔ ہو سکتا ہے سلسلہ وجاہت مسعودیہ کے ارادت مند اپنے نام کے ساتھ “علیگ”کی طرح کوئی اچھا سا سابقہ لاحقہ لکھنا شروع کر دیں۔

کچھ عرصہ سے میرے ساتھ والا حجرہ میرےعزیز جمیل الدین عالی کو الاٹ ہوا ہے۔موصوف جب سے آئے ہیں، مجلس آرائی کی سبیل کرتے ہیں ۔ان کو کثرت کلام سے فرصت نہیں اور مجھ کو افراط ضعف سے طاقت نہیں۔ اس لئے ملاقات کم کم ہوتی ہے۔

  اور ہاں پچھلے دنوں تمہارے لاہور سے اسلم کولسری یہاں آئے تھے ۔خوب شعر سنائے ۔یہ شعر سنو اور سر دھنو:

ہنوز سینے کی چھوٹی سی قبر خالی ہے

اگرچہ اس میں جنازے کئی اتارے ہیں

وہ کوئلے سے مرا نام لکھ چکا تو اسے

سنا ہے دیکھنے والوں نے پھول مارے ہیں

نجات کا طالب

غالب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments