سوشل میڈیا کی انفرادی پنچائتیں


\"\"

سوشل میڈیا نے جہاں اس دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا ہے وہیں اس گلوبل ولیج نامی گاؤں میں مختلف پنچائتیں بھی وجود میں آگئی ہیں۔ یہ پنچائتیں اصل پنچایت سے کافی مختلف ہیں۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہر شخص نے اپنی انفرادی پنچایت بنائی ہوئی ہے۔ اس پنچایت میں روز کتنے ہی لوگوں کے خلاف فتوے جاری ہوتے ہیں، کتنوں کو ہی کافر قرار دے دیا جاتا ہے، کسی کو دیسی لبرل کا خطاب ملتا ہے تو کسی کی پروفائل کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اس کے خاندان پر انگلیاں اٹھا دی جاتی ہیں۔ یہ سب کرنے والے اور کوئی نہیں میں اور آپ ہیں۔

ہم صبح اٹھتے ہیں، ناشتے سے فارغ ہو کر سیدھا پنچایت میں جا بیٹھتے ہیں جہاں نیوز فیڈ پہلے سے حاضر ہوتی ہے۔ ہم فوراً تعصب اور نفرت کی عینک لگاتے ہیں اور اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ جہاں کچھ ہمارے مزاج سے مختلف نظر آتا ہے وہیں بس کی بورڈ کی شامت آ جاتی ہے۔ ٹھک ٹھک کر کے کیز دباتے ہیں۔ گھر میں موجود بچے تک دہل جاتے ہیں کہ یا اللہ آج کس بد بخت کی شامت آگئی۔ عورتیں بے چاریاں گھر کے سب سے تاریک کمرے یں دبک کر بیٹھ جاتی ہیں اور ہم سب سے بے نیاز کسی مظلوم کو اپنا بے رحم فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد کسی کی نفسیات پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ کتنے لوگ اس فیصلے سے متاثر ہو رہے ہیں، ہماری جانے بلا۔ ہمارا کام ہے فیصلہ سنانا وہ ہم نے سنا دیا۔ اس کے بعد ہم ٹھک سے لیپ ٹاپ بند کرتے ہیں اور گھر سے باہر لوگوں کے ہجوم میں گم ہوجاتے ہیں۔

شان تاثیر کے کیس میں بھی یہی کچھ ہوا۔ شان تاثیر کی کرسمس کے موقع پر جاری کردہ ویڈیو پیغام سے ایک طبقے کے احساسات مجروح ہوئے۔ انہوں نے پولیس سٹیشن جا کر شان تاثیر کے خلاف ایف آئی آر جمع کروا دی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ پاکستان کا قانون انہیں یہ حق دیتا ہے۔ لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا کیا اس کا حق بھی آئین ہمیں دیتا ہے؟ فیس بک اور ٹویٹر پر شان تاثیر کے خلاف فتوے جاری ہونے لگے۔ دنیا جہاں کی گالیاں لوگوں نے اپنی پوسٹس اور کمنٹس کے ذریعے شان تاثیر کو دیں۔ ہزاروں لوگوں نے ایسی پوسٹس شئیر بھی کیں۔ کئی نے مذمت بھی کی۔ یہاں ایک منٹ کو رکیں اور اس سب کا تجزیہ کریں۔ کیا ہمیں یہ سب کرنے کا حق تھا؟ کیا اس سب سے ہم کہیں سے بھی ایک تعلیم یافتہ اور مہذب قوم لگتے ہیں؟

اب دوسرا واقعہ دیکھیں۔ گزشتہ دنوں فاطمہ جناح یونیورسٹی کے پروفیسر اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن سلمان حیدر غائب ہوگئے۔ ان کے بعد عاصم سعید اور وقاس احمد گورایا بھی غائب ہو گئے۔ سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا۔ ان کی بازیابی کے لئے پوسٹس ہونے لگیں۔ ہیش ٹیگس بن گئے۔ بہت اچھا ہوا۔ عوام نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور حکومت وقت کو ان کی بازیابی کے لئے پریشر میں ڈال دیا۔ لیکن اسی اثناء میں کسی نے یہ پھلجھڑی چھوڑ دی کہ فیس بک پر بھینسا نامی پیج یہ تینوں چلا رہے تھے اور یہ اس پیج پر توہین آمیز مواد شائع کرتے تھے۔ ایسی کچھ پوسٹس کے سکرین شاٹس انٹرنیٹ پر ڈال دیے گئے۔ ساتھ ہی وہ پیج بھی ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ ان سکرین شاٹس کو دیکھ کر عوام کا ایک بڑا طبقہ ان تینوں کے خلاف ایک محاذ بنا کر کھڑا ہوگیا۔ انہیں کافر کہا گیا۔ ان کے چہرے پر پھٹکار بھی ڈھونڈ لی گئی۔ ان کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے والوں کو بھی خوب ہی ذلیل کیا گیا۔

کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ ہی لوگ اس پیج کے ایڈمنز تھے۔ کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ جو سکرین شاٹس وائرل ہو رہے ہیں کیا وہ واقعی اس پیج کی پوسٹس کے ہیں؟ بس سب نے اپنا کی بورڈ سنبھالا اور اپنا فیصلہ سنا دیا۔

ہمیں یہاں سوچنا چاہیے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ سوشل میڈیا نے ہمیں ایک طاقت دی ہے۔ ہم اس طاقت کو غلط طرح سے کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ ہم ایسا ہی کرتے رہے تو ہمارا ملک بالکل تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ کوئی بھی شخص کسی کے بھی بارے میں بس ایک بات کہہ کر نکل لے گا اور پھر لوگ اس بات کی بنیاد پر اس آدمی سے جینے کا حق ہی چھین لیں گے۔ کسی کو سزا دینے کا اختیار ملکی عدالتوں کے پاس ہے اور انہی کے پاس رہنا چاہیے۔ اگر ان تینوں افراد نےکوئی جرم کیا ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اس کے لئے قانون ہے، عدالت ہے۔ انہیں ان کا کام کرنے دیجئے اور اپنی پنچایت کو فی الفور بند کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments