طیبہ کی کہانی، ایک بچے کی داستان نہیں ہے


\"\"سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل سیشن جج کے ہاں ملازمت کے دوران تشدد اورظلم کا نشانہ بننے والی بچی کو پاکستان سویٹ ہومز کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ بچی چند روز خوشگوار ماحول میں رہ کر بیان دینے کے قابل ہو سکے۔ عدالت عظمیٰ از خود نوٹس کے ذریعے اس معاملہ کی سماعت کررہی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد کے ڈی آئی جی کاشف اسلم کو کسی قسم کا اثر قبول کئے بغیر اس معاملہ کی مکمل تحقیقات کرنے اور اگلی سماعت پر تفصیلی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کرنے حکم بھی دیا ہے۔ سماعت کے دوران طیبہ کے والد نے عدالت کو بتایا کہ اس نے جس اسٹام پر انگوٹھا ثبت کیا تھا، اسے اس کے مندرجات کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اس سے کہا گیا تھا اگر اس نے انگوٹھا نہ لگایا تو اسے بچی نہیں ملے گی۔

طیبہ کو دسمبر کے آخر میں انسانی حقوق کی تنظیم کی شکایت پر ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے برآمد کیا گیا تھا۔ دوران ملازمت جج کی اہلیہ نے مبینہ طور پر طیبہ پر تشدد کیا اور معمولی غلطی پر اسے سخت سزا دی جاتی رہی۔ معاملہ سامنے آنے کے بعد ایک وکیل کے ذریعے بچی کے والدین سے معافی نامہ حاصل کرلیا گیا اور ایک دوسرے جج نے اپنے ساتھی جج کی اہلیہ کی ضمانت قبول کرتے ہوئے بچی کو والدین کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ تاہم میڈیا میں اس معاملہ پر خبریں آنے کے بعد چیف جسٹس نے از خود نوٹس کے ذریعے اس معاملہ کی سپریم کورٹ میں سماعت کا حکم جاری کیا تھا۔

کل اس مقدمہ کی سماعت کے دوران بچی کی اصل ماں ہونے کا دعویٰ کرنے والی دو خواتین بھی اپنے دعوے سے منحرف ہوگئیں اور یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ طیبہ پر تشدد کی خبر سامنے آنے کے بعد معاملہ ’رفع دفع ‘ کروانے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے ایک ممبر صوبائی اسمبلی نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ جس وکیل نے طیبہ کے والدین سے معافی نامہ کی دستاویز پر دستخط کروائے تھے ، اس نے ضمانت لینے والے جج کی عدالت میں خود کو طیبہ کے والدین کا وکیل ظاہر کیا تھا۔ اب یہ وکیل حراست میں ہے اور سپریم کورٹ کے حکم پر ڈی آئی جی اس معاملہ کی تحقیقات کررہے ہیں۔

یہ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کی مداخلت اور میڈیا کی توجہ کے سبب طیبہ کو انصاف مل جائے ۔ لیکن حکومت اور ملک کے اداروں کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف طیبہ کا معاملہ نہیں ہے۔ ملک میں لاتعدا د والدین مالی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے کمسن بچوں سے کام کروانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ معاشرے کے اہم ترین کل پرزے بھی اس افسوسناک ، غیر انسانی اور غیر قانونی عمل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ بچے اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتے ہوں یا قالین بافی کی صنعت سے وابستہ ہو یا انہیں گھروں میں ملازم کے طور پر کام دیا جائے، انہیں انتہائی ابتر حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ حالات ملک کی ایک بچی کو انصاف فراہم کرنے سے تبدیل نہیں ہو سکتے۔ طیبہ کی کہانی سامنے آنے اور سپریم کورٹ میں اس معاملہ پر غور ہونے کے نتیجے میں ملک کے حکمرانوں کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری کا ادراک کرنا چاہئے۔

بچوں سے کام لینے کے رجحان کو ختم کرنے کے لئے قوانین کو سخت کرنے اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کے علاوہ لوگوں کی ذہنی تربیت کرنے کے لئے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دوسروں کے کمسن بچوں سے کام لیتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ یہ بچہ بھی ان کے اپنے بچوں کی طرح تعلیم اور دوسری بنیادی سہولتوں کا مستحق ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسلام آباد کے جج کے گھر میں طیبہ پر تشدد نہ کیا گیا ہو اور سامنے آنے والی معلومات رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کی گئی ہوں۔ لیکن قانون کے رکھوالے ایک جج کا یہ جرم بھی کم سنگین نہیں ہے کہ اس نے ایک کمسن بچی کو گھریلو کام کاج کے لئے ملازم رکھا اور وہ طویل عرصہ تک اسے کسی قسم کی کوئی چھٹی بھی نہیں دی گئی۔

طیبہ کی عمر دس سال بتائی جارہی ہے لیکن کل سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران اس کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں، ان میں وہ کسی طرح آٹھ برس سے زیادہ دکھائی نہیں دیتی۔ سپریم کورٹ نے جس طرح طیبہ کے والدین کا تعین کرنے کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دیا ہے، اسی طرح طیبہ کی اصل عمر کا تعین کروانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ تشدد کے الزام سے قطع نظر ایک کم سن کو ملازم رکھنے اور معاملہ افشا ہونے پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس سے نکلنے کے لئے قانون کو غلط استعمال کرنے والے جج کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ اس قسم کے دھندے اور تعاون میں ملوث دیگر کرداروں کو بھی ان کے کئے کی سزا ملنا ضروری ہے۔

تاہم طیبہ اور اس قسم کے مظلوم بچوں کے ساتھ اصل انصاف اسی وقت ہوسکے گا اگر ملک میں بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا خاتمہ کیا جاسکے ۔ سب بچوں کے لئے تعلیم اور مناسب سہولتوں کا اہتمام ہو سکے اور کم سن بچوں سے کام لینے کو ایک سماجی برائی کے طور پر قبول کیا جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments