کیا یہ انسان نہیں ؟(ارشد علی راﺅ)۔


\"\"
سلمان حیدر اور دیگر بلاگرز کے لیے آسمان سر پر اٹھانے والی این جی اوز، سول سوسائٹی ،انسانی حقوق کی تنظیموں اور احتجاج میں موجود بہادر سینیٹرز، ارکان اسمبلی، دلیر صحافی کا ایوارڈ پانے والے اینکر کو اطلاع دی جاتی ہے کہ کراچی کے تعلیمی ادارے میں اپنے فرائض سرانجام دینے والے اللہ کی مخلوق اشرف المخلوقات میں شمار ہونے والے یعنی ایک انسان اسسٹنٹ رجسٹرار عارف حیدر کو محض ان کی سیاسی وابستگی کی بنا پر سادہ لباس فرشتوں نے اغو کرلیا ہے۔ میں جانتا ہوں ایک انسان کی قدروقیمت آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا جس کا اظہار اور سخت ردعمل آپ نے حالیہ چند دن قبل لاپتہ ہونے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے غائب ہونے پر بھرپور احتجاج کی صورت میں دیا۔ لیکن ایک ایسا انسان جس نے کبھی کسی ریاستی ادارے کے خلاف یا مذہبی اشتعال انگیزی پر مبنی کوئی بلاگ نہیں لکھا جسے صرف اس بنیاد پر اٹھایا گیا کہ اس کی وابستگی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ ہے۔ لیکن یہ تو کوئی بات نہ ہوئی ۔ اگر کوئی جرم کیا بھی ہے تو اسے لاپتہ کردیا جائے ،بجائے عدالت میں پیش کرکے س سکا جرم بتانے کے ؟ مجھے معلوم ہے اسلام آباد کی سڑکوں پر آپ قانون کے نفاذ اور اس کی پاسداری کے لیے اہل اختیار سے مورچہ زن ہیں مگر میرا ایک آپ سے معصومانہ سوال ہے ! کراچی کی جامعہ سے اغوا ہونے والا عارف حیدر بھی ایک انسان ہے جیسے سلمان حیدر اور دیگر بلاگرز کو غائب کیا گیا ایسے ہی اس شخص کو لاپتہ کیا گیا ہے۔ کیا اس ظلم پر آواز اٹھائینگے ؟
اسی طرح ایک ستر سالہ بوڑھے پروفیسر حسن ظفر کا کیا قصور تھا جو اسے گرفتار کرکے ہتھکڑی لگائی گئی ؟ کیا اس نے بھی ریاستی اداروں کے خلاف بلاگ لکھا تھا یا سوشل میڈیا پر نفرت پر مبنی مواد کی تشہیر کی تھی ؟ لیکن اس غیر قانونی حراست کے خلاف بھی لبرل سول سوسائٹی خاموش رہی ۔کوئی احتجاجی مظاہرے نہیں ہوئے مگر آج جب کچھ سوشل ایکٹیوسٹ غائب ہوئے تو برساتی مینڈک کی طرح باہر نکل کر آگئے۔ محض کسی کے خیالات سے اختلاف کی بنیاد پر غائب کرنا غیرقانونی عمل ہے اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے تو قانون موجود ہے۔ عدالت میں پیش کرکے اس کے جرم کے مطابق سزا تفویض کی جائے۔ آواز دبانے یا چہرے منظرعام سے غائب ہوجانے پر سوالات کی تدفین نہیں ہوپاتی نہ ہی ان کے نظریات بدلے جاسکتے ہیں لکہ سوالات کا کیڑا نئے اذہان میں کلبلانے کا راستہ تلاش کرلیتا ہے۔ ہم تو پھر بھی بنا کسی تفریق کے مذمت بھی کررہے ہیں اور آواز بھی بلند کررہے ہیں لیکن سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بنا کسی فرق کے انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے ۔پروفیسر حسن ظفر بھی ایک جماعت کا ممبر ہونے سے پہلے ایک انسان ہے اس ظلم پر خاموشی اور دیگر سوشل ایکٹیوسٹ کے اغوا پر واویلا ماسوائے منافقت کے کچھ نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments