نوشتۂ دیوار دیکھ لیں


رنگ بحال ہوگئے ہیں، تصویریں مسکرانے لگی ہیں، دیوار پر گُل بوٹے ایک بار پھر اپنی بہار دکھا رہے ہیں، جو ادھر سے گزرے ان کو دیکھ لے اور ان کو سلام کر لے۔

یہ واقعہ اور کسی جگہ کا نہیں، کراچی پریس کلب کی دیوار کا ہے۔ میں پہلے ہی واضح کردوں کہ کراچی پریس کلب سے میرا براہ راست کوئی تعلّق نہیں ہے۔ اتنا بھی نہیں کہ وہاں کی کینٹین میں بیٹھ کر ایک پیالی چائے کا آرڈر دے دوں۔ اگر وہاں پہنچ کر چائے پینے کا جی چاہے تو کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنا پڑتا ہے جس کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلائی جائے۔ پچھلی دفعہ غنیمت ہوا کہ محترم غازی صلاح الدین ساتھ تھے۔ ورنہ اس خرابے میں چہرے بہت ملتے ہیں، آدمی کم۔

خیر، میں چائے پی لوں یا پینے سے رہ جائوں، کراچی کے لوگوں کی طرح پریس کلب میرے لیے شہر کا انتہائی قابل عزّت مقام ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں یہیں میں نے حبیب جالب کو شعر پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ نئے ہزاریے کے آغاز پر جب شہر کا موسم ان دنوں جیسا ہی تھا، خلیق ابراہیم خلیق کو مضمون پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ نحیف و نزار ضمیر نیازی کو بیماری کے باوجود بلند حوصلے کے ساتھ عالمی امن کے حوالے سے تقریب کا مرکزی حوالہ بنتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ دن بھی یاد ہے جب ایم ایف حسین نے اس کی سفید دیوار کی خاطر اپنے برش رنگوں میں ڈبو دیے تھے۔

یہ تو چند افراد کے نام ہیں۔ ورنہ کتنے ہی مجبور اور بے سہارا اس کی دیوار کے ساتھ پڑائو ڈالے بیٹھے رہتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ان  کو انصاف ملے گا، ارباب انصاف و اقتدار تک ان کی رسائی ہوگی۔ اور محض اس وسیلے سے صحافی ان کے معاملے پر توّجہ دیں گے۔ یہ صحافی جو پریس کلب میں آزادی کے ساتھ چائے پیتے رہتے ہیں، کتنا بڑا سہارا معلوم ہوتے ہیں۔ جب باقی سہارے ساتھ چھوڑ جائیں تو پھر اس زمین پر ایک بہت بڑا سہارا۔

یہ سہارا کتنا بڑا ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوا تھا جب چند ماہ پہلے میں خاص طور پریس کلب کی طرف گیا۔ اس بار پریس کلب کے اندر نہیں بلکہ اس دیوار کی طرف جس پر چند سرپھرے فن کاروں نے نعروں کی جگہ چہرے بنا دیے تھے۔ رنگوں سے اُبھرتے ہوئے وہ چہرے جنھوں نے اس شہر کو افتخار بخشا، جن کی تصویروں میں امید اور عزم زندہ تھا کہ ایک نہ ایک دن حالات بدلیں گے، یہ شہر بھی دوبارہ جاگ اٹھے گا۔ ان چہروں سے مجھے محبت ہے اور میرا سر فخر سے بلند ہوگیا کہ ان سے تھوڑی بہت صاحب سلامت میری بھی رہی ہے۔

میں نے دیکھا اور دیکھ کر خوش ہوا کہ میرے جانے پہچانے لوگ اب میورل (Mural) بن گئے ہیں، اس دیوار کو رنگ اور اس شہر کو استقامت بخش رہے ہیں۔ سفید بالوں اور مسکراتے ہونٹوں والی یہ زبیدہ مصطفیٰ ہیں جو قومی تعلیم اور ترقی کے بارے میں بڑی دل سوزی کے ساتھ مگر حقائق اور استدلال پر مبنی تجزیے لکھتی ہیں۔ میں ان کو تب سے احترام کے ساتھ ’مسز مصطفیٰ‘ کہتا آیا ہوں جب انھوں نے ڈان اخبار میں فیچر لکھنے کے ساتھ کتابوں پر مبنی خصوصی ضمیمے کا ڈول ڈالا تھا اور ان کے بلاوے پر، کان پر قلم رکھ کر میں بھی ساتھ ہو لیا تھا۔ یہ فاطمہ ثریا بجیا ہیں۔ ان سے بھلا کون اختلاف کرسکتا ہے؟ میں نے ان کے بعض ڈرامے نہیں دیکھے لیکن ان سے جب ملاقات ہوتی تھی، گلے لگا کر ماتھا چومے بغیر جانے نہیں دیتی تھیں۔ یہ پروین رحمان ہیں۔ خود جتنی دھان پان، ان کے کام اتنے ہی وقیع۔ ایک پورے ادارے کے ذریعے شہر کی تعمیر و ترقی کا بیڑا اٹھائے ہوئے۔ انھوں نے بڑے پیمانے پر گھپلے اور بے ایمانی کی نشان دہی کی تھی۔ مجھے ان کا وہ انٹرویو یاد ہے جس میں انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا، اس شہر کی اصل مافیا خود حکومت ہے۔ حکومتی اداروں کی سرپرستی میں بدعنوانی بہت منظم طریقے سے کی جاتی ہے، چاہے وہ زمین کی ملکیت کا معاملہ ہو، پانی کی فراہمی کا یا گندگی کی نکاسی کا۔ کتنی بار ان کو بڑے لگن کے ساتھ اورنگی کے دفتر میں کام کرتے دیکھا۔ لٹریچر فیسٹول میں آخری ملاقات ہوئی تھی۔ یہ طے ہوا کہ کسی دن تفصیل سے ملاقات ہوگی۔ کیا معلوم تھا کہ ان کی قسمت میں قاتل کی گولی لکھی جا چکی ہے اور انصاف کی امید معدوم ہو جائے گی۔ کراچی پر یاسمین لاری کی ضخیم کتاب میں نے کتنے شوق سے پڑھی تھی پھر زلزلے کی تباہ کاری کے بعد وہاں کے لوگوں کی آبادکاری کے لیے ان کی ان تھک محنت۔ اور ان سب کے درمیان صبین محمود کا مسکراتا ہوا چہرہ۔ اتنے دن کے بعد بھی میں ان کا نام میں ٹیلی فون سے مٹا نہیں پایا اور اور ان کے ای میل میرے کمپیوٹر میں محفوظ ہیں۔ اب تک میں اپنے آپ کو باور نہیں کرا سکا کہ ان سے رابطے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی۔ اب وہ شہر کی دیوار کا ایک میورل بن گئی ہیں۔

دیواروں پر یہ میورل حکومت وقت نے نہیں بنائے۔ ان کو کسی قسم کا سرکاری اعزاز کسی طور نہ سمجھا جائے۔ یہ ان چند سر پھرے فن کاروں کا کام تھا جو پُلوں کے ساتھ، خالی دیواروں اور کونے کھدروں کو خوبصورت بنانے کے عمل میں خاموشی کے ساتھ جُٹے ہوئے ہیں۔ ایسے بولتے ہوئے کام تو وہی کرسکتے ہیں۔

دیوار پر عظمت کے یہ نشان دیکھ کر میرا سرفخر سے بلند ہونے لگا۔ مجھے لگا یہ جیسے شہر کے محافظ ہیں، نگراں فرشتے۔

ان کے سائے میں کتنے ہی لوگ پناہ لینے لگے۔ انصاف کے حصول کی کڑی مشکلات کے دوران سستانے کے لیے بیٹھ گئے، ان میں ایک گروہ ایسا بھی آیا جو اگلی صبح اٹھا تو دیوار کو مسخ کرکے اٹھا۔

اس اطلاع سے جیسے میرا مان ٹوٹ گیا۔ اس راستے سے گزرنے کی ہمّت نہیں ہوئی۔ ان محترم ہستیوں کی مسخ شدہ صورتوں سے آنکھیں کیسے ملاتا؟

لیکن راستہ چھوڑ دینے سے تقدیر نہیں بدل جاتی۔ اور نہ نوشتہ دیوار مٹ جاتا ہے۔

اور آنکھیں چُرانے سے نظارہ ختم بھی نہیں ہو جاتا، میرے ایک مہربان دوست نے فیس بک پر وہ تصویر لگا دی جس میں ان محترم چہروں کے اوپر نعرے درج کر دیے گئے تھے۔

اچھا، اس طرح گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ کیا میں اپنے آپ کو پیش کر دوں کہ یہاں جگہ باقی رہ گئی ہے۔

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں

جاں دادۂ ہوائے سرِ رہ گزار تھا

اس کی نوبت نہیں آئی۔

کل شام کسی دوست نے فیس بک پر دوسری تصویر جاری کر دی۔ چند لوگ ان مسخ شدہ تصویروں کو درست کر رہے ہیں۔

اچھا، یہ نئے سر پھرے کون ہیں؟ کیا اس جماعت نے اپنے چند لوگوں کی بدتمیزی پر معذرت کر لی؟ کیا حکومت نے اس غلطی کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھا لیا؟ جی نہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو دیواروں پر پھول پتیاں بناتے ہیں اور جنھوں نے ٹرک آرٹ کو لوک ریت کی طرح رواج دے کر دور دور تک پہنچا دیا ہے۔

ان مصوّروں نے شہر کے چہرے کا یہ بدنما داغ مٹا دیا ہے۔

آئیے، موسم کی اس بحالی پر خوشی منا لیں، بدلتے موسم کا اگلا وار ہونے تک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments