بھینسا، بٹیرا اور بھولی بھالی قوم


\"\"آج کل گستاخ بھینسا خبروں پر چھایا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں روز نئی خبر آ جاتی ہے۔ ایک جانور اور بھی یاد آتا ہے۔ وہ بھی کبھی اخبار میں ایسا ہی مشہور ہوا تھا۔ چلیں پہلے پڑھتے ہیں اردو کلاسیک ناول ’فسانہ آزاد‘ کے چند صفحات جو کہ اخبار میں قسط وار شائع ہوا تھا۔

اس ناول میں میاں آزاد اور خوجی ایک نواب صاحب کے دربار میں مصاحب کے طور پر حاضری دیتے ہیں۔ نواب صاحب بٹیر پالنے کے بہت شوقین ہیں اور خاص طور پر اپنے ایک صف شکن نامی بٹیرے پر جان دیتے ہیں۔ میاں آزاد نے شرارت کی اور ایک دن اس کو غائب کر دیا۔ مصاحبوں نے اس کے قصے سنانے شروع کر دیے کہ وہ تسبیح کرتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور ایک بڑا عالم تھا۔ نواب صاحب کو ایک ایک حرف پر یقین آ گیا۔ اس کے بعد میاں آزاد اور میاں خوجی روم (سلطنت عثمانیہ) اور روس کی جنگ میں شریک ہونے چلے گئے۔ واپس پلٹے تو خوجی نے نواب صاحب کو بتایا کہ صف شکن نامی یہ بٹیرا وہاں جنگ میں شریک تھا۔ آئیے پڑھتے ہیں ’فسانہ آزاد‘ کا یہ قصہ۔

نواب: میاں خوجی بھلا کسی مورچے پر گئے تھے یا نہیں یا دور سے ہی سلام دعا کیے۔

خوجی: حضور غلام جو عرض کرے یقین نہ آئے گا۔ یہ آپ کے پاجی درباری مجھے جھوٹا بنائیں گے اور میں جھلاؤں گا۔

نواب: کیا مجال ہے۔ خدا کی قسم اب تم میرے رفیق خواص ہوئے۔ تم نے جو تجربہ حاصل کیا ہے بھلا دوسرا تمہارا مقابلہ کر سکتا ہے۔

\"\"خوجی: حضور کی ذرہ نوازی ہے ورنہ میں کس قابل ہوں۔ حضور ایک روز کیا ہوا کہ میں چشمے کے کنارے افیم گھول رہا تھا کہ اچانک درخت کی طرف جو نظر کرتا ہوں تو روشنی نظر آتی ہے۔ سوچا یا الہیٰ یہ کیا ماجرا ہے؟ حیران ہو رہا تھا کہ یہ روشنی کہاں سے آئی۔ اچانک حضور صف شکن علی شاہ پُھر سے آن کر ہاتھ پر بیٹھ گئے۔

نواب: شکر خدا۔ ۔ ۔ ہزار شکر۔ پھر کیا ہوا؟ بڑے خوش ہوئے ہوں گے۔

خوجی: حضور یوں لگا جیسے کروڑوں مل گئے ہوں۔ دنیا بھر کی بادشاہت مل گئی۔ حضور کا حال بیان کیا۔ یہاں کا ذکر چھِیڑا۔ بس حضور پھر تو یہ کیفیت تھی کہ کسی لڑائی میں دشمن کی فوج جم نہ سکی۔ جنگ ہوئی اور روسیوں نے توپ پر بتی لگائی۔ ادھر میرے شیر نے کیل ٹھونک دی۔

نواب: ایں۔ ۔ ۔ ہاہاہا۔ واللہ اے میرے صف شکن علی شاہ۔

خوجی: حضور خشکی پر تو ہر کوئی لڑ سکتا ہے مگر تری میں لڑنا سخت مشکل ہے۔ سو حضور صف شکن تری کی جنگ میں اور بھی بڑھ کر ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹا سا دریا تھا۔ اس طرف ہم اور اس طرف دشمن کا لشکر۔ دریا کے کنارے پر مورچہ بندی ہو گئی اور گولیاں چلنے لگیں۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ صف شکن موجود۔ آتے ہی آؤ دیکھا نہ تاؤ، ایک کنکری لے کر کچھ پڑھ کے اس زور سے پھِینکی کہ ایک توپ پھٹ گئی اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔

نواب: ایں۔ ۔ ۔ واہ واہ کیا کہنا صف شکن بہادر کا۔

مسیتا بیگ: سبحان اللہ سبحان اللہ۔ ذرا غور کا مقام ہے کہ ایک ذرا سی کنکری کا دانہ اور توپ کے بہتر ٹکڑے کر دیے۔

درباری: کیا کہنا۔ اللہ رے کنکری۔

\"\"

خوجی: ہونہہ کنکری۔ ۔ ۔ اب سنیے دوسری کنکری جو پڑھ کے پھِینکی تو ایک اور توپ پھٹی اور بہتر ٹکڑے ہوئے اور کوئی تین چار ہزار آدمی زخمی ہوئے اور مرے۔

نواب: اس کنکری کو ملاحظہ فرمائیے، کیا بلا کی کنکری تھی۔ اللہ اللہ دو سو ٹکڑے توپ کے اور چار ہزار روسی زخمی و ہلاک۔ خدا کی شان۔ واہ رے میرے صف شکن۔ واللہ ہم نے تیری قدر نہ کی۔

خوجی: حضور چودہ توپیں اڑ گئیں اور جتنے آدمی بیٹھے تھے سب زخمی ہو گئے۔ حضور آج تک کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہوا۔ ایک گولہ بھی پڑا ہوتا تو لوگ سمجھتے کہ شاید اس گولے میں کچھ سامان ہے۔ کچھ مسالہ ہی ایسا تھا۔ مگر ذرا سی کنکری تو کسی کو معلوم ہی نہ ہوئی۔

نواب: اور کیوں کر معلوم ہوتی۔ ماش کے دانے کے برابر کنکری۔ مگر بلا کی تھی کہ توپ کو اڑا دیا اور دو ہزار ٹکڑے کر ڈالے اور ہزارہا آدمیوں کی جان لی۔ اللہ رے کنکری کے کمال۔ جادو ہے کہ کنکری ہے۔ واہ بھئی۔ ارے کوئی جا کے صف شکن کا پنجرہ تو لائے۔

خوجی: حضور ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پہاڑ کے اوپر تو روسی اور نیچے ہماری فوج اور ہمیں معلوم نہیں کہ روسی موجود ہیں۔ ہم نے پہاڑ کے دامن میں پڑاؤ کرنے کا حکم دیا۔ سپاہیوں اور سواروں نے وردیاں اتاریں اور کھانے پینے کی فکر ہونے لگی۔ میں ایک ندی کے پاس بیٹھا افیم گھول رہا تھا کہ پہاڑ پر سے تالیوں کی آواز آئی۔ یا الہی یہ تالیاں کس نے بجائیں۔ سب کے سب پھر غور سے دیکھنے لگے۔ میں پیالی ہونٹوں تک لے گیا تھا کہ اوپر سے روسیوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ کوئی چار سو بندوقیں ایک ہی بار چلائی گئی تھیں۔ آدھے آدمی زخمی اور ہلاک ہوئے۔ مگر واہ ہے میں خدا گواہ ہے پیالی ہاتھ سے نہ چھوٹی۔ اب سنیے کہ فوراً صف شکن علی شاہ موجود اور میرے ہاتھ پر بیٹھ کر چونچ کو افیم سے تر کیا اور زور سے چونچ جو کھولی تو دو قطرے سیدھے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچے۔ پہاڑ جو پھٹا تو خوفناک آواز آئی لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارا ایک بھی آدمی ہلاک نہ ہوا۔ بس میں نے صف شکن کا منہ چوم لیا۔ اب ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ہزار ہا روسی مرا ہوا پڑا ہے۔ سارا ساز و سامان بھی تباہ۔ کہاں پہاڑ کی چوٹی اور کہاں افیم کے دو قطرے۔ خدا جانے کیا بات تھی کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ اور لطف کی بات یہ کہ ان سے جو ہاتھ جوڑ کر پوچھا تو مسکرا کر خاموش ہو رہے۔ ایک بار اڑتے اڑتے جھپٹے اور مجھے چونچ سے اٹھا لیا۔

نواب: ایں، ارے میاں صف شکن نے؟ میرے صف شکن نے؟ شاباش، واہ رے صف شکن۔

تو یہ تھا ڈیڑھ سو پہلے کے ایک بٹیرے کی خود ساختہ کرامت اور ہماری قوم کے بلا تحقیق سنی سنائی پر اعتبار لے آنے کا قصہ۔ اب آج کے دور میں واپس آتے ہیں اور گستاخ بھینسے کی بات کرتے ہیں۔

\"\"اچانک بھینسا نامی بدنام زمانہ فیس بک پیج غائب ہو گیا ہے۔ وہ ڈی ایکٹی ویٹ ہو گیا ہے یا ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے مگر اب غائب ہے۔ پہلے پہل افواہیں چلیں کہ گمشدہ بلاگر اس پیج کے مالک تھے اس لئے بلاگروں کی طرح وہ وہ بھی غائب ہو گیا ہے یا پھر ڈر کر اسے بند کر دیا گیا ہے۔ قوم نے بغیر کسی ثبوت کے اس بات پر یقین کر لیا کہ گمشدہ بلاگر ہی اس کے مالک ہیں۔ خاص طور پر سلمان حیدر کا نام لیا گیا اور نہایت وثوق سے بتایا گیا کہ وہ اس کے مالک ہیں۔ بھینسے کے خلاف بات کرنے والے بتاتے ہیں کہ وہ ملحدانہ نظریات کا پرچار کرنے والا پیج تھا جو بلاسفیمی کرتا تھا۔  جو پوسٹیں ہماری نظر سے گزری ہیں ان کے مطابق یہ بات درست ہے اور اسے چلانے والے بلاسفیمی کے مرتکب ہوئے ہیں۔  سلمان حیدر کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ وہ اللہ رسول کو ماننے والے تھے اور اہل تشیع سے ان کا تعلق ہے۔ ان کی فیس بک وال ان کے دوستوں کی بات کی تائید کرتی ہے۔ بہرحال قوم نے بغیر کسی ثبوت کے مان لیا کہ یہ گستاخ پیج سلمان حیدر کا ہی ہے۔

پھر اس بدنام زمانہ بھینسے کے غائب ہونے کے بعد دو تین نئے پیج اس نام سے آ گئے جو کہ گستاخ بھینسے کے برخلاف اچھی اچھی باتیں کرنے لگے تو قوم نے بیان کیا کہ اس پیج کا کنٹرول ان نیک لوگوں نے سنبھال لیا ہے جن کے قبضے میں یہ بلاگر ہیں۔ پیج پرانا ہی ہے، مگر اب اس کے ایڈمن اچھے لوگ ہیں، اس لئے اسے خوب لائک کیا جائے۔ نعرے بلند ہوئے کہ گستاخ ملحد بھینسا مسلمان ہو گیا ہے۔ اس نئے پیج پر بھی لکھا ہوا ہے کہ یہ پیج اب ایلیٹ سائبر فورس آف پاکستان چلا رہی ہے اور تمام توہین آمیز اور گستاخانہ پوسٹیں ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں۔

\"\"

ڈیڑھ صدی پہلے ہماری بھولی بھالی سی قوم صف شکن بٹیرے کی کرامات بھی مان رہی تھی اور آج یہ بھولی بھالی سی قوم نئے بھینسے کی بات پر بھی یقین کر رہی ہے اور کہتی ہے کہ پیج پرانا ہے اور ایڈمن نئے۔

لیکن ایک منٹ رکیں۔ دعوے کی تصدیق کی کوشش کرتے ہیں۔ گوگل پر سرچ کریں تو بھینسا نامی اس رسوائے زمانہ پیج کی پرانی پوسٹیں دکھائی دیتی ہیں جن پر اس کی فیس بک اور ٹویٹر کی آئی ڈی موجود ہے۔ فیس بک پر سرچ کرنے پر اسے رپورٹ کرنے کے لئے لگائی گئی پوسٹیں بھی دکھائی دیتی ہیں جن میں پیج کی آئی ڈی اور ایڈریس موجود ہے۔ یہ آئی ڈی bhensaa2 کے نام سے ہے۔ جبکہ نئے پیج کی آئی ڈی bhensaofficial کے نام سے ہے۔ آپ ایک ہی نام کا پیج تو بنا سکتے ہیں، مگر ایک ہی نام کی دو آئی ڈی بنانا ممکن نہیں ہے۔

بہتر ہے کہ ہماری بھولی بھالی سی قوم کسی بات پر اندھا دھند یقین کر نے کی بجائے خود معمولی سی تحقیق کرنے کی کوشش کر لیا کرے ورنہ وہ بھینسے اور بٹیرے کے نام پر مسلسل بے وقوف بنتی رہے گی۔

یہ نہ ہو کہ ہماری اس سادگی سے اصل مجرم بچ جائیں اور یہ گمشدہ بلاگر بھینسا نہ چلانے کے باوجود بھی عوامی عدالت سے بلاسفیمی کے جرم میں سزائے موت پا لیں۔ اس معاملے کا فیصلہ ریاستی عدالت میں ہی ہونے دیں جہاں سزا افواہوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ پکے ثبوت کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔

\"\"سنہ 2015 میں گستاخ بھینسے کو رپورٹ کرنے کی خاطر فیس بک پر لگائی گئی ایک پوسٹ

i request to all of you.. please Report & Block this page. bcz it\’s #anti_Islam
https://www.facebook.com/bhensaa2

نئے بھینسے کی آئی ڈی جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پیج پرانا ہے مگر انتظامیہ نئی ہے۔
https://www.facebook.com/BhensaOfficial/

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments