جاوید صدیقی کا لنگر خانہ


کسی شخص کے بارے میں کچھ لکھا جائے تو وہ خاکہ کہلاتا ہے۔ خاکہ کھینچا بھی گیا، خاکہ اڑایا بھی گیا، اب تک بس یہی تین کام ہوئے۔ جاوید صاحب کے خاکے “روشن دان” کی صورت آئے تو معلوم ہوا کہ خاکہ بنایا بھی جاتا ہے، الفاظ سے باقاعدہ خاکہ پینٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کے تمام خاکے یادگار تھے اور وہ موگرے کی بالیوں والی تو خیر شاہ کار تھا۔

“یار تم نے لنگر خانہ پڑھی ہے۔ نہیں یہ کس کی ہے؟ جاوید صدیقی کے خاکے ہیں۔ بات سن، ابھی بھیج دے۔ ابھی میں نے پڑھنی ہے، چل بھئی پھر جلدی پڑھ، میں لے جاؤں گا پرسوں۔” تو ان مکالموں کے بعد ایک دن کی مہلت دی گئی اور خریدار کے نصیب میں کتاب جلدی جلدی پڑھنا لکھ دیا گیا۔ کتاب تیسرے دن گناہ گار ہاتھوں میں تھی۔

اس میں کل آٹھ خاکے ہیں۔ حسین صاحب اور ستیہ جیت رے کے بارے میں بہت کم چیزیں اردو والوں نے لکھیں۔ تو یہ دونوں خاکے ایک نعمت ہیں۔ جاوید صاحب نے رے کی ایک فلم کے ڈائیلاگ لکھے۔ یہ موقع انہیں کیسے ملا، یہ بھی ایک الگ کہانی ہے اور پوری تفصیل کے ساتھ کتاب میں موجود ہے۔ بعد میں ڈائیلاگ ڈائریکشن بھی ان کے ذمے لگی اور یوں انہیں کچھ عرصہ رے صاحب کے ساتھ گزارنا نصیب ہوا۔ اس دل چسپ تجربے کی تمام یادوں کو اس خاکے میں سجایا گیا ہے۔ ستیہ جیت رے چھ فٹ چار انچ کے تھے، کمال ہے، تصویروں میں اتنا اندازہ نہیں ہوتا، لیکن خاکہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے۔

“زبان کوئی بھی ہو، لفظوں کی اپنی موسیقی ہوتی ہے، یہ موسیقی صحیح ہونی چاہئیے۔ اگر ایک سر غلط لگ گیا تو پورا سین بے معنی ہو جاتا  ہے۔” فلم میکنگ کے بنیادی اصولوں میں اسے ایک، رے صاحب کے نزدیک یہ تھا۔ پاتھر پنچالی ان کی تین شاہکار فلموں کی سیریز میں سے پہلی فلم تھی۔ اس فلم کو مکمل کرنے میں ان کی بیگم کے زیور بھی بک گئے لیکن یہ ان کی لگن تھی رے صاحب کے ساتھ، اور لگی میں سونا نہیں دیکھا جاتا۔ انہیں سب پیار سے مانک دا کہتے تھے۔

اپنے کام سے مانک دا اتنے مخلص تھے کہ چار سیکنڈ کے سین کو بھی جب تک پرفیکٹ نہیں کر لیتے تھے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ پاتھر پنچالی کے بعد اپور سنسار آئی تو ایک صحافی نے پوچھا کہ اس فلم میں تو اتنے سارے شاٹس گھوم پھر کر لیے گئے ہیں جب کہ پاتھر پنچالی میں کیمرہ ایک ہی جگہ ہوتا تھا، آپ نے ٹیکنیک کیوں بدلی، رے صاحب کا سیدھا سادا جواب تھا، “اس وقت میرے پاس ٹرالی نہیں تھی۔” ایسے بہت سے چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جنہیں ملا کر جاوید صاحب نے رے کی تصویر بنا کر رنگ بھر دئیے ہیں۔

بی حضور ان کی دادی کا خاکہ ہے۔ وہ بھی ویسی ہی تھیں جیسی سب کی دادی ہوتی ہیں، چوبیس گھنٹے نمازیں پڑھنے والی۔ پھر ایک دن جاوید صاحب نے ایک فرمائش کی تو دادی نے اپنی پوری جمع پونجی لا کر ان کے ہاتھ پر دھر دی۔ خود اس سال وہ اہم کام نہیں کیا جس کے لیے پیسے جمع کیے تھے۔ اور پھر جب پیسے جیب میں ہونے کے باوجود کوئی چیز خریدی نہ جا سکے، تو جو حسرت ہوتی ہے، اس خاکے میں وہ مجسم ہے۔

ایف ایم حسین صاحب کا خاکہ ایک خانہ بر دوش درویش کی داستان ہے۔ وہ آدمی جو اچھا بھلا ویل سوٹڈ ہو کر بھی ننگے پاؤں گھومتا تھا۔ جو بھارت کا مشہور ترین مصور تھا اور کسی چھپر ہوٹل میں جا کر بلاتکلف چائے پی لیتا تھا۔ دل کا شہزادہ تھا، زمین سے رشتہ نہ توڑنے کے چکر میں جوتوں کے بغیر سردی گرمی گھومتا رہتا تھا۔ مادھوری اور ان کو لے کر کافی باتیں کی جاتی رہیں لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتے۔ انہیں مادھوری کی صورت میں ایک مکمل عورت دکھائی دیتی تھی۔ یہاں تک کہ مادھوری میں انہیں ماں کی پرچھائیں بھی ملتی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں کہنے لگے کہ فلم تو میں شروع سے بنانا چاہتا تھا لیکن اس میں تیس برس کی دیر تو صرف مادھوری کے پیدا اور جوان ہونے کی وجہ سے ہوئی۔ ستیہ جیت رے سے حسین صاحب ملنے گئے تو وہاں بھی عجیب دلچسپ واقع پیش آیا۔ دو بڑے فن کار آمنے سامنے بیٹھے کیا کرتے رہے، دلچسپ تفصیل ہے۔

خیر پھر حسین صاحب کے ساتھ بڑے فن کاروں والا سلوک شروع ہوا اور آخر کار انہیں ملک چھوڑ کر جانا پڑا، قطر گئے، وہاں کی شہریت ملی اور ایک تناور درخت اپنی مٹی چھوڑنے کے بعد کم ہی جی پایا۔

کیفی اعظمی صاحب کا خاکہ بھی عمدہ بنایا گیا ہے۔ ان کی شگفتہ بیانی کے بہت سے قصے موجود ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے پیٹ کا آپریشن کروایا، ڈاکٹر نے کہا منہ بند کریں اور ناک سے سانس لیجیے، کہنے لگے، منہ میرا نہیں بال ٹھاکرے کا بند کرواؤ۔ “سوشلزم، شاعری، شراب، شوکت، شبانہ اور شریر بچے، ان کی دنیا میں بس یہی تھا۔”

ڈرامے بھی بہت سے لکھے۔ بقول ان کے، اچھا ڈرامہ وہ ہوتا ہے جسے دیکھ کر دنیا اچھی لگنے لگے۔ کیفی صاحب کو فالج ہوا، لیکن وہ فالج کو ہو گئے۔ تیس برس سے زیادہ اس بیماری کے ساتھ روزمرہ معاملات چلاتے رہے۔ پھر جب مرنا لکھا تھا تو تین سیکنڈ نہیں ملے۔

“مجھے وارث صاحب سے ملنے کی جتنی بے تابی تھی، اتنا ہی شوق پرانی حویلی، پھول اور نایاب کتابیں دیکھنے کا تھا۔” اس کا مطلب یہ ہوا کہ جاوید صاحب اور فقیر کے شوق ایک سے ہیں۔ اسی چکر میں وہ ملنے چلے گئے۔ وارث علوی کے بارے میں لکھا گیا مضمون بہت سی یادوں، ملاقاتوں میں سے کھرچ کر نکالا گیا ہے۔ سوندھی خوشبو والی کھرچن شاید یہی ہوتی ہو گی۔

“حق کی لڑائی میں بھاگ جانے والے نہیں، ڈٹ جانے والے جیتتے ہیں۔” یہ اور ایسے کئی جملے اس کتاب میں موجود ہیں جو پڑھتے پڑھتے یک دم سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ شمع زیدی آرٹ کریٹیک رہیں، فلم، تھیٹر پر کئی مضامین لکھے، امراو جان ادا، شطرنج کے کھلاڑی، زبیدہ اور کئی دوسری فلموں کے مکالمے لکھے۔ کاسٹیوم ڈیزائین، سیٹ ڈیزائین، سکرین پلے، ڈائریکشن، جس شعبے میں بھی کام کیا، ایسے نشان چھوڑے کہ آج بھی لوگ جن کی پیروی کریں۔ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن سے بھی وابستہ رہیں۔ تو یہ حق کی لڑائی والی بات ان کے خاکے میں موجود ہے۔ ترقی پسند تھیں، دوردرشن میں کام کرتے کرتے سرکاری پابندیوں سے پریشان ہو کر بمبئی آ گئیں۔ زندگی پھر سے شروع کی۔

وہ کم بولتیں لیکن جب بولتیں تو لوگ کہتے کہ یہ بولتی ہے۔ شمع زیدی لگی لپٹی رکھنے کی قائل نہیں ہیں، “وہ گھما پھرا کر بات کرنا بالکل پسند نہیں کرتی ہیں اور سچ کی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ وہ جب ننگ دھڑنگ سامنے آتا ہے تو زوردار جھٹکا لگتا ہے اور شمع بی بی ایسے جھٹکے دینے کے لیے بدنام ہیں۔” جاوید صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہیں کسی ایسی ورکشاپ میں بلایا گیا جہاں عورتوں کے مسائل پر بات ہونی تھی۔ تقریباً سو لوگ موجود تھے جن میں صرف پانچ عورتیں تھیں۔ شمع کہنے لگیں، “جب تک مرد عورتوں کے بارے میں سوچتے رہیں گے، عورتوں کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ مجھےاور کچھ نہیں کہنا۔”

“شمع میری محبوبہ نہیں ہیں مگر وہ میری ہم خیال، ہم قدم، ہم قلم، ہم نوا اور ہمدرد ہیں۔” یہ جملہ پڑھنے والوں کی بہت سی گرہیں کھول سکتا ہے۔

اکبری بوا خاکے سے زیادہ ایک کہانی ہے۔ بلکہ پوری آپ بیتی ٹائپ کا خاکہ ہے۔ ایک عورت کا خاکہ جن کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا، لیکن وہ پرعزم رہیں، محنت مزدوری کرتی رہیں، کبھی کسی سے مدد نہیں مانگی بلکہ وہ لوگ جنہوں نے ان کو برے حالوں پہنچایا، ان کی بھی ہمیشہ مدد کی۔ ایسی عورت جو بچہ نہ ہونے پر سات برس بعد خود اپنی پسند سے اپنی سوتن لائے اور اس کی ایسے خدمت کرے کہ جیسے کوئی اپنی ماں کی کرتا ہو گا، تو اس کا ظرف کیسا ہو گا؟ باقی خاکے ایک طرف اور یہ ایک خاکہ ایک طرف۔ اگر اسے ان تمام خاکوں میں شمار کیا جائے تو ان کی درجہ بندی مشکل ہو جائے گی۔ ہاں اگر اسے الگ کر لیں تو پھر کام آسان ہے۔

آخری خاکہ ایک ایسے مخلص اور شریف انسان کی کہانی ہے جو ہم میں سے ہر ایک کی زندگی میں ہوتا ہے لیکن اکثر ہم اسے اگنور کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کوئی ایسا دوست جو بس غیر محسوس سا، شریف سا یا عام سا ہو، باقی سب کا خیال رکھتا ہو، اس کی موجودگی محسوس نہ ہوتی ہو اور نہ اس کا جانا محسوس ہو لیکن بیٹھ کر سوچا جائے تو زندگی میں کئی ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات نظر آ جائیں جو بار بار اس کی یاد دلائیں۔

“امید بڑی خوبصورت ہوتی ہے، اور بہت ظالم بھی۔ کالج کی اس حسین لڑکی کی طرح جس پر ہر لڑکا عاشق ہوتا ہے اور وہ ہر روز سب کو ایک مسکراہٹ اور بہت سے خواب دے کر چلی جاتی ہے۔ بیکس صاحب بھی امید کے مارے ہوئے تھے۔” تو یہ پورا خاکہ بے کس صاحب کی امید اور ناامیدی کے درمیان جھولتا نظر آتا ہے۔

کل ملا کر یہ کتاب ایک ہی نشست میں پڑھی جا سکتی ہے اور آرام سے ہضم بھی ہو جاتی ہے۔ غیر ضروری لفاظی سے پرہیز ہے اور ہلکے پھلکے انداز میں بات کہی گئی ہے۔ کتاب کے پاکستانی ایڈیشن پر تمام بڑے اور اہم ادیبوں کے تبصرے بھی موجود ہیں۔ انہیں باعث برکت یا احترام کہہ لیجیے تو سمجھ میں آتا ہے ورنہ جاوید صدیقی کا لکھا اب کس تعارف، توصیف یا تنقید کا محتاج ہے؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments