بلاگرز کی گمشدگی۔۔۔ ذمہ دار کون ہے؟


\"\"قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان نے وزارت داخلہ سے گزشتہ دنوں کے دوران پانچ سماجی کارکنوں اور بلاگرز کی اچانک گمشدگی کے حوالے سے استفسار کیا ہے کہ ان لوگوں کو کن اداروں نے غائب کیا ہے۔ چند روز قبل جب اسلام آباد کے پروفیسر، شاعر اور ڈرامہ نگار و بلاگر سلمان حیدر اچانک غائب ہو گئے تھے تو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں بتایا تھا کہ وہ اس بارے میں پتہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں اور امید ہے کہ انہیں جلد ہی رہا کردیا جائے گا۔ اس کے بعد سے مزید کئی بلاگرز اچانک غائب ہو چکے ہیں۔ ملک میں آزادی رائے اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے عناصر کو ان لاقانونی گمشدگیوں پر تشویش ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر اسے اسلام اور فوج کے خلاف بعض عناصر کی مہم جوئی اور اس کے خلاف جوابی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔

ملک میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کی پالیسی کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہے۔ خاص طور سے بلوچستان میں لوگوں کو اٹھانے اور پھر ان کی تشدد زدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ کئی برس سے جاری ہے۔ چند برس قبل سپریم کورٹ نے اس حوالے سے کارروائی بھی کی تھی اور متعدد لاپتہ لوگوں کے بارے میں اہم سرکاری اداروں کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ حکومت نے بھی لاپتہ افراد کا پتہ چلانے کے لئے کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن نے متعدد لوگوں کو بازیاب کروایا ہے ۔لیکن نہ تو ملک میں لوگوں کو کسی قانونی اختیار یا طریقہ کار کے بغیر اٹھانے کا سلسلہ بند ہؤا ہے اور نہ ہی لوگوں کو اچانک غائب کردینے والے اداروں یا افراد کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس طریقہ کو کسی نہ کسی حد تک حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ بات بھی پورے یقین سے کہنا ممکن نہیں ہے کہ اس کارروائی میں صرف عسکری ادارے ہی ملوث ہوتے ہیں۔ سول حکومتوں کے تحت کام کرنے والے بعض ادارے بھی اس قسم کی غیر قانونی کارروائی میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ اس بارے میں چونکہ کبھی معلومات سامنے نہیں آتیں اور کسی شخص کے بازیاب ہونے کے بعدیہ تفصیل بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ اسے کس نے اور کیوں غائب کیا تھا، اس لئے یہ حقیقت راز ہی رہتی ہے کہ اس غیر قانونی حرکت میں کون ملوث تھا۔ اس صورت حال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عام تاثر یہی قائم ہوتا ہے کہ ایسی گمشدگیوں میں عسکری ادارے ملوث ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال فوج کے اعتبار اور قومی ادارے کے طور پر شہرت کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔

گزشتہ دنوں جن سماجی کارکنوں اور بلاگرز کو غائب کیا گیا ہے ان کے حوالے سے مختلف نوعیت کی معلومات سوشل میڈیا کے ذریعے عام کی جارہی ہیں۔ ان میں ایک خبر یہ ہے کہ یہ لوگ ایسی ویب سائٹس چلارہے تھے جو اسلام اور فوج کے خلاف توہین آمیز اور اشتعال انگیز مواد شائع کرتی تھیں۔ یہ ممکن ہے کہ یہ سب لوگ یا ان میں سے کچھ اس قسم کی حرکتوں میں لوث ہوں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ان پر جان بوجھ کر ایک مہم کے ذریعے الزامات عائد کرنے اور لوگوں میں ان کا امیج خراب کرنے کے لئے یہ خبریں پھیلائی جا رہی ہوں۔ کیوں کہ اگر یہ لوگ واقعی ایسے جرم کے مرتکب تھے جو ملکی قوانین کی زد میں آتے ہیں تو سرکاری ادارے انہیں قانون کے مطابق گرفتار کرکے ان کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کرسکتے تھے۔

انسانی حقوق کمیشن اور سول سوسائیٹی کی طرف سے بھی یہی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اگر کسی شخص نے ملک کا کوئی قانون توڑا ہے تو اس کے خلاف مروجہ نظام کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے۔ یوں بھی اگرکسی ایسے شخص کے خلاف خبریں پھیلائی جائیں گی جو جواب دینے کے لئے موجود نہیں ہے تو یہ انصاف اور انسانی اخلاقیات کے تمام اصولوں کے خلاف سمجھی جائیں گی۔ ان لوگوں پر بعض ایسی ویب سائٹس چلانے کا الزام عائد کیا جارہاہے جن کے بارے میں سوشل میڈیا کے ذریعے بتایا جارہا ہے کہ ان پر ناقابل قبول مواد شائع کیا جاتا تھا۔ تاہم یہ الزام بھی اس وقت تک درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک متعلقہ شخص کو جواب دینے کا موقع نہ دیا جائے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی بھی کسی بھی قسم کی خبر پھیلا سکتا ہے۔ کوئی اس کی گرفت نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی تردید کا امکان موجود ہوتا ہے۔ ملک میں توہین مذہب کے علاوہ اب سائبر جرائم کے حوالے سے بھی قوانین موجود ہیں۔ اگرچہ ان قوانین کے بارے میں اختلافات موجود ہیں لیکن یہ ملک کے قانون ہیں اور ملک کے ادارے اور عدالتیں ان کے تحت کسی شخص کو سزا دے سکتی ہیں۔ اس کے باوجود اگر بعض اداروں کو لوگوں کو اٹھانے اور تشدد کرنے کا حق دیا جاتا ہے تو اسے حکومت اور مملکت کی کمزوری سمجھا جائے گا۔

یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ادارے مجبوری کی حالت میں گھناؤنے جرائم میں ملوث لوگوں کو اٹھاتے ہیں کیوں کہ وہ جرم میں ملوث تو ہوتے ہیں لیکن ملک کی پولیس اور قوانین ایسے مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔ اس دلیل کو ماننا ممکن نہیں ہے۔کوئی ریاست اپنے اداروں کو ماورائے عدالت اختیار دے کر مہذب معاشرہ تشکیل دینے کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ اس کے علاوہ جو قوتیں اس قدر با اختیا رہیں کہ وہ کسی بھی شہری کو غائب کرکے اس کے ساتھ کوئی بھی سلوک کرسکتی ہیں ، وہ حکومت وقت پر دباؤ ڈال کر ملک کے قوانین کو کیوں مؤثر نہیں بنوا سکتیں۔ اس سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ کسی نہ کسی وجہ سے حکومت اور مقتدر ادارے اس طریقہ کار کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو مسلسل خوف و ہراس کی فضا میں رہنے پر مجبور کیا جائے۔

اس صورت حال کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے خلاف اس وقت تک صدائے احتجاج بلند ہونی چاہئے جب تک ریاست کے سب ادارے یہ ماننے پر مجبور نہ ہو جائیں کہ ملک میں آئین و قانون سے بالا کسی بھی قسم کے مزاج یا رویہ کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments