مصور کا آسمان ادھورا رہ گیا


 وسیم ایک چھلاوا تھا۔ ہم یار بیلی اسے ظالم ر نگ ساز کہتے تھے۔ ظالم اس کا تکیہ کلام تھا جو بالآخر دوستوں میں اس کا نام پڑ گیا ۔ کوئٹہ کی بولی میں ظالم ایک مفہوم میں بہت اچھا یا بہت خوبصورت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ وسیم کالج کے بعد مختلف گھروں وغیرہ میں رنگ و روغن کا کام کرتا تھا۔ ہماری پہلی ملاقات سائنس کالج میں تھرڈ ائیر کے فزکس کے کلاس میں ہوئی۔ شمس الخطاب صاحب motion سمجھا رہے تھے۔ انہوں نے کچھ ایسی مثال دی کہ ایک آدمی ہے جس کے ہاتھوں میں چائے کا ایک کپ ہے اور وہ چلتی ٹرین میں اپنی سیٹ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اب ہم فریم آف ریفرینس بدل بدل کر دیکھتے ہیں کہ چائے کتنی مختلف موشنز میں ہے؟ ایک فریم آف ریفرینس یہ آدمی خود ہے۔ اس کے ہاتھ میں کپ ہل رہا ہے تو چائے ایک موشن میں ہے۔ ایک فریم آف ریفرینس سیٹ پر بیٹھا دوسرا آدمی ہے۔ اب چائے والا بھی چل رہا ہے اور اس کے ہاتھ میں کپ بھی ہل رہا ہے تو چائے دو موشنز میں ہے۔ ایک آدمی ٹرین کے نیچے کھڑا ہے۔ ٹرین چل رہی ہے۔ آدمی چل رہا ہے اس کے ہاتھ میں کپ ہل رہا ہے۔ کپ میں چائے ہل رہی ہے۔بڑھتے بڑھتے شمس الخطاب صاحب نے فریم آف ریفرینس بدلنے شروع کئے اور سوال داغا کہ اگر ایک آدمی سورج پر بیٹھا ہے تو اس کے لئے چائے کتنی مرتبہ موشن میں ہو گی؟ کسی نے دس کہا، کسی نے بارہ کہا۔ پہلی بار وسیم ظالم کی آواز آئی۔ سر ایک سوال ہے۔شمس الخطاب صاحب نے کہا، پوچھیے۔ وسیم کی آواز ابھری۔ سر! فزکس کی رو سے 5,778 کیلون درجہ حرارت میں ایک ظالم آدمی کتنی دیر سورج پر زندہ رہ سکتا ہے تا کہ وہ 149 ملین کلومیٹر دور زمین پر ٹرین میں چلنے والے آدمی کی چائے کا موشن دیکھ سکے؟ کلاس میں ایک قہقہہ ابھرا مگر شمس الخطاب صاحب کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ انہوں نے وسیم کو ڈانٹ کر کلاس سے نکال دیا۔

وسیم ایسا ہی تھا۔ وقت بے وقت عجیب و غریب سوال پوچھنے والا۔ وہ روایتوں، قاعدوں کا باغی آدمی تھا۔ وہ چیزوں کو نئے زاویئے سے دیکھنے کا عادی تھا۔ سوال اٹھانے کا عادی تھا۔ اسے ہر بات پر سوال اٹھانے کی عادت تھی۔ باپ کی بجائے ماں کیوں خاندان کی سربراہ نہیں ہوتی؟ غیرت صرف مرد کو کیوں آتی ہے؟ عورت کیوں چہرے پر تیزاب نہیں پھینکتی؟ کوئی عمر میں بڑا ہو تو کیا اس کا عقلمند ہونا بھی ضروری ہے؟ کیا ہم نے واقعی خدا کی منشا جان لی ہے؟ اگر ہم کو سمجھنے میں غلطی لگی تھی تو؟ سو ارب کے کہکشاﺅں والے کائنات میں اگر کہیں ہم سے برتر مخلوق موجود تھی تو؟ ایسے بے شمار سوالات تھے جو وہ کرتا رہتا تھا۔ انہی سوالوں کی وجہ سے اسے اکثر پریشانی بھی اٹھانی پڑتی تھی مگر وہ کہاں باز آنے والا تھا۔

 جس بات پر آپ کو رونا آئے اس پر وسیم ہنس سکتا تھا۔ جس بات پر لوگ ہنس لیتے تھے اس بات میں سے وسیم دکھ برآمد کر لیتا تھا۔ وہ بیٹھے بیٹھے بولنا شروع کر دیتا۔ اس کی باتوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا تھا۔ بیٹھے بیٹھے اس کا میٹر آن ہوتا تھا اور وہ بولنا شروع کر دیتا۔ ’ایک دن میں اس آسمان کو پینٹ کروں گا۔ میں آسمان کو برش سے نہیں اپنی انگلیوں سے پینٹ کروں گا۔ میرے آسمان کو دیکھنے والے انسانوں کو اس میں میرا لمس نظر آئے گا جس میں محبت کی ہلکی سی تپش ہو گی۔ تم جانتے ہوبے لوث محبت کی تپش کیسے ہوتی ہے‘؟ کوئی دوست کہتا، منڑا یہ تم کیا بول رہے ہو؟ وسیم اسے حیرت سے دیکھتا اور پھر کہتا، ’ ہاں زوئے! میں بولوں تو فضول بات ہے۔ یہی بات خلیل جبران کی کتاب میں ملے تو تم لوگ واہ واہ کرو گے۔ بس یارا، وہ شاعر کہتا ہے کہ غربت ہے بری چیز جہان تگ و دو میں۔ یار بات سنو! کیا میں اس وقت کسی سوپ سیریل کا غریب اینگری ینگ مین ہیرو جیسا behave نہیں کر رہا؟

ایک دن وہ مجھے اپنے گھر لے کر گیا۔ اس کا باپ ریلوے میں ملازم تھا۔ وہ لوگ ٹین کی چھتوں والے دو کمروں کے ایک چھوٹے سے سرکاری کوارٹر میں رہتے تھے۔ کچن کے ساتھ ایک چھوٹا سا سٹور تھا جو وسیم کا کمرہ تھا۔ دو سال کی رفاقت میں پہلی بار پتہ چلا کہ وہ ایک لازوال آرٹسٹ ہے۔ اس کمرے نما سٹور میں بے شمار پینٹنگز تھیں۔ اس کی کوئی بھی پینٹنگ کینوس پر نہیں تھی۔ آئل کلر بھی کاغذ پر تھے۔ اس نے مٹی سے بہت عجیب و غریب مورتیاں بنائی تھیں۔ مجھے اس زمانے میں آرٹ کی کوئی شد بد نہ تھی۔ میری معلومات بس اتنی تھیں کہ ایک آرٹ abstract ہوتا ہے اور ایک آرٹ natural ہوتا ہے۔ میں نے وسیم سے پوچھا کیا تم نیچرل آرٹسٹ ہو یا ایبسٹریکٹ آرٹسٹ؟ اس نے بہت دکھ عجیب نظروں سے میری جانب دیکھا اور بولا، ’ آرٹ کو کلاسز میں بانٹنا بڑے لوگوں کا کام ہے۔ میرے لئے آرٹ وہ ہے جو آنکھ کو خوبصورت لگے۔ جو آپ کے جمالیاتی حس کی تسکین کر سکے۔ جس میں خوبصورتی تلاش نہ کرنی پڑے۔ میں یورپ میں ہوتا شاید میں بھی Cubism، fauvism کا شکار ہوتا یا aesthetic relativismکے نام پر ٹیڑھے میڑھے چہرے بنا کر expressionist کہلاتا مگر میں تو رنگ اور برش خریدنے پر قادرنہیں ہوں‘۔

میں نے کہا بھائی مجھے یہ Cubism، fauvism، aesthetic relativism، expressionist کا کچھ پتہ نہیں۔ آسان بھاشا میں کچھ بتا دو۔ اس نے اپنے ٹیبل سے ایک چھوٹی سی تصویر اٹھائی اور مجھے دکھا کر پوچھا اس میں تمہیں کیا خوبصورت نظر آتا ہے؟ پہلی نظر میں وہ تصویر مجھے ہندوﺅں کی کالی ماتا کی تصویر لگی۔ میں حلفاََ اس میں کوئی خوبصورتی نہیں ڈھونڈ سکا۔ اس نے میرے ہاتھ سے تصویر لی اور بولا، ’یہ پکاسو کی مشہور زمانہ the weeping woman ہے جو نیشنل گیلری آف وکٹوریہ آسڑیلیا نے 1.6 میلین ڈالر میں خریدی‘۔ پھر اس نے مجھے ایک ا ور پینٹنگ دکھائی اور پوچھا اس میں تمہیں کیا نظر آتا ہے؟

اس پینٹنگ میں سات درخت تھے۔ تین ٹنڈ منڈ سے درخت تھے جو بالکل سوکھ چکے تھے اور ان کے تنوں پر کلہاڑیوں کے بہت سے نشان تھے۔ دو درختوں کے پتے پیلے ہوچکے تھے۔ دو درخت ایسے تھے جن پر ابھی کونپلیں پھوٹی تھیں۔ میں نے کہا ،مجھے آرٹ کی زبان میں تو سمجھ نہیں آتا مگر یہ پنٹینگ ہے بہت خوبصورت اور اس کو دیکھ کر ایک بے نام سی اداسی دل میں آ گئی۔ وہ بہت دیر تک اس پینٹنگ کو دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ ’ میری سات بہنیں ہیں۔ تین کی عمر تیس سال سے اوپر ہو چکی ہے۔ دو کی عمر پچیس سال سے اوپر ہو چکی ہے۔ دو بالترتیب انیس اور سترہ سال کی ہیں۔ سب کi سب گھر بیٹھی ہیں۔ ابا پردے کے معاملے میں سخت ہیں۔ میٹرک کے بعد سب کو اسکول سے اٹھوا دیا۔ برادری سے باہر بیاہنے پر تیار نہیں۔ اب کوئٹہ میں برادری کہاں سے آئے۔ پہلے تو برادری سے رشتہ نہیں آتا۔ کوئی رشتہ آتا بھی ہے تو ابا کہتا ہے کہ لڑکی دیکھے بغیر رشتہ کرنا ہے تو کرو ورنہ راستہ ناپو۔ میں ابا سے کئی بار لڑا ہوں مگر ابا کہتا ہے کہ میری بیٹیوں کے معاملے میں تم کون ہوتے ہو دخل دینے والے۔

 یہ جو پینٹنگ ہے یہ کینوس پر نہیں بنی۔ یہ میری سب سے چھوٹی بہن کے اسکول کی چادرہے۔ اس نے اس سال میٹرک کیا تو ابا نے اسکول سے اٹھا دیا۔ اس نے اپنے اسکول کی چادر کو کلف لگا کر میرے لئے کینوس کے کپڑے میں بدل دیا۔ یہ درخت نہیں ہیں۔ یہ میرے درد ہیں جو میں اپنے بہن کی چادر پر اتار دیئے ہیں۔ جانے تم نے The Raft of the Medusa دیکھا ہے یا نہیں۔ Raft of Medusa کے عرشے پر ننگ دھڑنگ لاشیں پڑی ہیں۔ میری بہن کی چادر پر ننگ دھڑنگ درد پڑے ہیں‘۔

وسیم ایک چھلاوا تھا۔ اس کا ابا ریلوے سے ریٹائر ہو گیا تو وہ لوگ کوئٹہ سے لاڑکانہ شفٹ ہو گئے۔ اس نے آخری بار چار سال پہلے مجھے ایک آدھ جلے کاغذ پر چارجملوں کا ایک خط لکھا تھا۔

پیارے!

 ابا نہیں رہے مگر دنیا ویسی ہی ہے۔ مجھے اب بھی پکاسو کی the weeping woman میں خوبصورتی نظر نہیں آتی۔ اپنے دردوں کے ساتھ زندہ ہوں۔ اب پینٹ نہیں کرتا صرف رنگ کرتا ہوں۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ میں اپنا آسمان پینٹ نہیں کر سکا!

رنگ ساز

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments