پاکستان کی کشمیر اور افغان پالیسیاں فرسودہ ہو چکی ہیں


\"\" ایک افغان تنظیم اے جی ٹی AGT کے زیر اہتمام لوگوں کے ایک گروہ نے آج کابل میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف بینر اٹھا رکھے تھے اور پاکستان دشمن نعرے لگا رہے تھے۔ تاہم اس موقع پر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا۔ مظاہرہ کا اہتمام کرنے والی تنظیم کا لیڈر افغان انٹیلی جنس کا سابق سربراہ امان اللہ صالح ہے اور اس کے مبینہ طور پر بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ یہ مظاہرہ اس ہفتے کے شروع میں کابل اور قندھار میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد ہوا ہے۔ ان حملوں میں 60 لوگ جاں بحق ہو گئے تھے، جن میں قندھار میں متحدہ عرب امارات کے قونصل خانے میں کام کرنے والے 5 سفارتکار بھی شامل تھے۔ ان حملوں کے بعد افغان حکومت کے ترجمان نے الزام لگایا تھا کہ دہشت گردوں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ اس لئے وہ آسانی سے پاکستانی علاقے سے افغانستان آ کر حملے کرتے ہیں اور پھر پاکستان میں اپنے ٹھکانوں پر واپس چلے جاتے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے افغان الزامات کی تائید کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے سب ٹھکانے تباہ نہیں کئے ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے آج ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے یہ پاکستانی موقف دہرایا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کےلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

نفیس ذکریا نے افغان اور امریکی ترجمانوں کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے تفصیل سے پاکستان کو دہشت گردی سے ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا ذکر کیا اور بتایا کہ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے پاکستانی افواج نے قبائلی علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلاتخصیص کارروائی کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ سمیت دنیا کے متعدد ممالک دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں کا اعتراف کرتے ہیں، اس لئے پاکستان پر افغان گروہوں کو پناہ دینے کا الزام غلط اور بے بنیاد ہے۔ پاکستانی ترجمان نے بتایا کہ متعدد دہشت گرد گروہ افغانستان میں آزادانہ پروان چڑھ رہے ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کی بجائے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ انہوں نے پاکستان کے اس موقف کو بھی دہرایا کہ بھارتی انٹیلی جنس ‘را‘ اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی ’این ڈی ایس‘ کے درمیان تعلقات استوار ہیں۔ اس ملی بھگت پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں۔ افغان علاقوں سے شرپسند عناصر پاکستان میں تخریب کاری کےلئے بھیجے جاتے ہیں۔

ان بیانات سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ افغانستان، امریکہ اور پاکستان اس حوالے سے اپنے دیرینہ موقف پر قائم ہیں۔ بلکہ بھارت اس معاملہ میں افغانستان کا ہنموا ہے اور اپنے ملک میں ہونے والی ہر کارروائی کا الزام بے دریغ پاکستان پر عائد کرتے ہوئے اس کے خلاف سفارتی فضا ہموار کرنے کے لئے کوششوں کو تیز کر دیتا ہے۔ یہ صورتحال ایک شیطانی چکر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اور ایک ہی دائرے میں گھوم رہی ہے۔ یہ تینوں ہمسایہ ممالک جب تک یہ احساس نہیں کریں گے کہ رٹے رٹائے الزامات لگانے اور اپنی مشکلات کا الزام دوسروں پر عائد کرنے سے ایک طرف باہمی تعلقات خراب ہوتے ہیں اور اس کشیدگی کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوتا ہے، اس میں سماج دشمن انتہا پسند عناصر کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان الزامات کے تبادلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ افغانستان ، پاکستان اور بھارت کی سکیورٹی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس پورے علاقے میں دہشت گردی کو شکست دینے کےلئے تینوں ملکوں کو تعاون کرنے اور مل جل کر ناپسندیدہ عناصر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی ترجمان کی یہ بات قابل فہم اور نہایت سادہ ہے لیکن اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کےلئے جس سیاسی بصیرت اور حوصلہ کی ضرورت ہے، وہ بدقسمتی سے تینوں ملکوں میں مفقود ہے۔ تینوں ملکوں کی سیاسی قیادت اپنے ملک میں موجود مسائل کا الزام ہمسایہ ملک پر عائد کرکے اپنے ملک کی مخالفانہ رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے افغانستان نے پاکستان سے مایوس ہو کر بھارت کی طرف رجوع کیا ہے۔ اس طرح بھارت اور افغانستان اب پاکستان پر الزام تراشی کی مہم میں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ابھرنے والی عوامی تحریک کو دبانے اور حکمران بی جے پی آئندہ مہینوں میں 5 ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کےلئے پاکستان دشمن نعروں کو سب سے موثر سیاسی ہتھکنڈہ سمجھتی ہے۔

اسی طرح افغانستان کی حکومت گروہی اور قبائلی جوڑ توڑ کے مسائل اور بدعنوانی کی صورتحال کا سامنا کرنے اور مل کر ان کا حل تلاش کرنے اور عسکری گروہوں سے نمٹنے کی کوشش کرنے کی بجائے پاکستان پر الزام لگا کر وقت گزارنے کی کوشش کرتی ہے۔ حالانکہ افغان صدر اشرف غنی کےلئے سب سے بڑا چیلنج تو ملک کی سکیورٹی فورسز کی ناکامی اور فورسز میں پائی جانے والی بدعنوانی ہے۔ یہ صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ بعض فوجی چوکیوں پر متعین فوجیوں کو بروقت راشن اور ضروری ساز و سامان بھی فراہم نہیں ہوتا حالانکہ امریکہ اور یورپ مسلسل افغانستان کو کثیر مالی و عسکری امداد دے رہے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے طالبان کو افغان سکیورٹی فورسز میں اپنے ہمدرد تلاش کرنے اور اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کےلئے ناراض عناصر کی حمایت حاصل کرنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ افغان حکمرانوں نے بے بسی کی تصویر بن کر خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑا ہؤا ہے۔ وہ کسی سانحہ کی صورت میں پاکستان پر الزام لگا کر اپنا غصہ نکالتے ہیں اور ذمہ داری محسوس کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

پاکستان کا رویہ بھی اس طرز عمل سے مختلف نہیں ہے۔ پاکستان کے ترجمان نے آج بھی دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی کامیابیوں ، اس جنگ میں ہونے والے نقصان اور دوسرے ملکوں میں عدم مداخلت کی پالیسی کی بارے میں بیان کو دہرایا ہے۔ حالانکہ یہ گھڑے گھڑائے بیان زمینی حقائق اور صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے۔ پاکستان جب اپنے ملک میں دہشت گردی سے ہونے والے عظیم مالی اور جانی نقصان کا ذکر کرتا ہے تو اسے اس کے ساتھ ہی یہ سوچنے کی ضرورت بھی ہے کہ یہ عناصر ملک میں کیوں کر پروان چڑھنا شروع ہوئے۔ اگر پاکستان میں گزشتہ دس پندرہ برس کے دوران پچاس ساٹھ ہزار شہری اور فوجی جاں بحق ہوئے ہیں اور 100 ارب ڈالر کا مالی نقصان ہوا ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے گی۔ پاکستان کی حکومت ، فوج اور عوام کو ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے فروغ کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔ یہ عناصر افغانستان ، بھارت یا امریکہ نے اس ملک کو برآمد نہیں کئے ہیں۔ اس لئے ان لوگوں سے نمٹنا اور ان کو ختم کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ یہ کارروائی کرتے ہوئے ہم کسی دوسرے ہر کوئی احسان نہیں کرتے۔

پاکستان کی حکومت اور عوام کو تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ فصل ہم نے خود کاشت کی ہے اور برس ہا برس سے دوسروں پر اس کا الزام عائد کرکے ہم اس عفریت کو مسلسل قوی و توانا ہونے کا موقع فراہم کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ آپریشن ضرب عضب شروع کرنے اور قومی ایکشن پلان بنانے کے باوجود ہم ان مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہیں جو ان منصوبوں کے ذریعے حاصل کرنا مقصود تھا۔ اس ناکامی کی ذمہ داری ہمیں خود قبول کرنا ہوگی اور اپنے ملک میں جڑوں تک سرایت ہونے والی انتہا پسندی ، عصبیت اور فرقہ واریت کا مقابلہ بھی ہمیں خود ہی کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس ہم دوسرے ملکوں پر الزام عائد کرکے اپنی ذمہ داری سے فرار کا آسان راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ فراریت نہ تو مسئلہ کا حل ہے اور نہ ہی اس طرح ہم مشکل سکیورٹی صورتحال سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ بلکہ اس طرز عمل کی وجہ سے ہم ان غلط پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے اور خود کو نئی صورتحال کےلئے تیار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ بے یقینی سماج دشمن تخریبی عناصر کو پنپنے کےلئے بہترین ماحول اور فضا فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو سال سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرنے کے باوجود ہم پوری طرح ان مسائل سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہیں۔

یہ ممکن ہے کہ پاکستان اب ہمسایہ ملکوں میں تخریب کاری کےلئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کےلئے اقدامات بھی دیکھنے میں نہیں آتے۔ سرکاری طور پر پاکستان اب بھی کابل میں اسلام آباد کے زیر اثر حکومت کے قیام کو ضروری سمجھتا ہے اور اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک دن پاکستان کا حصہ بن جائے گا۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی 65 برس پرانی ہے اور افغان پالیسی 35 برس قدیم ہے۔ اب اس علاقے اور دنیا کے حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ جو خواب اہل پاکستان کی پرانی نسلوں نے دیکھے تھے، ان کی تعبیر کےلئے ان ہی فرسودہ ہتھکنڈوں کوجاری رکھ کر نہ تو نئے مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں اور نہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دشمنی اور تصادم کی فضا ختم کی جا سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے باالترتیب دو اور ایک نسل پہلے کشمیر/ بھارت اور افغانستان کے بارے میں جو پالیسیاں ترتیب دی گئی تھیں، وہ اس وقت کے تناظر میں قابل عمل ہوتیں۔ لیکن اب بدلتی ہوئی سیاسی ، سماجی اور معاشی ضرورتوں کی وجہ سے وہ فرسودہ ، ناقابل عمل اور ناکارہ ہو چکی ہیں۔

خوابوں سے جان چھڑانا آسان نہیں ہوتا لیکن خواب سے نکل کر ہی حقیقت کی دنیا میں قدم رکھا جا سکتا ہے۔ اور حقیقی کامیابی کےلئے کام ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments