کشمیر اور مذہبی سیاست


\"\" سرینا: ایمنسٹی انٹرنیشنل کی علاقائی برانچ ان مسائل پر کس طرح‌ کا ردعمل پیش کررہی ہے؟

نائلہ علی خان: اے بی وی پی ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف مظاہرے کرتی ہے۔ اے بی وی پی ایک انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست تنظیم ہے جس کا تعلق اس پارٹی سے ہے جو آج کل انڈیا کی حکمران ہے۔ اس تنظیم نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بنگلور میں‌ قائم دفتر میں‌ گھسنے کی کوشش کی لیکن ان کو پولیس نے روکا۔ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف احتجاج کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے حالیہ بدامنی کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل کے زیر انتظام کشمیر کی حمایت میں‌ کئیے گئے ایک جلسے کو اینٹی نیشنل قرار دیا۔ ایمنسٹی کے خلاف ایک بغاوت کا کیس بھی دائر کیا گیا ہے جس کو ایمنسٹی نے رد کیا لیکن انہوں‌ نے بنگلور کا آفس بند کردیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی انڈیا کی برانچ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو آزادیء رائے کے عوامی حقوق کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے جس کی انڈیا کے منشور میں‌ گارنٹی دی گئی ہے۔ انہوں‌ نے کہا کہ بغاوت کے قانون کا ریاستی حکومتی ادارے ناجائز استعمال کررہے ہیں تاکہ ان کارکنوں‌ کو خاموش کرایا جاسکے جو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کررہے ہیں۔ اسی وجہ سے بین الاقوامی برادری کو آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اور میرے خیال میں بین الاقوامی برادری کو کشمیر کے مسائل کے بارے میں‌ آگاہ کرنے کی ذمہ داری کشمیری عوام کے کاندھوں‌ پر ہے۔ جو افراد کشمیری عوام کے رہنما ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‌ ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مذہب اور سیاست کو جدا کرکے کشمیر کی آزادی اور حق رائے دہی کے لئیے چلائی گئی تحریک کو ایک انسانی مقصد کے طور پر پیش کریں تاکہ دنیا میں‌ بکھرے \"\"ہوئے انسانیت کے لئیے کھڑے ہونے والے افراد ان کے خلاف ہونے کے بجائے ان کے حق میں آواز اٹھائیں۔ آج کے دور میں‌ عصبیت اور شدت پسندی کی جانب رجحان بڑھا ہے۔ میں‌ صرف داعش یا طالبان کی بات نہیں‌ کررہی ہوں، دنیا میں عیسائی، ہندو اور یہودی شدت پسندی میں‌ بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر پس منظر کے یہ بدصورت سر ساری دنیا میں اٹھ رہے ہیں۔ یہ ایک سچائی ہے اور نائن الیون کے بعد دنیا مزید تقسیم ہوئی ہے۔ انسانیت کے لئیے کھڑے ہونے افراد اور شدت پسند تنگ نظری ایک تقسیم ہے جو مہذب دنیا کو وحشی دنیا سے الگ کرتی ہے۔ اس بات کا سمجھنا عوام کے حقوق کے لئیے چلائی گئی ہر سیاسی اور سماجی تحریک کے لئیے اہم ہے۔

سرینا: درست فرمایا۔ حال ہی میں‌ میں‌ نے آپ کے فیس بک پیج پر دیکھا کہ آپ کشمیر واپس گئی تھیں جہاں‌ آپ لوگوں سے ملیں، وہاں‌ لیکچر دئیے، یونیورسٹیوں‌ میں‌ دورے کئیے اور عوامی حلقے میں‌ میٹنگ بلائی۔ کیا آپ ہمیں‌ اس بارے میں مزید کچھ بتائیں گی کہ آپ نے اس تجربے سے کیا سیکھا تاکہ دنیا میں‌ مشکلات کا سامنا کرنے والے مختلف پس منظر کے افراد بھی کشمیر کی مثال سے سبق حاصل کرسکیں؟

نائلہ علی خان: کشمیر میں‌ میں‌ نے دیکھا کہ خراب حالات ہونے کے باوجود وہاں‌ پر لوگ بہت ذہین ہیں، ان میں‌ آگے بڑھنے کا جوش اور جذبہ ہے، ان میں‌ مزید سیکھنے اور جاننے کی ایک نہ بجھنے والی پیاس ہے اور اپنی توانائیاں‌ خرچ کرکے بہترین مستقبل پانے کی جستجو ہے۔ پچھلے 26 سال سے بچے جن مشکلات کا سامنا کررہے ہیں ان میں حکومت کا جارحانہ ردعمل اور مسلح بغاوت شامل ہیں۔ عام عوام مذہب اور سیاست کے ساتھ میں‌ ملادینے کے نقصان دہ اثرات بھگت رہے ہیں۔

مذہب جنوب ایشیائی عوام کی زندگیوں‌ کا ایک نہایت اہم حصہ ہے جیسے کہ وہ آج کی امریکی سوسائٹی میں‌ بھی نمایاں ہوا ہے۔ اس لئیے اس کو نظرانداز نہیں‌ کیا جاسکتا۔ مذہب کو جنوب ایشیا میں‌ ایک اہم طاقت کی طرح‌ دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ باشعور اور ذہین ریاستی حکمران ان مذہبی شناختوں کو ایک سیکولر ریاستی ڈھانچے میں‌ شامل کرنے پر زور دیں‌ گے جس میں‌ تمام گروہ حصہ بنیں‌ اور کسی کو بھی باہر نہ نکالا جائے۔ اسی ماحول میں‌ یہ ممکن ہوسکے گا کہ تمام شہری اپنے محبوب عقائد کے ساتھ زاتی زندگی بسر کرنے کے لائق ہوں‌، دیگر عقائد سے مثبت سبق حاصل کرسکیں اور اپنے ممالک کی سیاسی اور سماجی ترقی میں‌ حصہ بٹاسکیں۔

سرینا: کیا جنوب ایشیائی ممالک میں‌ تکثیریت سے عدم برداشت پائی جاتی ہے؟\"\"

نائلہ علی خان: ہاں بالکل۔

سرینا: اچھا یہ بتائیں کہ لڑکیوں‌ کی تعلیم کے بارے میں‌ آپ نے کشمیر میں‌ کیا صورت حال دیکھی؟ کیا وہاں‌ لڑکیوں‌ کا تعلیم حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے؟

نائلہ علی خان: کشمیری خواتین میں شرح خواندگی پڑوسی علاقہ جات سے کافی بہتر ہے۔ جیسا کہ سننے والے جانتے ہیں کشمیری معاشرہ ایک قدامت پسند معاشرہ ہے جس کی وجہ سے لڑکیوں نے ہمیشہ سے روایتی رکاوٹوں کا سامنا کیا ہے اور وہ تہذیبی اعتبار سے کمزور کی گئی ہیں حالانکہ دستور ان کو ووٹ ڈالنے، سیاسی میدان میں‌ مقابلے، تعلیم، نوکری اور برابر تنخواہ کے حقوق دیتا ہے۔ تو قانون کے لحاظ سے ان کو یہ تمام حقوق حاصل ہیں لیکن حقیقی زندگی میں‌ ہیں یا نہیں وہ ایک الگ سوال ہے۔

جیسا کہ آپ دیکھ سکتی ہیں‌ کہ خواتین کو قانونی حقوق کافی عرصہ سے حاصل ہیں لیکن یہ اب جا کر ہوا ہے کہ ایک خاتون کو امریکہ کی صدر بننے کے لئیے ان کی پارٹی نے نامزد کیا اور ہلری کلنٹن کو ڈانلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں‌ تین ملین زیادہ ووٹ ملے۔ تو یہاں تک پہنچنے میں‌ وقت لگا۔ اسی طرح‌ کشمیری خواتین کو یہ سیاسی حقوق حاصل ہیں بلکہ ریاست کی سربراہ بھی ایک خاتون ہیں جو کہ واضح طور پر ریاست میں‌ حالات خراب ہونے کے باعث کامیاب نہیں‌ ہو سکی ہیں۔ کشمیری خواتین کے معاشرتی اور سماجی مسائل بھی ہیں۔ مذہب کی تنگ نظر تشریح‌ نے ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں‌ کھڑی کی ہیں حالانکہ شروع سے ہی ایسی خواتین کی مثالیں‌ تاریخ میں‌ موجود ہیں جنہوں‌ نے اپنی زندگیوں‌ میں‌ عظیم کام کئیے۔

سرینا: یہ ایک عالمی سچائی ہے۔

نائلہ علی خان: یہ ہر جگہ ایک حقیقت ہے۔ ایسی تشریحات موجود ہیں جو خواتین کی ترقی میں‌ رکاوٹ ہیں۔\"\"

سرینا: تو جب آپ واپس جاتی ہیں تو امریکہ میں‌ ایک پروفیسر ہونے کے ناطے آپ کا ایک الگ اسٹیٹس ہے۔ کیا وہاں‌ آپ کو ایک منفرد خاتون کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے؟ کیا آپ جیسی خواتین جنوب ایشیا میں‌ ناپید ہیں؟ کیا آپ کی طرح ایسی اور بھی خواتین ہیں جو نوجوانوں‌ میں‌ شعور بڑھانے کے لئیے جاکر لیکچر دیں؟

نائلہ علی خان: میری امی ایک ریٹائرڈ انگلش پروفیسر ہیں جنہوں‌ نے سری نگر کے ایک خواتین کے کالج میں‌ 34 سال پڑھایا۔ کشمیر میں‌ کافی ساری تعلیم یافتہ خواتین ہیں۔ کافی ساری تعلیم یافتہ کشمیری خواتین دنیا کے دیگر ممالک میں‌ بھی تعلیم کے میدان میں‌ سرگرم ہیں۔ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے نہ صرف کشمیر کے روشن خیال افراد کی حمایت اور امداد حاصل رہی بلکہ امریکہ میں‌ بھی میری کاوشوں‌ کو سراہا گیا ہے۔ مجھے ایسے بہت سارے لوگ ملے جو جمہوریت، خواتین کی آزادی اور حق خوداردیت پر یقین رکھتے ہیں۔

میری خوش قسمتی ہے کہ مانے ہوئے سنجیدہ جرنلزم کے اداروں‌ نے میرے آرٹیکلز چھاپے ہیں۔ میں 2005 سے کشمیری اور بین الاقوامی اخباروں‌ میں‌ لکھتی رہی ہوں۔ میرے خاندان کے سیاسی پس منظر کی وجہ سے بھی کافی لوگوں‌ نے دلچسپی دکھائی اور شائد میں کشمیر میں رہنے والی تعلیمی اداروں سے وابستہ خواتین کے مقابلے میں‌ زیادہ متحرک رہی۔ امریکہ میں‌ مجھے ان لائبریوں اور کتابوں‌ تک رسائی حاصل ہوئی جو کشمیر میں‌ رہتے ہوئے ممکن نہیں تھی۔ پھر دونوں‌ ملکوں میں‌ سفر کرنے کی وجہ سے مجھے یہ موقع ملا کہ میں مختلف اسکولوں‌ اور کالجوں‌ میں‌ جاکر لیکچر دے سکوں‌ جو کہ ہر کسی کے لئیے اتنا آسان نہیں۔

سرینا: مجھے خوشی ہے کہ پچھلے بیس سال میں‌ خواتین کی تعلیم کے میدان میں‌ کافی کام ہوا ہے جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کے حالات میں‌ سدھار کی توقع ہے۔

نائلہ علی خان: میرے خیال میں‌ لوگوں‌ کے لئیے یہ سمجھنا ضروری ہے خاص طور پر ایسے لوگ جن کے متعصب خیالات ہیں کہ کوئی بھی \"\"معاشرہ اپنی تعلیم یافتہ خواتین کے مکمل تعاون کے بغیر ترقی نہیں‌ کرسکتا۔ کافی سارے مذہبی حلقوں‌ میں‌ یہ خوف پایا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین مذہب سے دوری کا سبب ہیں یا ان سے مذہب کو خطرہ ہے لیکن ہم تاریخ کے جائزے سے جانتے ہیں کہ آزادی کی جدوجہد میں‌ یہاں‌ تک کہ برطانوی راج سے انڈیا کی آزادی کی جدوجہد میں‌ یہ آزاد اور خودمختار خواتین ہی تھیں جنہوں‌ نے اپنے خاندانوں کا حصہ ہوتے ہوئے شانہ بشانہ کام کرکے اپنی اقوام کی تشکیل میں‌ اہم کردار ادا کیا تو یہ دو جدا دائرے نہیں ہیں۔

سرینا: تو یہ محض ایک خوف ہے؟

نائلہ علی خان: ہاں‌ بالکل۔

سرینا: تبدیلی کا خوف سماج کو منجمد کردیتا ہے۔

یہ ڈاکٹر نائلہ علی خان پی ایچ ڈی کے پیس بز ان اوکلاہوما سٹی کے لئیے انٹرویو کا دوسرا حصہ ہے جو 19 اگست 2016 میں‌ کیا گیا۔ اس انٹرویو کو انگریزی میں‌ سدھارتا گرو نے لکھا اور اس کا ڈاکٹر لبنیٰ مرزا ایم ڈی نے اردو میں ترجمہ کیا۔

 

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments